ڈیاگو گارسیا: بحرہند کا برطانوی جزیرہ جو پناہ گزینوں کے لیے ’جہنم‘ بن گیا
برطانیہ کے زیر انتظام بحر ہند کے ایک چھوٹے سے علاقے میں درجنوں تارکین وطن تقریباً دو سال سے پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ اس وقت سے پھنسے ہوئے ہیں جب سے انھیں ایک ماہی گیری کی کشتی سے بچایا گیا تھا۔
وہ اس جزیرے کو ’جہنم‘ کہتے ہیں اور اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس جزیرے پر ڈرے سہمے رہتے ہیں اور وہاں سے نہ نکل پانے کی قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے انتہائی بے بس اور بے اختیار محسوس کرتے ہیں۔
اس کہانی میں بیان کیے جانے والے تمام تارکین وطن کے نام ان کی شناخت کے تحفظ کے لیے تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
یہ اکتوبر سنہ 2021 کی ایک صبح کی بات ہے جب مچھلیاں پکڑنے والی ایک کشتی ڈیاگو گارسیا جزیرے کے قریب پانی پر تیرتے رہنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔
قریب تھا کہ یہ کشتی ڈوب جاتی مگر اس سے قبل فوری طور پر حکام کی توجہ اس ڈوبتی کشتی کی جانب مبذول کرائی کیونکہ یہ جزیرہ کسی بھی آبادی سے سینکڑوں کلومیٹر دور برطانیہ اور امریکہ کا ایک فوجی اڈہ تھا اور یہاں کسی کو بغیر اجازت قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں 89 افراد سوار تھے اور ان کا تعلق سری لنکا کی تمل برادری سے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ملک میں ہونے والے ظلم و ستم سے نجات کے لیے نکلے ہیں اور ان کا جانتے بوجھتے اس جزیرے پر آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ کینیڈا میں پناہ حاصل کرنے کے لیے روانہ ہوئے تھے اور انھوں نے نقشوں اور جی پی ایس ڈیٹا کی مدد سے وہاں جانے کی منصوبہ بندی کی تھی لیکن خراب موسم اور انجن کی خرابی نے انھیں گھیر لیا۔
کشتی پر سوار ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ جب کشتی مشکلات کا شکار ہوئی تو انھوں نے قریب ترین محفوظ جگہ کی تلاش شروع کی۔
’ہم نے تھوڑی سی روشنی دیکھی اور جزیرے ڈیاگو گارسیا کی طرف کشتی کا رُخ موڑ دیا۔‘
وہاں پانیوں میں موجود برطانوی رائل نیوی کے ایک جہاز نے کشتی کو جزیرے تک پہنچایا اور ان پر سوار لوگوں کو عارضی طور پر وہاں رکھا گیا۔
یہ واقعہ 20 ماہ قبل پیش آیا تھا اور جزیرے اور لندن کے حکام کے درمیان بات چیت سے یہ پتا چلتا ہے کہ تارکین وطن اب بھی وہاں موجود ہیں مگر وہاں جزیرے پر درپیش حالات اتنے سنگین تھے کہ اُن میں سے کچھ افراد نے وہاں کی صورتحال سے تنگ آ کر خودکشی کرنے کی کوشش بھی کی۔
’بے مثال‘ واقعہ
کچھ تارکین وطن کی نمائندگی کرنے والے ایک وکیل نے برطانوی دفتر خارجہ سے ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے درخواست دی کہ حکام نے اس کیس میں کیا کارروائی کی ہے اور معاملہ کہاں تک پہنچا ہے۔
وکیل نے بی بی سی کے ساتھ وہ دستاویزات شیئر کی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہلکار ابھی بھی یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس ’انوکھے‘ واقعے کا کیا کرنا ہے۔
پہلے پیغامات میں ’انجن کی مرمت کے آپشن کی چھان بین‘ کے متعلق بات کی گئی تھی لیکن پھر یہ کہا گیا کہ وہ اس بات کو بھی ’رد نہیں کر سکتے کہ یہ افراد ڈیاگو گارسیا میں پناہ لینے‘ کے لیے آئے تھے۔
دوسرے دن، یہ امکان ایک حقیقت بن گیا۔
تمل شہریوں نے جزیرے پر برطانوی افواج کے کمانڈر کو ایک خط پیش کیا جس میں کہا گیا کہ وہ ظلم و ستم سے بھاگ رہے ہیں۔ 18 دن پہلے وہ سب انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو سے کشتی کے ذریعے نکلے تھے اور ’کسی محفوظ ملک بھیجے جانے کی خواہش رکھتے تھے۔‘
