پرنس فلپ: ڈیوک آف ایڈنبرا ایوارڈ نوجوانوں کے لیے ایک مدد گار
- ایلس ایوانس
- بی بی سی نیوز
اس ایوارڈ کے چیلنج میں شامل ہونے سے قبل نیتھن اور جیمز مجرمانہ سرگرمیوں شامل تھے
آپ کے لیے ڈیوک آف ایڈنبرا ایوارڈ کی کیا اہمیت ہے؟ کچھ لوگوں کے لیے یہ اپنا بایوڈیٹا چمکانے سے زیادہ نہیں جس سے ان کی بارش کے موسم میں برطانیہ کے دیہی علاقوں میں پیٹھ پر بھاری بوجھ اٹھائے پیدل چلنے کی یادیں وابستہ ہیں۔ لیکن جن دسیوں لاکھوں نوجوانوں نے اپنی اصلاح کی خاطر اس چیلنج کو قبول کیا ان میں سے بہت سے ایسے افراد ہیں جن کو اس کے ذریعہ اپنی زندگی کو بدلنے کے مواقع فراہم ہوئے۔
جیمز کا کہنا ہے کہ اگر یہ ایوارڈ نہ ہوتا تو شاید وہ جیل میں ہوتے۔ اس وقت جیمز 15 سال کے اور ان کے دوست نیتھن 16 سال کے تھے۔ اس عمر میں انھوں نے نہ جانے کتنی بار پولیس سے چھپنے کا کھیل کھیلا تھا۔ وہ اس وقت نارتھ ایسٹ انگلینڈ کے دارلنگٹن میں بڑے ہو رہے تھے۔ دونوں کی زندگی میں کرنے کے لیے کوئی خاص کام نہیں تھا۔ ایسی صورتحال میں دونوں شرارتیں کیا کرتے تھے۔
تھوڑی سی تفریح کے لیے غیر قانونی طور پر موٹرسائیکلوں کی دوڑ لگانے کی عادت انھیں چھوٹے موٹے جرائم کی دنیا میں لے گئی۔ چوریوں اور سماج دشمن کاموں میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ وہ املاک کو بھی نقصان پہنچانے لگے۔
جیمز اپنے برتاؤ کے بارے میں کہتے ہیں: ‘ہم بس مار پیٹ کیا کرتے تھے۔’ جبکہ نیتھن کا کہنا ہے کہ ‘میں جہاں بھی ہوتا وہاں ضرور کچھ گڑبڑ کرتا تھا۔’
سنہ 2018 میں مختلف جرائم میں پکڑے جانے کے بعد ان دوستوں کو سماجی خدمات انجام دینے یا ٹوٹی چیزوں کی ‘مرمت’ کا حکم دیا گیا تھا۔ ایک کمیونٹی پروجیکٹ میں یوتھ آفینڈنگ آفیسر ڈیو کرٹن نے انھیں بائیک کی مرمت کا طریقہ سکھایا۔ دونوں نے اسے بہت اچھی طرح سے سیکھا۔
ڈیو خود بھی ڈیوک آف ایڈنبرا کے رہنما ہیں۔ انھوں نے مرمت کرنے والے پینل میں شامل افراد اور ان دونوں نوجوانوں کے مابین سمجھوتہ کرا دیا۔ شرط یہ تھی کہ اگر وہ ڈیوک آف ایڈنبرا کے برونز ایوارڈ کو پورا کرتے ہیں تو ان کی سماجی خدمات کی سزا میں پانچ گھنٹے کی کمی کر دی جائے گی۔
ڈیو کا کہنا ہے کہ ‘یہ ایک چھوٹا سا انعام تھا، جیسے خرگوش کو گاجر دکھانا۔ دونوں لڑکے ابتدا میں ہچکچارہے تھے۔ لیکن پھر وہ راضی ہوگئے۔ دو تین ہفتوں کے بعد ہی انھیں اپنے ہاتھ میں آنے والے موقع کا احساس ہوا۔’
سنہ 2017 میں طلائی ایوارڈ کی ایک تقریب میں پرنس فلپ کی شرکت
شرکا کو کانسے کے ایوارڈ کے چار حصے مکمل کرنے میں تقریباً چھ ماہ لگتے ہیں۔ اس میں رضاکارانہ خدمات، جسمانی چیلنجز، ہنر مندی کی صلاحیت پیدا کرنا، اور کسی مہم میں حصہ لینا شامل ہے۔ مہم میں عام طور پر دو دن کا پیدل سفر اور پھر رات کو خمیہ زن ہونا شامل ہوتا ہے۔ دوسری طرف، نقرئی اور طلائی ایوارڈز زیادہ چیلنجز والے ہوتے ہیں اور اسے مکمل ہونے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔
ڈیو کا کہنا ہے کہ برونز ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے جس عزم کی ضرورت ہوتی ہے اس نے ان کے طرز عمل کو تبدیل کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘اس نے ان دونوں کی شرارتوں پر پابندی لگا دی۔’
