خنکلی: جارجیا کے مقبولِ عام ڈمپلنگ تاریخ کا چنگیز خان سے کیا تعلق؟
- میتھیو پونزفرڈ
- بی بی سی ٹریول
ہر پکوڑا تقریباً ایک ٹینِس کے گیند کے حجم کے برابر ہوتا ہے اور اس کے اندر موجود گوشت، مصالحوں اور جڑی بُوٹیوں اور چٹنیوں کی وجہ سے پھٹا جا رہا ہوتا ہے
گرمیوں کے موسم کے عروج میں تبلیسی شدید گرمی کی لپیٹ میں ہوتا ہے۔ تین اطراف سے پہاڑوں سے گِھرے ملک جارجیا کے اس دارالحکومت میں گرم مرطوب ہوا جمع ہوتی ہے اور شام ہونے تک شہر میں گھومنا پھرنا ایک زندگی نچوڑ لینے والا تجربہ ہو سکتا ہے۔
جُون کے مہینے میں اس شہر کی گلیوں میں یہ دیکھنا حیران کن ہوتا ہے کہ مقامی لوگ ریستورانوں میں اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ میزوں پر موٹے موٹے اُبلے ہوئے ڈمپلنگز کھانے کے لیے جمع ہوتے ہیں، جنھیں خِنکلی کہا جاتا ہے۔
ہر ڈمپلنگ تقریباً ایک ٹینِس کی گیند کے حجم کے برابر ہوتا ہے اور اس کے اندر موجود گوشت، مصالحوں اور جڑی بُوٹیوں اور چٹنیوں کی وجہ سے پھٹا جا رہا ہوتا ہے۔ یہ تمام اجزا گُندھے ہوئے آٹے میں لپیٹ دیے جاتے ہیں اور وہیں ٹھہر جاتے ہیں۔ جب انھیں ابالا جاتا ہے تو یہ رسیلی گول گول پھولی ہوئی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
اکثر ظہرانے کے بعد کا منظر خِنکلی کی ان موٹی اور نوکیلی باقیات کے ڈھیر کا ہوتا ہے جنھیں پکڑ کر خِنکلی کھائے جاتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ جارجیا انگور کی شراب کے مؤجد علاقے کی حیثیت سے جانا جاتا ہے، شدید گرمی کے موسم میں ان ڈمپلنگز کے ساتھ آبِ جو یا بیئر پی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
پہلی نظر میں تو لگے گا کہ اس شدید گرمی کے دن میں گوشت سے بھرے ہوئے چند درجن ڈمپلنگز چٹنی کے ساتھ کھا کر پیٹ بھر گیا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پہلی خِنکلی کھاتے ہی ایسا لگتا ہے کہ یہ پکوان بار بار کھایا جائے۔
گوشت کی بھینی بھینی خوشبوؤں والے ان ڈمپلنگز کے ہمراہ دیے جانے والے شوربے کی خوشبو بھی زبردست ہوتی ہے بلکہ یہ ڈمپلنگز اس خوشبو کی وجہ سے زیادہ لذیذ اور مزیدار لگتے ہیں۔
جارجیا میں حالیہ برسوں میں سیاحوں کی بہت زیادہ تعداد آنے لگی ہے۔ گذشتہ برس 80 لاکھ سے زیادہ غیرملکی سیاحوں نے یہاں کا رخ کیا جن میں سے نصف کے قریب تبلیسی آئے۔ ان سیاحوں میں سے اکثر کے لیے خِنکلی جیسے کھانوں کی دریافت بہت زیادہ حیرت کی وجہ بنی کیونکہ ان کے خیال میں یہ پکوان اتنے مشہور نہیں جتنا کہ انھیں ہونا چاہیے۔