اس کے بعد سے ان میں بہت سے لوگوں نے کہا کہ ان کے سری لنکا کے سابق تمل ٹائیگر باغیوں سے روابط ہیں۔
خیال رہے کہ تمل ٹائيگر سنہ 2009 کی خانہ جنگی کے نتیجے میں شکست سے دوچار ہوئے تھے۔ ان میں سے کچھ کا الزام ہے کہ اپنے ملک میں وہ تشدد اور جنسی زیادتی کا شکار بھی رہے تھے۔
اوورسیز ٹیریٹریز کے ڈائریکٹر پال کینڈلر کے ذریعہ لندن میں منظور شدہ ایک آفیشل ’بریفنگ نوٹ‘ میں کہا گیا کہ گروپ کی ’غیر متوقع آمد‘ نے پہلی بار برٹش انڈین اوشین ٹیریٹری (بی آئی او ٹی) میں پناہ کے لیے درخواست دی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اگر میڈیا اس بابت ان سے رابطہ کرتی ہے تو سرکاری ’بیان‘ یہ ہو گا کہ برطانیہ کی حکومت اس ’واقعے سے باخبر‘ ہے اور ’صورتحال کو حل کرنے کے لیے فوری طور پر کام کر رہی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اس گروپ کے پاس ’فی الحال بیرونی دنیا کے ساتھ رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس خبر کے پھیلنے کا بہت امکان ہے۔‘
اس کے بعد کے مہینوں میں جیسے جیسے لندن سے پیغامات آتے اور جاتے رہے مزید جہاز ڈیاگو گارسیا پہنچنے لگے۔ وکیلوں کے اندازوں کے مطابق ایک موقع پر تو کیمپ میں لوگوں کی تعداد بڑھ کر کم از کم 150 تک پہنچ گئی تھی کیونکہ کئی دوسرے سری لنکا سے بھی وہاں پہنچے تھے۔
خودکشی کی کوششیں
اسی دوران پناہ کے کئی متلاشیوں کو حقیقت کا احساس ہونے لگا۔
مہاجرین میں سے ایک لکشانی نے گذشتہ ماہ بی بی سی کو بتایا کہ ’پہلے تو ہم یہ سوچ کر بہت خوش تھے کہ ہم بچ گئے، ہمارے پاس کھانا ہے اور ہم اذیت سے دور ہیں۔‘
لیکن پھر انھیں یہ احساس ہونے لگا کہ یہ ٹراپیکل جزیرہ پناہ کے لیے کسی جہنم سے کم نہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ گذشتہ سال اکتوبر میں ان کے ساتھ ایک شخص نے جنسی زیادتی کی جو اسی کشتی میں ان کے ساتھ سفر کر رہا تھا اور ان کے ساتھ اسی سٹور میں رہ رہا تھا، جہاں وہ تھیں۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نے چیخنا شروع کر دیا لیکن کوئی مدد کے لیے نہیں آیا۔‘
جب خاتون نے باضابطہ شکایت درج کرانے کے قابل ہوئی تو انھیں بتایا گیا کہ اس کے شواہد اکٹھا کرنا مشکل ہے کیونکہ انھوں نے اپنے کپڑے دھو دیے تھے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں تقریباً ایک ہفتے تک اپنے مبینہ حملہ آور کے ساتھ اسی سٹور میں رہنا پڑا یہاں تک کہ حکام نے بالاخر ان کے منتقل ہونے کے مطالبے کا جواب دیا۔
برطانیہ کی حکومت اور برٹش انڈین اوشین ٹیریٹری انتظامیہ نے اس الزام پر تبصرہ کرنے کی بی بی سی کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
لکشانی اور دیگر نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے یا جن لوگوں کو وہ جانتے تھے، نے خودکشی کی کوشش کی یا خود کو نقصان پہنچایا، حتیٰ کہ تیز دھار چیزیں بھی نگل لی تھیں۔
وکلا کا کہنا ہے کہ وہ اس کیمپ کے اندر خودکشی کی کم از کم 12 کوششوں اور دو جنسی حملوں کی اطلاعات سے آگاہ ہیں۔
خود کو دو بار زخمی کرنے والے ایک اور شخص وتھوسن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم ذہنی اور جسمانی طور پر تھک چکے ہیں۔ ہم ایک بے جان زندگی گزار رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے میں ایک مردہ آدمی کی طرح جی رہا ہوں۔‘
ایک اور آدمی آدھاون نے بتایا کہ انھوں نے ’ساری امید کھو دی‘ اور پھر اپنی جان لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں یہاں ہمیشہ کے لیے پنجرے میں بند جانور کی طرح نہیں رہنا چاہتا تھا۔‘
ایک خاتون شانتی نے بتایا کہ ان کے شوہر نے بھی خودکشی کی کوشش کی تھی۔
