ڈیانا کے ساتھ کار حادثے میں ہلاک ڈوڈی کے والد جنھیں کبھی برطانوی شہریت نہ مل سکی
محمد الفائد کی یہ تصویر سنہ 2015 میں لی گئی تھی
معروف تاجر اور ہیرڈز کمپنی کے سابق مالک محمد الفائد 94 سال کی عمر میں بدھ کے روز وفات پا گئے۔
وہ اس وقت شہ سرخیوں میں آئے تھے جب ان کے بیٹے ڈوڈی الفائد برطانوی شہزادی ڈیانا کے ساتھ ایک کار حادثے میں مارے گئے تھے۔
محمد الفائد مصر میں پیدا ہوئے اور انھوں نے سنہ 1970 کی دہائی برطانیہ جانے سے پہلے مشرق وسطیٰ میں ایک کاروباری سلطنت کھڑی کر لی تھی۔
تاہم اپنے نئے ملک کا پاسپورٹ حاصل کرنے کی ان کی خواہش کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکی۔
انھوں نے اپنے بعد کے سال ڈوڈی اور ڈیانا کی موت کے گرد و پیش کے حالات پر سوال اٹھاتے ہوئے گزارے۔
مسٹر الفائد پچھلی دہائی میں زیادہ تر عوام کی توجہ سے دور رہے اور وہ اپنی اہلیہ ہینی کے ساتھ سرے کی اپنی حویلی میں رہائش پذیر تھے۔
جمعے کو جاری کردہ ایک بیان میں ان کے اہل خانہ نے کہا: ‘مسز محمد الفائد، ان کے بچے اور پوتے اس بات کی تصدیق کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے پیارے شوہر، ان کے والد اور ان کے دادا محمد الفائد بدھ 30 اگست سنہ 2023 کو بڑھاپے میں پُرسکون طور پر ابدی نیند سو گئے۔
‘انھوں نے اپنے پیاروں کے ساتھ ایک طویل اور مکمل ریٹائرمنٹ کا لطف اٹھایا۔’
فلہم فٹبال کلب کی ملکیت ان کے مختلف بزنس میں سے ایک تھی
الفائد فلہم فٹ بال کلب کے مالک بھی رہے
فلہم فٹ بال کلب نے کہا کہ ان کی موت کا ‘جان کر ناقابل یقین حد تک افسوس ہوا۔’ خیال رہے کہ الفائد کئی سالوں سے اس فٹبال کلب کے مالک تھے۔
فٹبال کلب نے ایک بیان میں کہا: ‘ہم محمد کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ہمارے کلب کے لیے بہت کچھ کیا، اور اس غم کی گھڑی میں ہماری نیک خواہشات اب ان کے خاندان اور دوستوں کے ساتھ ہیں۔’
کلب میں ان کے جانشین شاہد خان نے کلب کی ویب سائٹ پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اظہار تعزیت کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ‘فلہم کی کہانی مسٹر الفائد کے بطور چیئرمین ان کے مثبت اثرات کے بغیر نہیں بتائی جا سکتی۔
‘ان کی میراث پریمیئر لیگ، یوروپا لیگ فائنل، اور کھلاڑیوں اور ٹیموں کے جادوئی لمحات میں ہماری پروموشن کے لیے یاد رکھی جائے گی۔’
صحافی پیئرس مورگن نے الفائد کو ‘ایک ایسی قوت‘ کے طور پر بیان کیا ہے جو ’اپنے پیارے بیٹے ڈوڈی کی حادثے میں موت پر قابو نہیں پا سکے، اس حادثے میں شہزادی ڈیانا بھی ہلاک ہو گئی تھیں۔’ انھوں نے مزید کہا کہ وہ ایک ‘نقص والے پیچیدہ کردار’ تھے لیکن وہ اسے پسند کرتے تھے۔
الفائد مصر میں اپنے آبائی وطن سکندریہ کی سڑکوں پر فزی ڈرنکس بیچ کر کاروبار میں ایک بڑا نام بن گئے۔ ان کے تمام رابطے درست ثابت ہوئے۔
ان کو اس وقت بڑا موقع ملا جب وہ اپنی پہلی بیوی سمیرا خاشقجی سے ملے جو کہ سعودی کروڑ پتی اور ہتھیاروں کے ڈیلر عدنان خاشقجی کی بہن تھیں۔ اور عدنان خاشقجی نے الفائد کو اپنے سعودی عرب کے درآمدی کاروبار میں شامل کیا تھا۔