نیتھن کا کہنا ہے کہ نیویگیشن جیسے نئے فن کو سیکھنے کے دوران انھیں احساس ہوا کہ وہ چیزوں کو کتنی جلدی سیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘جب تک آپ کوشش نہیں کرتے اس وقت تک آپ نہیں جانتے کہ آپ کے اندر کتنی صلاحیتیں پوشیدہ ہیں۔’
جب پرنس فلپ نے سنہ 1956 میں ڈیوک آف ایڈنبرا ایوارڈ شروع کیا تو ان کا یہی خیال تھا کہ نیتھن جیسے نوجوان اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچانیں۔ اس وقت یہ ایوارڈ صرف لڑکوں کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ ڈیوک نے خود ہی اس خیال کا اظہار کیا اور کہا کہ ‘اگر آپ ایک نوجوان کو ایک سرگرمی میں کامیابی سے ہمکنار کراتے ہیں تو کامیابی کا یہ احساس بہت سے دوسرے لوگوں میں بھی پھیلتا ہے۔’
پرنس فلپ نے اپنے بچپن میں مشکل وقت دیکھا تھا۔ اس دوران ان کی خود انحصاری کی خواہش نے ان کی بہت مدد کی۔ ان کے اس خیال کی جڑیں ان کے سکول کے دنوں کے تجربات میں پیوست ہیں۔
ایوارڈ میں شرکت کرنے والوں کو دیے جانے والے کاموں میں جسمانی کام بھی شامل ہیں
پرنس فلپ اور ان کے بیٹے پرنس چارلس نے گورڈنسٹاؤن سکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اس سکول میں خود انحصاری اور سخت جسمانی نظم و ضبط پر زور دیا جاتا تھا۔ نیٹ فلکس کی سیریز ‘دی کراؤن’ میں بھی اسے پیش کیا گیا ہے۔
ابتدا میں ڈیوک آف ایڈنبرا کا یہ ایوارڈ صرف لڑکوں کے لیے تھا۔ پہلے سال سات ہزار لڑکوں نے اس کے لیے درخواست دی۔ سنہ 1958 میں لڑکیوں کو بھی اس ایوارڈ میں شامل کیا گیا لیکن ابتدائی طور پر انھیں گھریلو کام اور سماجی خدمات کی تربیت دی جاتی تھی۔
سنہ 1980 میں یہ پروگرام لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ایک جیسا ہی بنا دیا گیا۔ یہ مساوات کی طرف ایک قدم تھا۔ اس نے لڑکیوں کو اپنے بچپن کی مشکل یادوں پر قابو پانے میں بھی مدد فراہم کی۔
لارین (تبدیل شدہ نام) کا اپنے ہی گھر والوں نے استحصال کیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ انھیں بالکونی سے لٹکا دیا جاتا تھا۔ استحصال کے اس دور نے ان کے اندر بلندی کا خوف پیدا کر دیا۔
سنہ 2018 میں جب لارین برونز ایوارڈ کا چیلنج مکمل کررہی تھیں تو وہ چودہ سال کی تھیں۔ اضافی سرگرمی کے طور پر انھیں اونچائی سے لکٹنے والی رسیوں پر مشق کا کام دیا گیا۔
لارین نے بتایا: ‘وہاں مجھے ایک دوست ملا جو میری حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔ بالآخر میں نے یہ مشق ختم کی اور مجھے بہت سکون محسوس ہوا۔’
اس دن ان اونچی رسیوں پر لٹکنے سے لورین کا بلندی سے خوف کھانا ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ وہ کہتی ہیں: ‘میں اب کچھ بھی کر سکتی ہوں۔’
لارین ان دنوں حکومت کی دیکھ بھال میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے وہاں جو دوست بنائے انھوں نے نئی مہارتیں سیکھنے میں ان کی مدد کی اور ایک سماجی کارکن بننے میں ان کے لیے اہم ثابت ہوئے۔ وہ کہتی ہیں کہ اب وہ ایسے بچوں کی مدد کرنا چاہتی ہیں جن کا بچپن مشکل رہا ہے۔