لکشانی نے بتایا کہ کیمپ کے ایک افسر نے انھیں اپنی جان لینے کے بارے میں اکسایا اور کہا کہ انھیں سری لنکا واپس بھیج دیا جائے گا۔ لکشانی الزام عائد کرتی ہیں کہ سری لنکا میں فوجیوں نے ان کا ریپ کیا تھا۔
برطانیہ کی حکومت اور اس مہاجر کیمپ کی حفاظت پر معمور نجی سکیورٹی فرم جی فور ایس (G4S) نے اس دعوے پر تبصرہ کرنے کی بی بی سی سی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
جی فور ایس کا کہنا ہے کہ اس کے اہلکار جزیرے پر تارکین وطن کے ساتھ ’ہر وقت عزت اور احترام‘ سے پیش آتے ہیں جبکہ برطانوی حکومت کے ترجمان نے کہا کہ برٹش انڈین اوشین ٹیریٹری پر تارکین وطن کی ’بہبود اور حفاظت‘ انتہائی ’حساس‘ معاملہ ہے اور ’بدسلوکی کے تمام الزامات کی اچھی طرح سے چھان بین کی جائے گی۔‘
’ہم طوطوں کی طرح ہیں، ہم پنجرے میں ہیں‘
وکلا کا کہنا ہے کہ برٹش انڈین اوشین ٹیریٹری کمشنر نے تارکین وطن کے فون ضبط کر رکھے ہیں اور انھیں طبی علاج کی سہولت فراہم نہیں کی جا رہی ہے تاہم حکام نے عدالتی دستاویزات میں اس الزام کو مسترد کیا ہے۔
حکام کا مؤقف ہے کہ بھوک ہڑتال کے جواب میں کیمپ سے تیز دھار چیزیں ہٹا دی گئیں اور خود کو نقصان پہنچانے جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے دیگر اقدامات کیے گئے۔
ہر کوئی اس بات سے متفق نظر آتا ہے کہ ڈیاگو گارسیا فوجی اڈہ ایسی جگہ نہیں، جس کا مقصد پناہ گزینوں کو رہنے کے لیے جگہ مہیا کرنا ہے۔
برطانیہ نے سنہ 1965 میں جزائر چاگوس کا کنٹرول سنبھال لیا اور ڈیاگو گارسیا اس کا ایک حصہ ہے۔ اس کے بعد اس جزیرے پر فوجی اڈہ قائم کرنے کے لیے یہاں موجود ایک ہزار سے زائد آبادی کو بے دخل کیا گیا۔
ماریشس جس نے سنہ 1968 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی، کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ یہ جزائر اس کے اپنے ہیں اور اقوام متحدہ کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ برطانیہ کا اس علاقے کا انتظام سنبھالنا ’غیر قانونی‘ ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے۔
گذشتہ برس ان جزائر کے حوالے سے مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق سے پہلے تک برطانیہ نے ہمیشہ بین الاقوامی دباؤ کی مزاحمت کی۔
امریکی طیارے گزشتہ چند دہائیوں میں افغانستان اور عراق پر بمباری کرنے کے لیے اسی اڈے سے بھیجے جا رہے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ سی آئی اے کی ’بلیک سائٹ‘ ہے، جہاں دہشت گردی کے مشتبہ افراد کو پوچھ گچھ کے لیے رکھا جاتا ہے۔
لندن میں دائر عدالتی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ یہاں فوجی اہلکاروں کو کورونا وائرس سے الگ تھلگ کرنے کے لیے لگائے گئے خیمے بھی پنا گزینوں کے لیے عارضی کیمپ بن گئے۔
کیمپ کے چاروں طرف باڑ اور اندر بنیادی طبی سہولیات اور ایک کینٹین ہے۔
شانتی نے یہاں کی زندگی کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم طوطوں کی طرح ہیں، ہم ایک پنجرے میں ہیں۔‘
تارکین وطن کی نمائندگی کرنے والے وکلا کا کہنا ہے کہ بنیادی تعلیم یہاں تقریباً ایک سال سے دستیاب ہے لیکن چوہوں کے حملے کی وجہ سے بعض اوقات کلاسیں باہر منعقد کی جاتی ہیں۔
یہاں پر رہنے یا جانے کی کشمکش
(فائل فوٹو)
کچھ تارکین وطن اپنی درخواست واپس لینے یا مسترد ہونے کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ گئے ہیں۔ وکلا نے بتایا کہ کچھ نے پناہ حاصل کرنے کی امید میں بحر ہند کے ایک فرانسیسی علاقے ریونین جزیرے کا سفر کیا۔
اس وقت کم از کم 60 تامل ڈیاگو گارسیا میں مقیم ہیں۔ وہ اپنی قسمت کے فیصلوں کا انتظار کرتے ہیں یا برطانیہ میں ہزاروں میل دور ہونے والی پیچیدہ قانونی کارروائیوں میں فیصلوں کو چیلنج کرتے ہیں۔