یہ کھانے مشرق اور مغرب کی روایات اور ترکیبوں سے ملا کر بنائے جاتے ہیں۔ ان میں ‘متسوادی’ ہے جو کوئلے کی آنچ پر بھُنا ہوا سور کا گوشت ہوتا ہے، اس کے علاوہ مصالحوں کے ساتھ تیار کی گئی لوکی کی طرح کا سالن جسے ‘اجپساندلی’ کہا جاتا ہے، اور سبزیوں سے بنا ہوا ‘میزے’ (جو بحيرہ روم، ايران، ترکي اور خليجي ممالک ميں بھوک بڑھانے والی شراب کي طرح کا ايک مشروب ہوتا ہے اور کھانے سے پہلے پيا جاتا ہے) جسے جارجیا میں ‘پکھالی’ کہا جاتا ہے، اور اس کےعلاوہ تقریباً ہر ریستوران میں پنیر کے ساتھ روٹی ملتی ہے جسے ‘خچپوری’ کہا جاتا ہے۔
لیکن تبلیسی کے ریستورانوں میں کھائے جانے والے کئی ایک کھانوں کی طرح خِنکلی بھی اس شہر کی اپنی سوغات نہیں ہے۔ اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ خِنکلی تبلیسی میں کہاں سے آئی تو پھر آپ کو جارجیا کی قومی داستانوں کو پڑھنا ہوگا۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ خِنکلی شمالی تبلیسی کے سنگلاخ پاڑوں سے یہاں ہہنچا ہے
’جارجیا کا ہر کھانا اپنی جگہ ایک نظم ہے‘
جارجیا کے کھانوں کو ملک میں قومی تفخر سمجھا جاتا ہے اور شاید یہ ملک کی بہترین ثقافتی برآمدات میں شمار کیے جاتے ہیں جو قفقاز کے پورے خطے اور اس سے باہر بھی اپنے مزے اور اعلیٰ معیار کی وجہ سے بہت زیادہ شہرت رکھتے ہیں۔
19 ویں صدی کے روسی شاعر الیگزینڈر پُشکن نے جارجیا کے کھانوں کی تعریف میں کہا تھا کہ ‘جارجیا کا ہر کھانا اپنی جگہ ایک نظم ہے’ اور آج اگر آپ ماسکو یا سینٹ پیٹرزبرگ میں کسی سے پوچھیں کہ کیا کھانا چاہیے تو وہ جارجیا اور روس کے درمیان جاری دشمنی کے باوجود جارجیا کے پکوان کھانے کا مشورہ دیں گے۔
20ویں صدی میں سوویت یونین میں اگرچہ کھانوں اور شراب کا ایک ہی مزا اور معیار رہا اور پھر گذشتہ صدی کی 1990 کی دہائی میں جب سوشلسٹ نظام ٹوٹا تو اس تبدیلی کے دور کی غربت کے باوجود جارجیا کے کھانوں کی ترکیبیں آج بھی مقبولِ عام ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کھانوں کو جارجیا کی 40 لاکھ کی آبادی کی اپنی ثقافت نہیں کہا جا سکتا لیکن ایسا کہنے سے جارجیا کے لوگ آگ بگولہ ضرور ہو جائیں گے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ‘خِنکلی’ تبلیسی کے شمال میں واقع سنگلاخ پہاڑوں سے یہاں پہنچا ہے جہاں کے ‘توشیتی’ اور پشاوی خطوں کے مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ڈمپلنگز ان کی ایجاد تھے۔
جب توشیتی میں سخت سردی پڑتی ہے تو درجہ حرارت عموماً منفی 15 تک گر جاتا ہے اور قفقاز کی پہاڑی ڈھلوانوں پر بسے ہوئے دیہات شدید برفباری کی وجہ سے دنیا سے کٹ جاتے ہیں۔
تبلیسی کے ریستورانوں میں مقبولِ عام غذا بننے سے پہلے صدیوں تک قفقاز کے چرواہے سرد موسم میں جسم گرم رکھنے کے لیے بھیڑ کے گوشت کے ‘خِنکلی’ نامی ایسے ڈمپلنگز بنا کر کھاتے تھے اور اب شہر میں آ کر یہ گوشت خنزیر یا گائے کے گوشت سے بدل گیا ہے۔
