ڈونلڈ لو کی امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان میں پیشی کیا پی ٹی آئی لابنگ کی کامیابی ہے اور پارٹی کو اس کا کیا فائدہ ہوا؟
- مصنف, اسماعیل شیخ
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
- ایک گھنٹہ قبل
پاکستان کے سیاسی مسائل اور جمہوری عمل میں عدم استحکام کی بازگشت امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان میں بھی اس وقت سنائی دی جب بدھ کو کانگریس کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ میں امریکہ کے جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے معاون وزیرِ خارجہ ڈونلڈ لو نے پاکستان کے سابق وزیرِاعظم عمران خان کی جانب سے ان کی حکومت گرائے جانے میں امریکی مداخلت کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کا امریکی سازش کا الزام جھوٹ ہے، ہم پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں۔‘انھیں امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ میں پاکستان کے انتخابات سے متعلق سماعت میں بطور گواہ طلب کیا گیا تھا۔
ڈونلڈ لو نے سماعت میں کیا کہا؟
،تصویر کا ذریعہYouTube/@FArepublicans
اس سماعت میں کانگریس کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین جو ولسن نے ڈونلڈ لو سے پاکستانی سیاست میں فوج کی مداخلت کے حوالے سے بھی پوچھا جس پر ان کا کہنا تھا کہ فوج پاکستان میں ایک اہم ادارہ ہے تاہم امریکہ کی سابق حکومتیں اور موجودہ حکومت اس آئینی اصول کا احترام کرتی ہیں کہ فوج کو سویلین کنٹرول میں رہنا چاہیے اور اسے کمانڈر اِن چیف یعنی صدر کو جوابدہ ہونا چاہیے۔ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ یوکرین میں روسی مداخلت کے خلاف اقوام متحدہ میں ووٹ نہ دینے کی بنیاد پر پاکستان کے لیے امریکی امداد روکی گئی تو اس پر ڈونلڈ لو نے ’نہیں‘ کا جواب دیا۔ان کے کمیٹی کو دیے گئے بیان کے دوران شور شرابا ہوتا رہا اور سماعت میں موجود بعض افراد نے پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے ’قیدی نمبر 804 کو رہا کرو‘ کا مطالبہ کرتے دکھائی دیے۔سماعت میں بار بار خلل ڈالنے والے افراد کو جب باہر نکالا جانے لگا تو انھوں نے جاتے جاتے ’عمران خان کو رہا کرو، یہ غیر جمہوری طریقہ ہے۔ ہمیں عمران خان کی ضرورت ہے‘ کی آوازیں کسیں۔
سوشل میڈیا پر بحث
کانگریس کمیٹی کے سامنے ڈونلڈ لو کا بیان پاکستان کے سیاسی حلقوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی کافی زیرِ بحث رہا۔ جہاں کئی افراد نے اس کو پی ٹی آئی کی مضبوط لابنگ اور جیت قرار دیا وہیں چند نے اس کی افادیت پر سوال اٹھائے ہیں۔ایک صارف کا کہنا تھا بالآخر پاکستانی نژاد امریکی ڈونلڈ لو کو جواب دینے کے لیے مجبور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔Twitter پوسٹ کا اختتام, 1مواد دستیاب نہیں ہےTwitter مزید دیکھنے کے لیےبی بی سی. بی بی سی بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.صارف جاوید حسن نے لکھا کہ پاکستان میں جمہوریت سے متعلق سماعت میں کانگریس کمیٹی نے کچھ بڑے متعلقہ سوالات پوچھے ہیں جنھوں نہ ڈونلڈ لو کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ شرمین نے واضح کہا ہے کہ جوڈیشل نظام پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا اور امریکی سفیر کو خصوصاً عمران خان سے ملاقات کا کہا ہے۔‘Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 2Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔Twitter پوسٹ کا اختتام, 2مواد دستیاب نہیں ہےTwitter مزید دیکھنے کے لیےبی بی سی. بی بی سی بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.جبکہ اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے پر کالم نگار ندیم فاروق پراچہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا کہ آپ جتنی چاہے لابنگ کی کوشش کرلیں، ڈونلڈ لو نے اس بات کی ایک بار پھر توثیق کردی ہے کہ یونیکورن کا کوئی وجود نہیں۔ایک اور صارف نے طنزاً کہا کہ وہ تو اس بات کی امید لگائے بیٹھے تھے کہ ڈونلڈ لو اس بات کا اعتراف کریں گے کہ ان کی حکومت ایک غیر ملکی حکومت کا تختہ الٹنے میں ملوث تھی۔Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 3Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔Twitter پوسٹ کا اختتام, 3مواد دستیاب نہیں ہےTwitter مزید دیکھنے کے لیےبی بی سی. بی بی سی بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.
