ڈپلومیٹک کیبل: حساس سفارتی مراسلے کیسے لکھے اور بھیجے جاتے ہیں؟
- فاروق عادل
- مصنف، کالم نگار
برصغیر کے حکمران خبروں کے حصول کے ضمن میں کس قسم کے ذرائع رکھتے تھے، سیاح ابن بطوطہ نے یہ کہانی بڑے دلچسپ الفاظ میں بیان کی ہے۔
14ویں صدی کے معروف سیاح نے لکھا کہ ’ہر گاؤں کے باہر ایک برجی بنی ہوتی۔ چند ہرکارے اس برجی میں ہر دم تیار رہتے۔ جوں ہی ان کے کان میں گھنٹی کی آواز پڑتی، ایک ہرکارا کمر کس کر کھڑا ہو جاتا۔ تھوڑی ہی دیر میں سرپٹ دوڑتا ہوا کوئی گھوڑا یا کسی اتھلیٹ کی طرح بھاگتا ہوا کوئی شخص آ پہنچتا جسے ہرکارا کہتے۔
’ہرکارے کے ایک ہاتھ طویل ڈنڈا ہوتا جس کے سرے پر گھنگھرو بندھے ہوتے۔ یہ گھنگھرو دور ہی سے اس کے آنے کی خبر کر دیتے۔ ہرکارے کے دوسرے ہاتھ میں ایک لفافہ ہوتا۔ برجی سے نکلنے والا ہرکارا وہ لفافہ تھامتا اور اسی رفتار سے منزل کی طرف دوڑ لگا دیتا۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں ملتان سے دلی کا فاصلہ پچاس دن کا تھا لیکن بادشاہ کو ان کے پہنچنے کی خبر پانچ روز میں ہی مل چکی تھی۔
’موجودہ دور میں ممکن ہے کہ یہ وقت زیادہ محسوس ہو لیکن حقیقت مختلف ہے۔ برصغیر کے مسلم حکمران محمد بن تغلق کے قائم کردہ اس نظام کی خوبی یہ تھی بادشاہ کی طرف روانہ کی جانے والی کوئی بھی اطلاع ایک دن میں ڈھائی سو میل کا فاصلہ طے کر جاتی۔‘
ڈپلومیٹک کیبل آخر ہے کیا؟
اوپر دیا گیا نظام دو حصوں پر مشتمل تھا۔ ایک حصے کے نمائندے کو اخبار نویس کہا جاتا اور دوسرے کو خفیہ نویس۔ پہلی نظام کی اطلاع؛ اطلاع عام کہلاتی جبکہ دوسری اطلاع خاص جو کسی واسطے سے گزرے بغیر صرف اور صرف بادشاہ تک پہنچتی، آج کی زبان میں اسے ’کلاسیفائیڈ‘ یا حساس معلومات کہا جائے۔
بالکل اسی طرح جیسے عمران خان نے 27 مارچ کے جلسے میں ملنے والی ایک اطلاع کا تذکرہ کیا جس میں کسی ملک کی طرف سے مبینہ طور پر انھیں دی گئی دھمکی کا ذکر تھا۔
آسان الفاظ میں ڈپلومیٹک کیبل سے مراد وہ خفیہ رابطہ ہے جو دفتر خارجہ اور کسی ملک میں موجود سفارتی مشن (سفارتخانے یا قونصلخانے) کے درمیان قائم کیا جاتا ہے۔
انگریزی میں اسے ڈپلومیٹک کیبل، ڈپلومیٹک ٹیلی گرام، ایمبیسی کیبل یا ڈِسپیچ کہا جاتا ہے جبکہ پاکستانی سفارتخانوں میں اسے ‘ تار’ یا مراسلے کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے۔
ڈپلومیٹک کیبل یعنی اس تار کا مواد کہاں سے دستیاب ہوتا ہے۔ کیسے لکھا جاتا ہے، کیسے بھیجا جاتا ہے اور کیسے کیسے کہاں پہنچتا ہے، یہ تفصیل بھی کچھ کم دلچسپ نہیں لیکن اس سے پہلے ایک اور واقعے کی تفصیل۔
ایوان صدر میں وہ سرگرمی اکثر دن ڈھلے ہوا کرتی، کبھی سرشام اور کبھی رات کے پہلے پہر۔ ایوان صدر میں صدر مملکت تک کسی اطلاع کے پہنچانے کے کئی ذرائع ہیں۔ ایک اہم اور معتبر ذریعہ ملٹری سیکریٹری کے دفتر کا ہے۔ ایسی صورت میں ملٹری سیکریٹری یہ اطلاع خود صدر مملکت تک پہنچاتے ہیں۔
