سندھ ہائیکورٹ میں ڈیفنس کلفٹن میں بارشوں کا پانی جمع ہونے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ ڈیفنس کا علاقہ رہائش کے لیے ڈراؤنا خواب بن گیا ہے۔
سندھ ہائیکورٹ میں ڈیفنس کلفٹن میں بارشوں کا پانی جمع ہونے کے خلاف درخواست پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے سماعت کی۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست ڈیفنس، کلفٹن کے رہائشیوں کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔
دورانِ سماعت جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس میں کہا کہ ڈیفنس کا علاقہ رہائش کے لیے ڈراؤنا خواب بن گیا ہے، بارش کے بعد جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر ہیں، کچرا اٹھانے والا کوئی نہیں ہے، یہ علاقہ کتنا ریونیو دیتا ہے اور آپ نے کیا حالت کر دی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ پانی جمع ہونے سے لوگوں کا کتنا نقصان ہوا ہے کوئی ڈیٹا جمع کیا گیا ہے؟
جسٹس حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ پہلے پرائیویٹ کمپنی علاقے سے روزانہ کچرا اٹھاتی تھی، جب سے آپ لوگوں نے کچرا اٹھانا شروع کیا ہے ہفتے میں ایک دن کچرا اٹھاتے ہیں، آپ لوگ تو افسران ہیں 20 سال بعد ریٹائر ہوجائیں گے، علاقہ مکین پریشان ہیں پراپرٹی کے ریٹ بھی کم ہو رہے ہیں۔
سماعت کے دوران وکیل ڈی ایچ اے کا کہنا تھا کہ کچرا اٹھایا جا رہا ہے جس پر عدالت نے کہا کہ ہم ابھی ناظر کو بھیجتے ہیں چیک کرکے رپورٹ دے گا کتنا کچرا پڑا ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ ابھی تو ڈینگی نہیں آیا ڈینگی آیا تو آدھے سے زیادہ وکیل چھٹیوں پر ہوں گے۔
وکیل ڈی ایچ اے نے عدالت کو بتایا کہ ڈیفنس فیز 4٫6 میں نالے کی تعمیر کا ٹھیکا این ایل سی کو دے دیا ہے، این ایل سی کورنگی نالے کی بھی صفائی کا کام کر رہا ہے۔
سماعت کے دورانِ درخواست گزار کا بتانا تھا کہ این ای ڈی کے ماہرین نے سروے کے لیے 20 ملین روپے فیس مانگی ہے۔
عدالت نے سات دن میں این ای ڈی یونیورسٹی کے ماہرین سے سروے رپورٹ طلب کرتے حکم دیا کہ درخواست گزار، ڈی ایچ اے و دیگر مل کر ماہرین کی فیس ادا کریں۔
Comments are closed.