اس کردار نے انھیں مصر میں نئے روابط استوار کرنے میں مدد کی۔ اگرچہ یہ شادی دو سال سے کچھ زیادہ عرصہ تک ہی چل سکی لیکن الفائد اس دوران اپنا شپنگ کا کاروبار شروع کرچکے تھے۔
1966 میں وہ دنیا کے امیر ترین آدمیوں میں سے ایک برونائی کے سلطان کے مشیر بن گئے۔
قطر کے ہاتھوں ہیرڈز فروخت کرنے کے بعد وہ چھ ماہ تک اس کے اعزازی چیئرمین تھے
برطانیہ منتقلی
سنہ 1974 میں وہ برطانیہ منتقل ہو گئے اور پانچ سال بعد پیرس میں اپنے بھائی علی کے ساتھ مل کر 20 ملین پاؤنڈ میں رٹز ہوٹل خرید لیا۔
انھوں نے کان کنی کے گروپ لونرہو گروپ کے ساتھ ایک الجھانے والی بولی کی جنگ کے بعد سنہ 1985 میں 615 ملین پاؤنڈ میں ہیرڈز کو خرید لیا۔
ان کی ملکیت میں آنے کے بعد فلہم فٹبال کلب تیسرے درجے سے پریمیئر لیگ تک پہنچ گیا۔
انھوں نے گریٹ اورمنڈ سٹریٹ ہسپتال سمیت خیراتی اداروں کو دل کھول کر عطیہ دیا اور پانچ بچوں کے باپ ہونے کے ناطے انھوں نے نادار یا بیمار بچوں کی مدد کرنے میں خاص دلچسپی دکھائی۔
انھوں نے 1987 میں نادار، صدمے کا شکار اور بہت بیمار نوجوانوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے الفائد چیریٹیبل فاؤنڈیشن قائم کیا۔
پیرس میں واقع ان کے رٹز ہوٹل سے ہی ان کے بیٹے ڈوڈی اور ان کی اس وقت ساتھی پرنسس آف ویلز ڈیانا کار حادثے سے قبل روانہ ہوئے تھے۔ اس کے بعد ہی وہ دونوں 1997 میں مارے گئے تھے۔ ڈوڈی ایک فلم پروڈیوسر تھے۔
الفائد اس حادثے کے صدمے سے کبھی بھی ابھر نہیں سکے اور وہ اس حادثے کے گرد قیاس آرائیوں میں مبتلا ہوکر رہ گئے۔
فروری سنہ 2008 میں پوچھ گچھ میں ان کے شواہد میں یہ دعوے شامل تھے کہ یہ اموات شہزادہ فلپ کے حکم پر اور ایم آئی 6 کی ملی بھگت سے ہوئیں۔
ان کے خیالات کو ‘سازشی نظریہ’ سمجھا گیا اور جیوری نے اسے مسترد کردیا۔
اپنی اہلیہ ہینی کے ساتھ شہزادی ڈیانا کے جنازے میں شرکت کرتے ہوئے
برطانوی شہریت حاصل کرنے ناکامی
الفائد دو بار برطانوی شہریت حاصل کرنے کی کوشش میں ناکام رہے۔
1995 میں دوسری بار پاسپورٹ کی درخواست کے مسترد ہونے سے ناراض ہو کر انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ انھوں نے دو کنزرویٹو وزرا – نیل ہیملٹن اور ٹم سمتھ – کو ہاؤس آف کامنز میں اپنے مفادات کے بارے میں سوالات کرنے کے لیے ادائیگی کی تھی۔
ان دونوں نے حکومت کو چھوڑ دیا۔ اور مسٹر ہیملٹن نے الزام کی تردید کی لیکن الفائد کے خلاف وہ ہتک کا مقدمہ ہار گئے۔
تیسرے سیاستدان جوناتھن ایٹکن جو اس وقت کابینہ کے وزیر تھے، انھوں نے بھی استعفیٰ دے دیا جب الفائد نے ان کے بارے میں یہ انکشاف کیا کہ وہ پیرس میں رٹز ہوٹل میں سعودی ہتھیاروں کے ڈیلروں کے ایک گروپ کے ساتھ مفت قیام کرتے تھے۔
الفائد نے سنہ 2010 میں ہیرڈز قطر کے خودمختار فنڈ کو فروخت کر دیا۔ خریداری کی قیمت کا تقریباً نصف کمپنی کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا گیا۔
Comments are closed.