یہ ذریعہ سربراہ ریاست کے پرسنل سیکریٹریٹ کا ہے، ملٹری سیکریٹری جس کی سربراہی کرتے ہیں۔ ایک اور ذریعہ صدر کے سیکریٹری کا ہے جو بالعموم گریڈ بائیس کے افسر ہوتے ہیں اور سینیارٹی میں بیوروکریسی میں سینیئر ترین افسر سمجھے جاتے ہیں۔
ایوان صدر میں صدر مملکت سے قریبی اور ذاتی تعلق رکھنے والی کوئی شخصیت ذاتی طور پر انھیں یہ اطلاع فراہم کر سکتی ہے لیکن ایک اطلاع ایسی ہے، عام طور پر ایک ہی افسر اسے بغل میں دبا کر اپنے دفتر سے نکلتا ہے اور سربراہ ریاست کے دفتر میں داخل ہو کر اپنے ہاتھ سے انھیں پیش کر دیتا ہے۔
یہ اطلاع وہی کیبل ہوتی ہے جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سفارتخانوں سے اسلام آباد پہنچتی ہے۔ یہ اطلاع پہنچانے والی واحد شخصیت صدر مملکت کے سیکریٹری کی ہوتی ہے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملک میں نیا پارلیمانی سال شروع ہونے والا تھا۔ پارلیمانی سال کے آغاز کے موقع پر اگرچہ پارلیمان اور وزارت پارلیمانی امور میں بھی کافی سرگرمی ہوتی ہے لیکن ان سب اداروں سے زیادہ سرگرمی ایوان صدر میں ہوتی ہے۔
اس کا سبب وہ تقریر ہے جو صدر مملکت مشترکہ اجلاس میں کرتے ہیں۔ یہ تقریر اس لیے کچھ زیادہ محنت طلب ہوتی ہے کہ اس میں ریاست کے تمام شعبوں کی سال بھر کی کارکردگی کا جائزہ لے کر آئندہ برس کے اہداف کا تعین کیا جاتا ہے۔ ان دنوں ہم اسی تقریر میں مصروف تھے اور صدر ممنون حسین اس تقریر کے ابتدائی مسودے کا جائزہ لے رہے تھے جب سیکریٹری صدر مملکت کے چیمبر میں داخل ہوئے اور خاموشی سے ان کے سامنے اس نشست پر بیٹھ گئے جس پر وہ اکثر بیٹھا کرتے تھے۔
مجھے کچھ ایسا لگتا ہے کہ صدر مملکت اور سیکریٹری صاحب کے درمیان کچھ اشارے بھی مقرر تھے۔ شاید یہی سبب تھا کہ خلاف معمول صدر مملکت نے مجھ سے کہا: ‘ایسا کرتے ہیں، فاروق صاحب، اس (تقریر کے) کام کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دیتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد آ جایئے گا۔‘
یہ پہلا موقع تھا جب سربراہ ریاست کے دفتر میں، میں نے کچھ ایسی سرگرمی دیکھی۔ پھر جلد ہی معلوم ہو گیا کہ سربراہ ریاست کو وقتاً فوقتاً پیش کی جانے والی یہ فائل ٹاپ سیکرٹ یا خفیہ معلومات پر مشتمل ہوتی ہے۔ جیسے جیسے اس دفتر میں میرا وقت گزرتا گیا، اس سرگرمی کے آداب سے آگاہی ہوتی چلی گئی۔
صدر مملکت تک پہنچائی جانے والی یہ حساس ترین معلومات کیا ہوتی تھیں، یہ جاننے کی خواہش تو کبھی نہیں ہوئی لیکن یہ دلچسپی ہمیشہ رہی کہ یہ سارا عمل ہے کیا۔
وہ کوئی وسط ایشیا کا ملک تھا یا کوئی اور یہ رہنے دیجیے، ہم وسط مارچ میں اس احساس کے ساتھ اس ملک کے دارالحکومت پہنچے کہ یہ موسم بہار کے عروج کا زمانہ تھا، سرکاری مصروفیات کے ختم ہوتے ہی جی بھر کر گھومیں گے۔ ویسے یہ موسم اس ملک میں بھی موسم بہار ہی کا تھا لیکن ہوائیں اتنی یخ تھیں کہ کبھی کبھی دانتوں کے کٹکٹانے کی نوبت آجاتی۔