پاکستانی حکومت کا ردعمل
،تصویر کا ذریعہAPPوفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے امریکی کانگریس کی کمیٹی کے اجلاس مںی ڈونلڈ لو کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’آج پی ٹی آئی کا ’سائفر ڈرامہ‘ بے نقاب ہو گیا ہے۔‘اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’سابق چیئرمین پی ٹی آئی امریکہ کی کانگریس کمیٹی میں سرٹیفائیڈ جھوٹے ثابت ہو چکے ہیں۔ ان کے قول و فعل میں ہمیشہ تضاد رہا ہے۔ انھوں نے پوری قوم کے سامنے جھوٹ بولا، عالمی سطح پر پاکستان کے تعلقات کو متاثر کرنے کی کوشش کی، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے سیاسی بیانیہ کو فروغ دینے کے لیے ریاست کو بھی داؤ پر لگایا۔ آج پوری دنیا میں وہ خود رسوا ہو رہے ہیں۔‘عطا تارڑ نے کہا کہ عمران خان نے ’ڈونلڈ لو پر الزام لگایا تھا کہ انھوں نے ہمارے سفیر اسد مجید کو بلا کر کہا کہ ہم آپ کی حکومت گرا دیں گے۔ آج اسی ڈونلڈ لو نے کہا کہ سائفر کی کہانی سراسر جھوٹ تھی، ایسی کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی ایسا سوچا جا سکتا ہے۔‘ان کا دعویٰ ہے کہ ’پی ٹی آئی نے لابنگ فرمز ہائر کر کے کانگریس کی کمیٹی کی سماعت رکھوائی لیکن یہ اللہ کے کام ہیں۔‘
کیا ڈونلڈ لو کی پیشی پی ٹی آئی لابنگ کی کامیابی ہے؟
جب پی ٹی آئی رہنما شاندانہ گلزار سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی اتنی ہی طاقتور ہوتی کہ وہ ایک امریکن سرکاری عہدیدار کو کانگریس کے سامنے گھسیٹ سکے، تو وہ عمران خان کو جیل سے کیوں نہیں نکال پا رہے؟انھوں نے اس کامیابی کو بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی کاوشوں کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ساری مبارکباد امریکی پاسپورٹ رکھنے والے پاکستانیوں کو جاتی ہے۔ ان کا سسٹم ہے کہ آپ ایک سرکاری عہدیدار کو کھینچ کر کانگریس کے سامنے لا سکتے ہیں، پاکستان میں تو آپ ایک ایس ایچ او کو بھی نہیں پوچھ سکتے کہ انھوں نے یاسمین راشد پر ڈنڈے کیوں برسائے۔‘دوسری طرف پی ٹی آئی کے رہنما رؤف حسن نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی کانگریس کی کمیٹی برائے خارجہ امور میں واضح ہوا کہ پاکستان کے الیکشن میں بڑے پیمانے پر الیکٹورل فراڈ ہوا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
’ڈونلڈ لو کا قضیہ بیچ میں لا کر پی ٹی آئی نے میزائل کو غلط سمت میں فائر کر دیا‘
ضیغم خان کانگریس کے ذریعے ڈونلڈ لو کو کمیٹی کے سامنے بلانے اور سماعت کا انعقاد کروانے کو پی ٹی آئی کی کامیابی مانتے ہیں۔ تاہم وہ اس کی افادیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ضیغم خان کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا مقصد صرف سماعت کروانا تو نہیں ہو سکتا۔’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کانگریس کے ذریعے امریکی انتظامیہ پر پاکستان کے حوالے سے پالیسی بدلنے کے لیے دباؤ آنا چاہیے تھا، جو پی ٹی کروانا چاہتی ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اس سماعت کو کروانے میں جتنی طاقت لگائی تھی، وہ ضائع ہو گئیں۔’