تبلیسی کے ایک معروف ریستوران صوفیہ مینی کووا کے فنٹاسٹک دوقان کی شیف لینا ایزی شویلی، توشیتی ترکیب سے بہترین ‘خِنکلی’ بنانے والوں میں مشہور ہیں لیکن وہ اس میں اب سات حصے گائے کا گوشت جبکہ تین حصے سؤر کا گوشت ملاتی ہیں اور اس میں پودینہ، کالی مرچیں اور زیرہ بھی شامل کرتی ہیں۔
تبلیسی کے مرکز میں واقع ‘گیورگی لیونڈزے میوزیم’ کے عقب میں واقع اور انگوروں کی بیلوں میں چھپے صحن میں شکستہ نظر آنے والی مگر چمکتے دمکتے رنگوں سے مزیّن میزوں پر یہ پکوان پیش کیا جاتا ہے۔
جارجیا میں سیاحوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا تھا اور ان میں سے نصف تبلیسی آئے
فنٹاسٹک دوقان کا نام 20ویں صدی میں روس سے جارجیا کی آزادی کے ایک مختصر سے دور میں تبلیسی کے فنکاروں اور شاعروں کے جمع ہونے کے مقام کے نام پر رکھا گیا اور یہ اس شہر کے ان چند ایک ریستورانوں میں سے رہ گیا ہے جہاں آج بھی ہاتھوں سے کھانا تیار کیا جاتا ہے۔
ایزی شوالی کہتی ہیں کہ ‘خِنکلی ایک ایسی خوراک ہے جسے آپ پہاڑوں میں اس وقت کھاتے ہیں جب یہ ٹھنڈے ہوتے ہیں اور آپ بھوکے اور تھکے ماندے ہوتے ہیں۔ یہاں ہماری کوشش اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ اس کا پہلا ہی نوالہ آپ کو وہ مزا دے جیسا کہ آپ اِسے پہاڑوں میں کھا رہے ہوں۔’
لیکن جارجیا کی ایک بہت ہی معروف شیف تیکوناگاچی چِلاڈزے جارجیا والوں سے وہ سخت سوال کرنے کے لیے مشہور ہیں جس کا جواب دینے سے مقامی لوگ گریز کرتے ہیں اور وہ سوال یہ ہے کہ کیا ‘خِنکلی’ کا شجرہ قفقاز کے پہاڑوں سے کہیں پہلے کا تو نہیں۔
گاچی چِلاڈزے کہتی ہے کہ ‘اگر آپ یہ کہیں کہ روایتی خِنکلی جارجیا کی نہیں ہے تو یہ لوگ آپ کو مار ڈالیں گے۔ مگر ان ڈمپلنگز کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ اس کا گوشت، گندھا ہوا آٹا اور اس کے گوشت کی ترکیب سب یہاں چین سے آیا۔’
گاچی چِلاڈزے اس روایتی نظریے کو تسلیم نہیں کرتیں کہ جارجیا دنیا سے الگ تھلگ خطہ تھا اور یہاں کے ہر کھانے کی ترکیب یہاں کی اپنی ہے۔
وہ اس کے بجائے یہ کہتی ہیں کہ ہزاروں برسوں کے دوران ہونے والے مختلف حملوں کے سلسلوں اور مختلف سلطنتوں کے عروج و زوال نے اس قوم کے کھانوں کو شکل دی ہے، کیونکہ یہ خطہ کئی تجارتی رستوں کا سنگم رہا ہے اور جس پر کبھی روسیوں نے، کبھی ایرانیوں نے، کبھی ترکوں نے اور کبھی منگولوں نے حکومت کی ہے۔
تبلیسی میں ‘فور فیوژن’ (چہار امتزاجی) نامی ریستوران میں گاچی چِلاڈزے نے جارجیا کے کلاسک کھانوں کی نت نئی ترکیبیں بنا کر بہت شہرت پائی ہے۔