پناہ گزینوں سے متعلق بین الاقوامی قانون برطانیہ پر لاگو ہوتا ہے تاہم عدالتی دستاویزات کے مطابق اس قانون کا برٹش انڈین اوشین ٹیریٹری پر اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ یہ ایک ایسا علاقہ جسے ’آئینی طور پر برطانیہ سے الگ‘ بیان کیا گیا ہے۔
اس خیال کہ کسی کو بھی ایسے ملک میں واپس نہیں جانا چاہیے جہاں انھیں تشدد یا غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پر مبنی ایک الگ عمل اس بات کا تعین کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا کہ آیا تارکین وطن سری لنکا واپس جا سکتے ہیں یا کسی ’محفوظ تیسرے ملک۔‘
وکیل ٹیسا گریگوری نے کہا کہ وہ لندن کی جس فرم کے لیے کام کرتی ہیں، نے ڈیاگو گارسیا کے متعدد پناہ گزینوں کی جانب سے ایک عدالتی جائزے کا آغاز کیا ہے، جس میں اس عمل کی ’قانونی حیثیت‘ کو چیلنج کیا گیا، جسے وہ ’بنیادی طور پر غیر منصفانہ‘ قرار دیتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کچھ تارکین وطن کی سری لنکا واپسی کے فیصلے جلد بازی کے ابتدائی انٹرویوز کی بنیاد پر کیے گئے تھے اور زیادہ جامع انٹرویوز میں غلط ترجمہ کیا گیا تھا۔
دوسروں کو غیر یقینی صورتحال میں چھوڑ دیا گیا تھا کیونکہ برطانوی حکومت نے ابھی تک کسی محفوظ تیسرے ملک کی نشاندہی نہیں کی۔
برطانوی حکومت کا اصرار ہے کہ جزیرے کے حکام ’برٹش انڈین اوشین ٹیریٹری قانون کے تحت اور بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کے مطابق تارکین وطن کے تحفظ کی درخواستوں پر غور کر رہے ہیں۔‘
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے برطانیہ کے دفتر نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ڈیاگو گارسیا میں تارکین وطن کی ’صحت کی بگڑتی ہوئی صورتحال‘ کی خبروں سے پریشان ہے اور حکام سے پناہ گزینوں تک رسائی کی درخواست کی گئی ہے لیکن ابھی تک انھیں اجازت نہیں ملی۔
مہاجرین کی حفاظت کی ذمہ داری
ہیومن رائٹس واچ میں کمیونیکیشنز کوآرڈینیٹر ایمیلی میکڈونل کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی حکومت کو ’ان پناہ گزینوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے تمام آپشنز پر غور کرنا چاہیے جو برطانیہ کے زیر کنٹرول علاقے میں ہیں اور اسی لیے برطانیہ کو انھیں تحفظ بھی فراہم کرنا چاہیے۔‘
وکلا کے مطابق برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ ڈیاگو گارسیا سے آنے والے کسی بھی سیاسی پناہ گزین کو قبول نہیں کرے گا۔
جزیرے پر پہنچنے والے تین تامل اپنے آپ کو زخمی کرنے اور خودکشی کی کوشش کے بعد اب روانڈا میں اپنا علاج کروا رہے ہیں۔ ان کی منتقلی برطانوی اور روانڈا کی حکومتوں کے درمیان برطانیہ میں سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو افریقی ملک بھیجنے کے معاہدے کا حصہ نہیں۔
مئی میں ان افراد میں سے ایک کو بھیجے گئے خط میں، جسے بی بی سی نے دیکھا، برٹش انڈین اوشین ٹیریٹری انتظامیہ نے کہا کہ وہ روانڈا میں ان کے علاج کے دوران ان کے لیے رہائش تلاش کرے گی اور ادائیگی بھی کرے گی۔
خط میں کہا گیا کہ ’اگر آپ اس تجویز سے مطمئن نہیں تو ہم آپ کی ڈیاگو گارسیا واپسی کا بندوبست کر سکتے ہیں۔ اس وقت کوئی اور آپشن دستیاب نہیں۔‘
چار پناہ گزینوں کی ’محفوظ تیسرے ملک‘ میں منتقلی کی درخواستیں منظور کر لی گئیں۔
اس ہفتے بی بی سی کو ایک الگ بیان میں، برطانیہ کی حکومت نے کہا کہ وہ ’موجودہ صورت حال کا طویل مدتی حل تلاش کرنے کے لیے برٹش انڈین اوشین ٹیریٹری انتظامیہ کے ساتھ مسلسل کام کر رہی ہے۔‘
20 ماہ کے انتظار کے بعد ایک پناہ گزین نے کہا کہ ’لگتا ہے کہ ہر کسی نے امید چھوڑ دی ہے۔‘
Comments are closed.