جو شرکا گولڈ ایوارڈ کے چیلنج مکمل کرتے ہیں ان کے پاس مختلف تجربات ہوتے ہیں۔ انھیں شاہی رہائش گاہ پر منعقد ہونے والے خصوصی پروگرام میں بلایا جاتا ہے۔ لندن میں ہر سال سینٹ جیمس پیلس اور بکنگھم پیلس گارڈن میں اس طرح کی بہت سی تقاریب ہوتی ہیں۔ یہ تقریبات ایڈنبرا کے ہولیروڈ ہاؤس اور ہلزبرو کیسل کے کاؤنٹی ڈاون میں بھی منعقد کی جاتی ہیں۔
شہزادہ فلپ نے خود اس طرح کے 500 پروگراموں میں حصہ لیا تھا۔ جب شہزادہ بذات خود موجود نہیں ہوتے تو شاہی خاندان کے دوسرے افراد ان کی جگہ پر اس پروگرام میں شریک ہوتے۔ وہ اپنی زندگی کے آخری دن تک اس ادارے کے رہنما رہے۔
محمد لیالی کہتے ہیں کہ جب وہ شہزادہ فلپ سے ملے تو وہ بہت پرجوش تھے۔ یہ سنہ 2017 میں شہزادہ کے خود کو عوامی پروگراموں سے الگ کرنے سے قبل منعقد ہونے والی چند تقریبات میں سے ایک تھا۔
پروگرام کے دوران محمد نے جو دوست بنائے وہ اب بھی ان کے رابطے میں ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ‘پرنس ہر گروپ کے پاس گئے اور سب سے باتیں کیں۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے ہمیں بتایا کہ ہمیں ہمیشہ زیادہ سے زیادہ متحرک رہنا ہے اور جب تک ہمارے جسم میں توانائی ہے ہمیں اس کا بہترین استعمال کرنا ہے۔’
محمد سنہ 2013 میں شام سے بطور مہاجر برطانیہ آئے تھے۔ اس وقت وہ 17 سال کے تھے۔ انھوں نے اپنی انگریزی کو بہتر بنانے اور نئے لوگوں سے ملنے کے لیے اس ایوارڈ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ انھوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور ریڈ کراس میں شامل ہوگئے اور برطانیہ پہنچنے والے دوسرے مہاجرین کی مدد کرنے لگے۔
محمد یونیورسٹی آف ساؤتیمپٹن میں اپنی میڈیکل کی تعلیم کا سہرا اپنے طلائی ایوارڈ کو دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں اب بھی یقین نہیں ہے کہ انھیں شہزادہ فلپ سے ذاتی طور پر ملاقات کا موقع ملا تھا۔
محمد لیالی شام سے ترک وطن کر کے برطانیہ پہنچے ہیں
وہ کہتے ہیں: ‘جب میں شام سے چلا تھا تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میں شہزادہ فلپ سے ملوں گا یا میں یہ سب کرسکتا ہوں۔’
سنہ 2021 تک نیتھن، جیمز ، لارین اور محمد جیسے 31 لاکھ نوجوانوں کو ڈیوک آف ایڈنبرا ایوارڈ مل چکا ہے۔ اس پروگرام کا ایک بین الاقوامی ورژن بھی موجود ہے جس میں اس وقت دنیا کے 130 ممالک میں 10 لاکھ سے زیادہ افراد شریک ہیں۔
اگرچہ اس پروگرام میں شرکت کرنے والے نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے لیکن اس کا مقصد اب بھی وہی ہے جیسا کہ ڈیوک نے خود ہی سنہ 2010 میں کہا تھا۔
‘انسانی زندگی کے کبھی نہ ختم ہونے والے مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ ہر نسل کے نوجوانوں کو اپنے لیے زندگی کا مفہوم خود ہی ڈھونڈنا ہوتا ہے۔ یہ تجربات عام سبق دیتے ہیں اور ثابت قدمی اور عزم کے ساتھ کیا کیا حاصل کیا جاسکتا ہے یہ بتاتے ہیں۔’
ڈارلنگٹن کے جارج اور ناتھن نے یقیناً یہ سبق سیکھ لیا ہے۔ برونز ایوارڈ کے چیلنجز مکمل کرنے کے بعد سے دونوں میں سے کسی نے بھی کوئی جرم نہیں کیا ہے۔
ناتھن کہتے ہیں: ‘یہ جان کر اچھا لگا کہ آپ کا دوست اچھا ہے اور اچھا کام کررہا ہے۔ ہمیں اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ہم دونوں میں ایک ساتھ تبدیلی آئی ہے۔’
Comments are closed.