جب وہ اپنے ‘خِنکلیوں’ کو دیکھتی ہیں تو کہتی ہیں کہ میں نے اس میں تھوڑی سے تبدیلی یعنی اس کو پلٹ کر تیار کرنا شروع کیا، اس سے میرے ذہن میں خنکلی سوپ کا ایک نیا خیال آیا جس میں اسی طرح کے خنکلی ہوتے ہیں مگر وہ قدرے چھوٹے سائز کے ہوتے ہیں، دوگنا شوربے والی چٹنی ہوتی ہے، اندر باہر بھی مصالحوں کے ساتھ یہ شوربہ ہوتا ہے۔’
تیکونا گاچی چِلاڈزے جارجیا کی معروف شیف ہیں
گاچی چِلاڈزے کے سوپ کی نئی ترکیب سے ان کی یہ ایجاد زیادہ بکنے والی ڈش قرار پائی اور اب یہ جارجیا کے کئی اور ریستورانوں کے مینیو پر بھی نظر آتی ہے۔ وہ اگلے برس تبلیسی میں ‘خِنکلیریا’ کھولنے کا ارادہ رکھتی ہیں جس میں وہ روایتی خنکلی کے کئی اصول بدل دیں گی، مثلاً وہ انھیں تیل میں تل سکتی ہیں یا ان میں مچھلی کا گوشت بھر سکتی ہیں۔
گاچی چیلاڈزے کہتی ہیں کہ ’جارجیا کے کئی شیف اب ان کی بنائی گئی ترکیبوں کو قبول کر رہے ہیں، پہلے پہل تو انھیں میری جدّت پر غصہ آتا تھا اور میرا عملہ نسل در نسل چلی آنے والی روایتی ترکیبوں میں تبدیلی کی وجہ سے کام چھوڑ کر چلا جاتا تھا۔‘
اب ان کا ارادہ ہے کہ جارجیا کے کھانے اپنی اس روایت کو بحال کریں جس کے تحت وہ نئے سے نئے کھانے بنانے کی ترکیبیں ایجاد کرتے تھے، جسے ان کے خیال میں یہ قوم روسی تسلط کی صدی اور سنہ نوے کی اقتصادی سختی کی دہائی کے دوران اپنی ثقافت کو بچانے کے لیے بھول گئی۔
وہ کہتی ہیں کہ اس تبدیلی کی ‘خِنکلی ہی ایک بہترین مثال ہے’۔ گاچی چِلاڈزے 13ویں صدی کے دور کی ایک متبادل کہانی سناتی ہیں کہ خنکلی یہاں کیسے پہنچا۔ ان کے خیال میں یہ منگولوں کے دور میں چنگیز خان کے ساتھ اس خطے میں پہنچا، اور اس کا آٹا اور اس کا اجزا آنے والی صدیوں کے تقاضوں کے لحاظ سے بدلتے رہے ہیں۔
گوشت اور گندھا ہوا آٹا پہلے نصف چاند کی شکل میں بنتا تھا جو کہ ایک آسانی سے کھائی جانے والی پیسٹی کی طرح کا ہوتا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ پہاڑوں میں اسے گول شکل دے دی گئی جو کہ سورج سے ملتی تھی، کیونکہ وہ لوگ اگرچہ عیسائی تھے، وہ اس وقت بھی سورج کی عبادت کرتے تھے اور ‘بورجگلی’ کی علامت رکھتے تھے (جو کہ سورج کی علامت ہے اور جارجیا کے سکّوں اور کرنسی نوٹوں پر دیکھا جا سکتا ہے)۔
خنکلی فوجیوں کی سہولت کے لیے نصف چاند کی شکل کے بنائے جاتے تھے
کھانوں کے بارے میں لکھنے والی تُرکی کی ایک مصنفہ آئیلین تان اور چینی کھانوں کی ماہر انگلینڈ کی فوشیا ڈنلپ دونوں متفق ہیں کہ جارجیا کے ان ڈمپلنگز جیسا پکوان ترکی اور آرمینیا میں بھی تیار کیا جاتا ہے جسے ‘منٹی’ کہاجاتا ہے۔
