- مصنف, جارج رائٹ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 11 منٹ قبل
ڈنمارک کی وزیر اعظم کے دفتر نے کہا ہے کہ دارالحکومت کوپن ہیگن کی ایک گلی میں وزیر اعظم میٹے فریڈرکسن پر ہونے والے حملے کے بعد وہ ‘صدمے’ میں ہیں۔حملہ شہر کے وسط میں ایک چوک پر ہوا۔ ایک شخص ایک گلی سے نکل کر آیا اور انھیں نشانہ بنایا۔حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔یورپی کمیشن کی سربراہ ارسولا وان در لیین نے اس حملے کو ‘قابل نفرت فعل’ قرار دیا اور کہا کہ یہ ہر اس چیز کے خلاف ہے جس پر ’ہم یقین رکھتے ہیں اور جس کے لیے یورپ میں ہم لڑتے ہیں۔‘
وزیر اعظم کے دفتر نے مزید تفصیلات بتائے بغیر ایک بیان میں کہا: ‘وزیر اعظم میٹے فریڈریکسن کو جمعہ کی شام کوپن ہیگن کے کولٹرویٹ میں ایک شخص نے تشدد کا نشانہ بنایا جسے بعد میں گرفتار کر لیا گیا۔’ڈنمارک پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک شخص کو گرفتار کر لیا ہے اور واقعے کی تفتیش کر رہے ہیں، تاہم انھوں نے مزید کچھ بتانے سے انکار کر دیا۔اس شخص کے مقصد کے بارے میں ابھی تک کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔دو عینی شاہدین میری ایڈریان اور اینا ریون نے مقامی اخبار بی ٹی کو بتایا کہ انھوں نے حملہ دیکھا ہے۔ان دونوں خواتین نے اخبار کو بتایا: ‘ایک شخص مخالف سمت سے آیا اور اس نے ان کے کندھے پر زور سے دھکا مارا جس کی وجہ سے وہ ایک طرف کو گر گئیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ ‘زوردار دھکا’ تھا تاہم وزیر اعظم زمین پر نہیں گریں اور سنبھل گئیں۔دونوں عینی شاہدین نے مزید کہا کہ اس کے بعد وہ ایک کیفے میں بیٹھ گئیں۔یہ حملہ ڈنمارک میں یورپی یونین کے انتخابات میں ووٹنگ سے دو روز قبل ہوا ہے۔ڈنمارک کے ٹی وی 2 کی رپورٹ کے مطابق ڈنمارک کی سوشل ڈیموکریٹس کی رہنما مز فریڈرکسن نے اس سے قبل اپنی پارٹی کے اہم امیدوار کرسٹل شالڈیموس کے ساتھ یورپی انتخاب کی ایک تقریب میں حصہ لیا تھا۔سوشل ڈیموکریٹس ڈنمارک کی مخلوط حکومت میں سب سے بڑی جماعت ہے۔ وہ اب بھی انتخابات میں آگے ہیں، لیکن حالیہ مہینوں میں ان کی حمایت میں کافی کمی آئی ہے۔ڈنمارک کے وزیر ماحولیات میگنس ہیونیک نے سوشل میڈیا پلیٹفارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کہا: ‘میٹے پر حملے سے انھیں قدرتی طور پر صدمہ پہنچا ہے۔ اس نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے جو ان کے قریب ہیں۔’انھوں نے مزید کہا: ‘ہمارے خوبصورت، محفوظ اور آزاد ملک میں ایسا کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور ان اقدار کا پاس رکھیں جن پر ہمارا ملک بنایا گیا ہے۔”Twitter پوسٹ نظرانداز کریںTwitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔تنبیہ: بی بی سی دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔Twitter پوسٹ کا اختتاممواد دستیاب نہیں ہےTwitter مزید دیکھنے کے لیےبی بی سی. بی بی سی بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.یورپی یونین کے سربراہ چارلس مشیل نے ایکس پر لکھا کہ وہ اس حملے کی وجہ سے ‘غصے میں ہیں۔’انھوں نے کہا کہ ‘میں جارحیت کی اس بزدلانہ کارروائی کی شدید مذمت کرتا ہوں۔’یہ حملہ سلوواکیہ کے وزیر اعظم رابرٹ فیکو کو گولی مارنے کے بعد ایک ماہ سے بھی کم مدت میں ہوا ہے۔ رابرٹ فیکو پر اس وقت پے در پے گولی چلائی گئی جب وہ اپنے حامیوں کا استقبال کر رہے تھے۔ اگر چہ وہ اس حملے میں بچ گئے لیکن انھیں کئی آپریشن سے گزرنا پڑا۔46 سالہ مز فریڈرکسن چار سال قبل سینٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹس کے رہنما کا عہدہ سنبھالنے کے بعد 2019 میں وزیر اعظم بنی تھیں۔ اس طرح وہ ڈنمارک کی تاریخ کی سب سے کم عمر وزیر اعظم بن گئیں۔اس کے فوراً بعد وہ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ قضیے میں الجھ پڑیں جب مسٹر ٹرمپ نے امریکہ کی طرف سے گرین لینڈ خریدنے کی بات کہی تھی۔ مز فریڈرکسن امریکی صدر کے اس منصوبے کے خلاف کھڑی ہو گئیں۔اگر انھوں نے مسٹر ٹرمپ کے زمین کے معاہدے کی تجویز کو ‘مضحکہ خیز’ کہہ کر مسترد کر دیا تو مسٹر ٹرمپ نے انھیں ‘بدتمیز’ قرار دیا۔2022 میں مز فریڈرکسن کو ایک کمیشن کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ ان کی حکومت نے کووڈ وبائی مرض کے دوران لاکھوں آبی نیولوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ کمیشن ان کی تحقیقات کر رہا تھا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.