میں سمجھتا ہوں کہ ڈونلڈ لو کا قضیہ بیچ میں لا کر پی ٹی آئی نے میزائل کو غلط سمت میں فائر کر دیا ہے۔‘ضیغم کہتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی اس معاملے کو انسانی حقوق کے پیرائے مِں رکھتی تو اس بات کا ان کو زیادہ فائدہ ہوتا اور ایسے میں سماعت زیادہ طاقتور ہو سکتی تھی۔’مگر یہاں تو ایسا لگ رہا ہے کہ انکا اپنا بیانیہ متاثر ہو گیا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
پی ٹی آئی کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
شاندانہ گلزار کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کا ایک ہی مقصد ہے: پاکستان کو مستحکم کرنا۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ تب ہی ممکن ہے جب چوری کیا ہوا مینڈیٹ واپس دیا جائے۔وہ اس بات سے متفق نہیں کہ ڈونلڈ لو کا معاملہ اٹھا کر پی ٹی آئی نے ہاتھ آیا موقع گنوا دیا ہے۔’یہ ڈونلڈ لو کا معاملہ ہی تو تھا جس نے پچھلے دو سال میں سارے پاکستان کو برباد کیا ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کا مسئلہ تو اس کے بعد ہی پیدا ہوا ہے، تو ہم کیوں نہ کرتے اس پر بات؟شاندانہ گلزار کہتی ہیں کہ ’دھاندلی بے شک ڈونلڈ لو نے نہیں کروائی ہے۔ مگر، جو پراسیس ڈونلڈ لو نے شروع کروایا تھا، پاکستان کی تباہی کا جو رستہ ان لوگوں نے شروع کروایا تھا، یہ سب اس کا نتیجہ ہے۔‘پی ٹی آئی رہنما کہتی ہیں کہ ان کی جماعت حکمتِ عملی سے کام نہیں لے رہی۔ ’ہم صرف سچ کے رستے پر چل رہے ہیں، اور سچ سے ہی نتیجہ حاصل ہوگا۔‘
ڈونلڈ لو کا بیان اور پاک امریکی تعلقات
کیا امریکی کانگریس کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ میں امریکہ کے جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے معاون وزیرِ خارجہ ڈونلڈ لو کی بطور گواہ طلبی اور بیان سے کیا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر کوئی اثرات مرتب ہوں گے۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ کار ضیغم خان کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ لو کے کانگریس کے سامنے بیان سے پاکستان امریکہ تعلقات پر فرق نہیں پڑے گا۔ ان کے مطابق اس بیان کے بعد تعلقات میں مزید وضاحت آئے گی۔ان کا کہنا تھا کہ ’اس میں خلاف توقع کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ وہی پوزیشن ہے جو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ لیتا رہا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ سماعت کے دوران کہیں یہ تاثر نہیں ملا کہ امریکی کانگریس اپنی انتظامیہ کی پاکستان سے متعلق پالیسیوں سے اختلاف رکھتی ہے۔’کانگریس قانون سازی کے ذریعے پاکستان کو ملنی والی کسی بھی امداد کو روک سکتی ہے اور باہمی تعلقات پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ تاہم، یہاں ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.