ارادہ یہی تھا کہ سفیر سے گفتگو کے بعد شہر کے معروف حصے کا رُخ کیا جائے گا لیکن کپکپا دینے والی سردی کے دوران میں ہی بارش شروع ہو گئی اور ہم سفارتخانے میں ہی محصور ہو گئے۔ کوئی مسافر کتنی دیر تک ایک ہی مقام پر جم کر بیٹھا رہ سکتا ہے چناں چہ سفارت خانے کی سیر شروع کر دی۔ اسی سیر کے دوران ایک مقفل جگہ دکھائی دی۔
اس مقام کو کتنی حفاظت سے رکھا جاتا ہے، اس کا تقابل کسی بینک کے سٹرانگ روم سے کیا جاسکتا ہے جس کی حفاظت جان سے بڑھ کر کی جاتی ہے۔ یہ ’سٹرانگ روم‘ دیکھ کر حیرت ہوئی۔ پھر ایک خوشگوار طریقے سے یہ راز کھل گیا۔
عمران خان نے پاکستان کو مبینہ دھمکی کا پہلی بار ذکر اسلام آباد میں ایک جلسے میں کیا تھا
سفارتی مراسلے کیسے لکھے اور بھیجے جاتے ہیں؟
سفارتخانوں میں یہ انتہائی محفوظ مقام کیبل روم کہلاتا ہے جس تک صرف دو افراد کو رسائی ہوتی ہے، ایک سفیر اور دوسرے ان کے معاون۔
ایسا تو نہیں ہے کہ ایک دفتر میں کام کرنے والے چند یا بعض صورتوں میں درجنوں اہلکار کیبل روم کے آس پاس سے گزر بھی نہ سکتے ہوں لیکن یہ اس جگہ کی اہمیت، حرمت اور رازداری کی تربیت ہی کا خاصا ہے کہ سفارتخانے میں اس مقام کو کچھ اس طرح دیکھا اور سمجھا جاتا ہے جیسے یہ ہے ہی نہیں۔ لوگ اس سے لاتعلق رہتے ہیں۔
کیبل روم کے مقفل دروازے اور اس کی اہمیت کو پہلی بار دیکھ کر حیرت ہوئی پھر رفتہ رفتہ اس کی اہمیت اور یہاں کام کرنے کے طریقہ کار کی سمجھ آتی چلی گئی۔
اصل میں ہوتا یہ ہے کہ کسی ملک میں تعینات کسی دوسرے ملک کا سفیر یا دیگر سینیئر اہلکار اس ملک میں رہتے ہوئے جو کچھ دیکھتے، سنتے اور جانتے ہیں، اس سے اپنے ملک کو آگاہ کرنا ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
یہ عمل پاکستان کے موجودہ حالات کی مثال سے سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً پاکستان میں ان دنوں تحریک عدم اعتماد کی سرگرمی جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی خفیہ عمل نہیں ہے۔
اس سلسلے میں جتنی معلومات معروف ذرائع یعنی ذرائع ابلاغ، مختلف شخصیات سے ملاقاتوں اور اعلیٰ حکام سے رابطوں کے ذریعے ان کے علم میں آئیں گی، وہ ان سب معلومات سے اپنے ملک کو ایک اضافے کے ساتھ اطلاع کر دیں گے۔
ان معلومات میں یہ اضافہ سفیر کے تجزیے پر مشتمل ہوتا ہے جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کسی ملک میں کسی نوعیت کی آنے والی کوئی تبدیلی اس کے اپنے وطن کے لیے کیا معنی رکھتی ہے اور اس سلسلے میں اس ملک کا ردعمل کیا ہونا چاہیے۔
اس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہے کہ اگر کسی ملک میں انتخابات کے ذریعے حکومت تبدیل ہوئی تو روایتی طور پر مبارکباد تو دی جاتی ہے لیکن کسی خاص صورتحال پر مبارک کے مندرجات کیسے ہونے چاہیں اور کیا اس مبارکباد کے ذریعے کوئی خاص پیغام دینا بھی مناسب ہو گا، یہ مشورہ بھی اس کیبل میں دیا جاتا ہے۔
ان کی کیبلز میں بہت سے حساس پیغامات بھی ہوتے ہیں جیسے کوئی ملک کسی دوسرے یا کسی خاص صورتحال کے بارے میں کیا جذبات رکھتا ہے اور کسی خاص صورتحال یا کسی خاص واقعے کے ردعمل میں وہ ملک کیا کر سکتا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔
