ڈھاکہ کی ایک خونیں شب: چار سیاست دانوں کا جیل میں قتل اور ایک فوجی بغاوت کی داستان

bangladesh leaders

،تصویر کا ذریعہFocus Bangla

،تصویر کا کیپشن

امین الرحمن کے مطابق سید نذر الاسلام اور تاج الدین احمد جیل کی کوٹھڑی میں تھے

تین نومبر 1975 کو ڈھاکہ سینٹرل جیل کے سامنے آدھی رات کو ایک پک ٹرک رکا۔

اس وقت رات کے تقریباً ڈھائی بج رہے تھے اور اس قدرے سرد شب پر سناٹے کی چادر بچھی ہوئی تھی۔ وہاں موجود افراد کے مطابق اس ٹرک میں کچھ فوجی اہلکار بھی تھے۔

ڈھاکہ میں بدامنی کے باعث صورتحال بگڑتی چلی جا رہی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب فوج کے اندر بغاوت کی افواہیں گرم تھیں۔

اس وقت امین الرحمان ڈھاکہ سینٹرل جیل میں بطور ڈسٹرکٹ آفیسر کام کر رہے تھے۔ جیل خانہ جات کے انسپکٹر جنرل نے رات گئے امین کو ٹیلی فون کیا اور انھیں فوراً اپنے پاس آنے کو کہا۔

امین اٹھے اور جلدی سے جیل کے مین گیٹ کی طرف چلے گئے۔ وہاں پہنچے تو انھوں نے پک اپ میں کچھ مسلح افراد کو دیکھا۔

مین گیٹ کے سامنے فوجی جوانوں نے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کو ایک کاغذ تھمایا۔ رحمان یہ نہیں جان سکے کہ اس پر کیا لکھا تھا لیکن جب وہ مین گیٹ سے داخل ہوئے تو بائیں جانب ان کے کمرے میں ٹیلی فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔

رحمان نے ٹیلی فون کا ریسیور اٹھایا تو دوسری طرف سے آواز آئی کہ ’صدر صاحب آپ سے بات کریں گے۔‘

سنہ 2010 میں بی بی سی بنگالی کو یہی واقعہ بیان کرتے ہوئے امین الرحمان نے کہا کہ مجھے فون پر بتایا گیا کہ صدر آئی جی جیل خانہ جات سے بات کرنا چاہتے ہیں، میں بھاگا اور آئی جی کو اطلاع دی، بات چیت کے بعد آئی جی نے کہا کہ صدر فون پر کہہ رہے ہیں کہ فوجی افسران سے بات کریں وہ آپ سے کچھ کروانا چاہتے ہیں۔

bangladesh

،تصویر کا ذریعہFocus Bangla

،تصویر کا کیپشن

کیپٹن منصور علی اور اے ایچ ایم قمرالزمان

مین گیٹ کے سامنے گفتگو جاری رہی۔ اس وقت رات کے تقریباً تین بج رہے تھے۔

امین الرحمن نے کہا کہ ایک موقع پر عوامی لیگ کے چار رہنما، جو اس وقت جیل میں تھے، کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے احکامات دیے گئے۔

اس کے لیے جیل خانہ جات کے انسپکٹر جنرل نے ایک کاغذ پر چار قیدیوں کے نام لکھ کر امین الرحمان کو دیے۔

یہ چار نام سید نذر الاسلام، تاج الدین احمد، کیپٹن منصور علی اور اے ایچ ایم قمرالزمان تھے۔

امین الرحمن کے مطابق سید نذر الاسلام اور تاج الدین احمد جیل کی کوٹھڑی میں تھے اور اس دوران کیپٹن منصور علی اور اے ایچ ایم قمرالزمان کو دوسرے کمرے سے ان کے پاس لایا گیا۔

کیپٹن منصور علی نے وہاں آنے سے پہلے کپڑے بدلے۔

امین الرحمان یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’تاج الدین صاحب اس وقت قرآن پڑھ رہے تھے۔ ان میں سے کسی نے ہم سے یہ نہیں پوچھا کہ ہمیں کہاں لے جایا جا رہا ہے؟ سید نذر اسلام صاحب نے ہاتھ، منھ دھوئے۔ میں نے انھیں یہ بتایا کہ فوج آ رہی ہے۔‘

امین الرحمان نے کہا کہ چونکہ چاروں رہنماؤں کو ایک کوٹھڑی میں اکٹھا کرنے میں کچھ وقت لگا تو اس دوران فوجی اہلکار جیل کے اہلکاروں کے ساتھ بدتمیزی کر رہے تھے، انھیں گالیاں دے رہے تھے۔

امین الرحمان بتاتے ہیں کہ ’جہاں تک مجھے یاد ہے منصور علی صاحب اس کوٹھڑی کے جنوب میں بیٹھے تھے۔ میں منصور علی کے نام کا ابتدائی لفظ ’ایم‘ بھی نہیں بول پایا کہ ان سب کو گولیاں مار دی گئیں۔‘

bangladesh

،تصویر کا ذریعہFocus Bangla

،تصویر کا کیپشن

خیال کیا جاتا ہے کہ جیل میں ہونے والے قتل کا تعلق بنگلہ دیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمان کے 15 اگست 1975 کو ان کے خاندان سمیت قتل سے تھا۔

