’ڈگری کے مطابق نوکری ڈھونڈیں ورنہ واپس جائیں‘: آسٹریلیا کی نئی پالیسی جو بین الاقوامی طلبہ کی مشکلات میں اضافہ کرے گی ،تصویر کا ذریعہGetty Images2 گھنٹے قبلبین الاقوامی طلبہ کی بڑی منزل سمجھے جانے والے آسٹریلیا نے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے لیے آنے والے طلبہ کی تعداد محدود کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس پالیسی کا مقصد نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد کو کم کر کے کورونا سے پہلے کی سطح پر لانا ہے۔آسٹریلوی حکومت کے مطابق سنہ 2025 میں 270,000 بین الاقوامی طلبہ کو ویزے جاری کیے جائیں گے۔ منگل کو کیے جانے والے اعلان کے مطابق ہر اعلیٰ تعلیمی ادارے میں انفرادی سطح پر کٹوتیاں کی جائیں گی۔اس پالیسی کا سب سے زیادہ اثر پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت (ووکیشنل ایجوکیشن) فراہم کرنے والے اداروں پر پڑے گا جنھیں سب سے زیادہ کٹوتیاں برداشت کرنا پڑیں گی۔

اس نئی پالیسی کے خلاف آسٹریلیا کے تعلیمی شعبے میں کافی غصہ پایا جاتا ہے اور کچھ یونیورسٹیوں نے اسے ’معاشی تباہی‘ قرار دیا ہے تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے تعلیم کے شعبے کے معیار میں بہتری آئے گی۔2024 کے اوائل میں جاری حکومتی اعدادوشمار کے مطابق آسٹریلیا میں تقریباً 717,500 بین الاقوامی طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔آسٹریلوی وزیر تعلیم جیسن کلیئر تسلیم کرتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ اس وقت سخت متاثر ہوا جب کورونا وبا کے دوران آسٹریلیا نے غیر ملکی طلبا کو واپس بھیج دیا تھا اور سخت سرحدی کنٹرول متعارف کروائے تھے۔تاہم کلیئر کہتے ہیں کہ آسٹریلوی یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی طلبہ کی تعداد اب کوویڈ 19 سے پہلے کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ ہے۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Imagesکلیئر کا کہنا ہے کہ طلبہ تو واپس آ گئے ہیں لیکن ان کے ساتھ ساتھ وہ افراد بھی لوٹ آئے ہیں جو اس صنعت سے فائدہ اٹھا کر فوری پیسہ کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔حکومت کچھ اداروں پر ’غیر اخلاقی‘ رویے کا الزام لگاتی آئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ ادارے ناقص تعلیم فراہم کر رہے ہیں جبکہ کئی ادارے ایسے لوگوں کو داخلہ دے دیتے ہیں جن کے پاس آسٹریلیا میں کامیاب ہونے کے لیے درکار زبان کی مہارت نہیں ہوتی۔ حکومت کئی اداروں پر ایسے لوگوں کے اندراج کا الزام بھی لگاتی ہے جو تعلیم حاصل کرنے کی بجائے آسٹریلیا آ کر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔آسٹریلوی حکومت نے پہلے ہی بین الاقوامی طلبہ کے لیے ضروری انگریزی زبان کی ضرورت اور مطالعاتی ویزا کے لیے درخواست دینے والوں کی مزید سخت جانچ پڑتال کا اعلان کر رکھا ہے۔وزیرِ تعلیم کا کہنا ہے کہ پبلک یونیورسٹیوں میں 2025 میں داخلے کو 145,000 تک محدود کیا جائے جو کہ تقریباً 2023 کی سطح کے آس پاس ہے۔نجی یونیورسٹیاں اور اعلیٰ تعلیم فراہم کرنے والے دیگر ادارے 30,000 نئے بین الاقوامی طلبہ کو داخلہ دے سکیں گے جبکہ پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت کے اداروں میں داخلے 95,000 تک محدود رہیں گے۔کلیئر کا مزید کہا ہے کہ نئی پالیسی کے تحت بین الاقوامی طلبہ کے لیے مزید رہائشی سہولتوں کی تعمیر کے لیے یونیورسٹیوں کو مراعات دینے کا پروگرام بھی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیے

لیکن تعلیمی اداروں کا کہنا ہے کہ انھیں ہاؤسنگ اور پناہ گزینوں کے مسائل کے لیے ذمہ دار بنایا جا رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی طلبہ کی حد مقرر کرنے سے تعلیم کا شعبہ تباہ ہو سکتا ہے۔سنہ 23-2022 میں آسٹریلوی معیشت میں بین الاقوامی تعلیم کا حصہ تقریباً 24.7 ارب ڈالر تھا جو اسے اُس سال ملک کی چوتھی بڑی برآمدات بناتی ہے۔سڈنی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم طلبہ میں سے تقریباً نصف غیر ملکی ہیں۔ رواں سال کے آغاز میں یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی اقتصادی ماڈلنگ کے مطابق حکومت کی مجوزہ کٹوتیوں سے آسٹریلوی معیشت کو 4.1 ارب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں 2025 میں تقریباً 22,000 ملازمتیں ختم ہو سکتی ہیں۔وکی تھامسن آسٹریلیا کی کچھ معتبر یونیورسٹیوں کی نمائندگی کرنے والی ایک باڈی کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ رواں برس کے آغاز میں دیے گئے ایک بیان میں انھوں نے ان مجوزہ قوانین کو ’سخت‘ اور ’مداخلت پسندانہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ معاشی تباہی کے مترادف ہیں۔کلیئر اس بات سے متفق نہیں کہ اس سے تعلیم کی صنعت تباہی کا شکار ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا تاثر بالکل غلط ہے کہ ان اقدامات سے بین الاقوامی تعلیم کی صنعت تباہ ہو جائے گی۔