پاکستان کے سابق سفارتکار عبدالباسط نے ایک مقامی چینل کو بتایا کہ سفارتکاروں کی میزبان ملکوں کے اعلیٰ حکام کے ساتھ دوطرفہ دلچسپی کے امور پر بڑی متعین گفتگو ہوتی ہیں۔
سفیر ان تمام سرگرمیوں کی رپورٹ اپنے تبصرے کے ساتھ اپنے ملک کو بھجوا دیتے ہیں۔ یہ کارروائی ہر سفارتخانے میں معمول کی کارروائی سمجھی جاتی ہے۔ گویا یہ کسی سفارتخانے میں مسلسل جاری رہنے والی ایک حساس کارروائی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
،تصویر کا ذریعہGetty Images
سفارتخانے کی چھت پر لگا ریڈیو انٹینا۔ فائل فوٹو
حساس کارروائی کو کیسے محفوظ رکھا جاتا ہے؟
سفارتخانوں میں اپنے ملک کو کیبل کی ترسیل کا عمل دو طرح سے انفرادیت رکھتا ہے۔
اس کی پہلی انفرادیت یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے مواصلات کے معمول کے ذرائع استعمال نہیں کیے جاتے یعنی ڈاک یا ای میل وغیرہ۔ کسی بھی ملک کے سفارتخانے کے قریب سے گزرتے ہوئے یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اس کی چھت پر مختلف قسم کے انٹینا نصب ہوتے ہیں۔
یہ انٹینا اس نظام سے تعلق رکھتے ہیں جن کے ذریعے اس دارالحکومت سے اس سفارتخانے کے دارالحکومت کے درمیان مواصلاتی رابطہ قائم ہوتا ہے۔ رابطے کے اس ذریعے کو کسی مداخلت اور جاسوسی سے محفوظ رکھنے کے خصوصی اقدامات کیے جاتے ہیں۔
کیبلز کے ذریعے منتقل کیے جانے والے پیغامات کے مندرجات کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک اور انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ پیغامات ایک خاص زبان میں لکھے جاتے ہیں۔
عرف عام اس زبان کو سائفر(Cipher) کہا جاتا ہے۔ یہ زبان ہر ملک اپنے لیے خصوصی طور پر تیار کرتا ہے، بعض اوقات اس میں مشینیں بھی استعمال ہوتی ہیں۔۔ یہ زبان سیکھنے کے لیے اعلیٰ سرکاری ملازمین کا نہایت احتیاط سے انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس زبان کے سمجھنے والوں کی تعداد عام طور پر زیادہ نہیں ہوتی۔
سفارتخانوں سے موصول ہونے والے پیغامات کی ذمہ داری کسی اہم اعلیٰ اہلکار پر ہوتی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر ان پیغامات کو ڈی سائفر یعنی ڈی کوڈ کروا کے ریاست کی چوٹی کے دو، تین مقامات پر منتقل کرتا ہے۔ اس منتقلی میں بھی رازداری کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے۔
اس قسم کے پیغامات کا دورانیہ یا پیریاڈوسٹی کیا ہوتی ہے؟ یہ بھی ایک دلچسپ سوال ہے۔ دوردراز یا کم اہم ملکوں کی بات اور ہے لیکن امریکہ اور اس جیسی اہمیت رکھنے والے ملکوں سے اس قسم کے پیغامات روزانہ کی بنیاد پر موصول ہوتے ہیں اور پیغامات کی نوعیت کے اعتبار سے انھیں اہمیت دی جاتی ہے۔
جہاں تک پاکستان میں زیر بحث مبینہ کیبل کا معاملہ ہے، اس کی نوعیت عمران کی 27 مارچ کی تقریر سے واضح ہے۔ ان کی تقریر کا تجزیہ کیا جائے تو اس سے لگتا ہے کہ یہ کسی ملک کا کوئی خط نہیں بلکہ یہ اپنے ہی سفیر کا پیغام ہو سکتا ہے۔
Comments are closed.