جیل کے اندر اس وحشیانہ قتل کی خبر چاروں لیڈروں کے اہلِخانہ کو تاحال معلوم نہیں تھی۔ تاج الدین احمد کے اہلِخانہ اگلے روز سارا دن جیل میں ان سے ملاقات کی کوشش کی لیکن ایسا ہونے نہیں دیا گیا۔

چار نومبر کو پرانے ڈھاکہ کا ایک رہائشی تاج الدین احمد کے گھر آیا اور بتایا کہ اس نے صبح سویرے ڈھاکہ سینٹرل جیل میں گولیوں کی آوازیں سنی ہیں۔

تاج الدین احمد کی بیٹی سمین حسین ریمی نے سنہ 2010 میں بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ چار نومبر کو شام چار بجے کے قریب خبریں آنا شروع ہوئیں کہ تاج الدین احمد سمیت چار رہنما مارے گئے ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ جیل میں ہونے والے قتل کا تعلق بنگلہ دیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمان کے 15 اگست 1975 کو ان کے خاندان سمیت قتل سے تھا۔

اس وقت ڈھاکہ کنٹونمنٹ میں بطور کرنل خدمات انجام دینے والے امین احمد چودھری، جو بعد میں میجر جنرل بن گئے، نے سنہ 2010 میں بی بی سی بنگلہ سے اس بارے میں تفصیل سے بات کی تھی۔ ان کی وفات چند برس پہلے ہوئی ہے۔

بی بی سی بنگلہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا تھا کہ جیل میں ہونے والی ہلاکتیں فوجی قیادت میں تناؤ کا نتیجہ تھیں۔

15 اگست کی بغاوت کے بعد تین نومبر کو ایک اور جوابی بغاوت ہوئی تھی۔ اس کی قیادت اس وقت کے بریگیڈیئر خالد مشرف نے کی تھی۔

جنرل امین احمد چودھری کے مطابق تین نومبر کی بغاوت ناگزیر تھی کیونکہ شیخ مجیب کے قتل میں ملوث چھ جونیئر فوجی افسران بنگابھابن میں صدر خوندکر مشتاق کی رہائش گاہ میں بیٹھے انہی کو ہدایت دے رہے تھے۔

جنرل چودھری کے مطابق ’میجر جنرل خالد مشرف کی قیادت میں تین نومبر کی بغاوت شیخ مجیب کے قتل میں ملوث چھ جونیئر فوجی افسران کو فوج کی چین آف کمانڈ میں لانے کے لیے ہوئی۔‘

تاہم جنرل چودھری کے مطابق ’خالد مشرف کی قیادت میں ہونے والی بغاوت نے فوج کے اندر چین آف کمانڈ کا سلسلہ توڑنے کا امکان پیدا کر دیا۔‘

یوں اس وقت کے آرمی چیف ضیا الرحمان کو خالد مشرف کے وفادار فوجیوں نے پکڑ لیا۔

جب ڈھاکہ چھاؤنی میں یہ معاملات چل رہے تھے تو عوامی لیگ کے چار سینئر رہنماؤں کو جیل میں ہلاک کر دیا گیا۔

مبصرین کے مطابق شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے بعد سے ان کو قتل کرنے والے فوجی افسران کو ایک اور بغاوت کا خوف تھا۔

فوج میں ایک طرح کی افراتفری تھی۔ اعلیٰ فوجی افسران کے درمیان اقتدار کی کشمکش چل رہی تھی۔ ایک طرف میجر جنرل ضیا الرحمن اور دوسری طرف میجر جنرل خالد مشرف۔

اس وقت بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) ایم سخاوت حسین ڈھاکہ چھاؤنی میں میجر کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔

انھوں نے ان واقعات کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ سخاوت حسین نے ’بنگلہ دیش خونی باب: 1975-81‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔

khandekar

،تصویر کا ذریعہARCHIVE

انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ شیخ مجیب کو قتل کرنے والے فوجی افسران اس وقت صدر خوندکر مشتاق احمد کے فیصلوں پر حاوی تھے۔

بریگیڈیئر ریٹائرڈ سخاوت حسین نے لکھا ہے کہ ’بنگابھابن میں فوجی افسروں کا چھاؤنی کے کچھ اعلیٰ فوجی افسران کے ساتھ تنازع چل رہا تھا۔‘

’چھاؤنی کے سینیئر افسران میں سے کچھ کا خیال تھا کہ خوندیکر مشتاق زیادہ دیر وہاں نہیں رہیں گے۔ یوں سینیئر افسران کے درمیان اقتدار کا تنازعہ شروع ہو گیا۔‘

شیخ مجیب کو قتل کرنے والے فوجی افسران نے یہ سمجھا کہ کسی بھی جوابی بغاوت کو عوامی لیگ کی حمایت حاصل ہو گی اور ایسی صورت حال میں انھیں کیا کرنا چاہیے اس کے لیے انھوں نے منصوبہ بندی شروع کی۔

انھوں نے کہا کہ ’ان فوجی افسران کا خیال تھا کہ اگر عوامی لیگ میں کوئی بڑا رہنما موجود نہ ہو تو اس سے ان کا راستہ صاف ہو سکتا ہے۔‘

فوجی افسران کا خیال تھا کہ اگر چاروں سیاستدانوں کو مار دیا گیا تو جوابی بغاوت کو سیاسی حمایت حاصل نہیں ہو گی۔

BBCUrdu.com بشکریہ