’قابلیت کے مطابق نوکری ڈھونڈیں ورنہ واپس جائیں‘

کراچی میں واقع ’وژن کنسلٹنٹ‘ کے مظہر حسین نے بی بی سی کے اسماعیل شیخ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پچھلے دس سال میں ایک لاکھ کے قریب پاکستانی طلبہ مختلف پروگراموں کے تحت آسٹریلیا جا چکے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ یہاں سے جانے والے اکثر طلبہ داخلہ تو آسٹریلیا کی معتبر یونیورسٹیوں کے سائبر سکیورٹی، ایم بی اے جیسے پروگراموں میں لیتے ہیں لیکن وہاں جا کر ایک سمسٹر کے بعد ہی اپنی یونیورسٹی چھوڑ کر مختلف ووکیشنل ٹریننگ اداروں میں چلے جاتے ہیں۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ ایسا کرنے کے پیچھے کیا وجہ ہوتی ہے تو ان کا کہنا تھا یونیورسٹیوں کے مقابلے میں ان اداروں کی نہ صرف فیس کم ہوتی ہے بلکہ ان میں حاضری کا بھی زیادہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ان ووکیشنل انسٹیٹیوٹ میں سٹوڈنٹ کو ایک یا دو دن جانا ہوتا ہے تو طالبعلم ہفتے کے باقی پانچ دن کام کرتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesنتاشہ جاوید ایک ویزا کنسلٹنٹ ہیں۔ وہ بھی مظہر حسین کی رائے سے متفق دکھائی دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے اکثر ایسے سٹوڈنٹس جنھوں نے وہاں جا کر صرف جاب اور اپنا کریئر بنانا ہوتا ہے وہ کوشش کرتے ہیں کہ کم بجٹ والے پرائیویٹ اداروں میں داخلہ لیں جن کی نہ صرف فیس کم ہوتی ہیں بلکہ حاضری کا بھی ایشو نہیں ہوتا۔ ’پھر وہ اپنی جاب اور ان سب چیزوں کے لیے زیادہ ٹائم نکال پاتے ہیں۔‘مظہر کا کہنا تھا کہ آسٹریلوی حکومت نے پچھلے ایک سال سے کافی سختی کر دی ہے جس کے بعد کافی سٹوڈنٹس پاکستان واپس بھی آئے ہیں۔ان کے مطابق نئی پالیسی کے آنے کے بعد طالبعلموں پر لازمی ہوگا کہ وہ ’پروگریشن‘ (یعنی انھیں اپنے تعلیمی قابلیت اور ڈگری میں اضافہ) دکھائیں۔’یہاں سے ایک طالبعلم گیا تھا، انھوں نے سائبر سکیورٹی میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد آئی ٹی کے ایک ڈپلومہ کورس میں داخلہ لے لیا تاکہ وہ آسٹریلیا میں مزید قیام کر سکیں۔‘مظہر کے مطابق اب طالب علم گریجویشن کے بعد انڈر گریجوئیٹ پرگرام میں داخلہ نہیں لے سکیں گے بلکہ انھیں پوسٹ گریجویشن کی طرف جانا ہوگا۔اس کے علاوہ وہ کہتے ہیں ڈگری کے حصول کے بعد طالبعلموں کو اب یا تو ڈگری اور قابلیت کے مطابق نوکری ڈھونڈنی پڑے گی ورنہ انھیں واپس آنا ہوگا۔ان کا کہنا ہے کہ آسٹریلوی حکومت چاہتی ہے کہ بین الاقوامی طلبہ یا تو اپنی قابلیت کے مطابق نوکری تلاش کریں یا واپس چلے جائیں تاکہ دوسرے طالبعلموں کو آسٹریلیا آنے کا موقع مل سکے۔نتاشہ کہتی ہیں کہ آسٹریلوی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی طلبہ کے اندراج پر حد مقرر کیے جانے سے پاکستانی طالبعلموں کو آسانی سے دستیاب مواقعوں میں نہ صرف کمی آئے گی بلکہ اس سے مقابلے میں بھی اضافہ ہوگا۔ان کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کے پاکستانی طلبا پر کس حد تک اثرات پڑیں گے اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا کیوںکہ اس پالیسی کے نفاذ کی تفصیلات کو حتمی شکل دینا ابھی باقی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}