ان دونوں نے ڈمپلنگز کے بارے میں بہت تحقیق کی ہے۔ انھوں نے اس کے بارے میں اپنا مقالہ سنہ 2012 میں پیش کیا تھا جس میں انھوں نے چین اور ترکی کے مختلف اقسام کے ڈمپلنگز کا تعلق شاہراہِ ریشم (سِلک روڈ) سے جوڑا ہے۔
ریشل لوڈن ایک امریکی مؤرخ ہیں جنھوں نے بادشاہتوں اور کھانوں پر کافی کچھ لکھا ہے۔ عالمی تاریخ میں کھانے بنانے کا ڈمپلنگز سے گہرا تعلق ہے جیسا کہ ایشیا اور یورپ کے نقشے میں یہ کئی جگہوں پر نظر آتے ہیں۔
لوڈن کا کہنا ہے کہ اگرچہ خِنکلی کی تاریخ پر تحقیق کی ضرورت ہے تاہم اس خیال کو قابلِ بھروسہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ جارجیا میں منگولوں کے ساتھ آئے ہوں۔
‘یہ بات زیادہ ممکنہ لگتی ہے کہ یہ 700 برس قبل آنے والی کسی خوراک کی باقیات کا حصہ ہیں بجائے اس کے کہ یہ سمجھا جائے کہ اوہ نہیں، یہ تو ابھی آزادانہ طور پر یہیں ایجاد ہوئے ہیں۔’
ایک چینی حکیم ژنگ ژونگ جِنگ جن کا تعلق دوسری صدی عیسوی سے بنتا ہے، ‘جیاؤ زی’ نامی پہلا ڈمپلنگ بنانے کا سہرا ان ہی کے سر باندھا جاتا ہے۔ وہ جارجیا کے مشرق میں تقریباً 5000 کلومیٹر دور جنوب مغربی چین میں رہتے تھے۔
لوڈن کہتی ہیں کہ اگر آپ نقشے پر دیکھیں کہ جن خطوں میں ڈمپلنگز شوق سے کھائے جاتے ہیں وہ منگول بادشاہت کے ہمسائے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ان کی فتوحات کی وجہ سے ان کی یہ غذا مقبولِ عام ہوئی۔
لوڈن کا خیال ہے کہ ‘منگول اپنے شاہی کھانوں کے بارے میں ناقابلِ یقین حد تک سمجھدار تھے۔’ مؤرخین نے سنہ 1330 کی ایک چین میں منگول دربار کے کھانوں کی ترکیبوں پر لکھی گئی ایک کتاب کا ترجمہ کیا جس کا نام ہی ایسا تھا کہ ‘بادشاہ سلامت کی غذا اور مشروبات کے مناسب طریقے اور ان کے بنیادی اجزا۔’
جارجیا میں خنکلی کے ساتھ بیئر پی جاتی ہے
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ منگول مقامی پکوانوں کا بھی اس طرح خیال رکھتے تھے تاکہ مقامی لوگوں کا احترام بھی برقرار رہے۔ وہ کہتی ہیں کہ سویّوں کے ایک پکوان کو دہی اور لہسن کی چٹنی کے ساتھ ترکوں کے لیے اپنا لیا، لیکن چین میں اس میں ادرک، سنگترے کے چھلکوں اور سویا چٹنی کا اضافہ کردیا۔
‘یہ ایک قسم کی ایک دانستاً کوشش ہے جسے کھانوں کی تاریخ میں نئے شاہی کھانے ایجاد کرنے کے لیے علاقائی ترکیب کو تصرف میں لانا کہا جاتا ہے۔’
زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ خِنکلی کا شجرہ چینی غذا ‘زیا لونگ باؤ’ (جو کہ ڈمپلنگز کو پسند کرنے والوں کی ایک پسندیدہ چٹنی ہے) سے ملتا ہو، بلکہ اس کا تعلق روسی ‘پلمنی’ تُرکی اور آرمینائی ‘منٹی’، مشرقی یورپ کے ‘پیاروگی’ وسطی اور جنوبی ایشیا کے ‘سمبوساک’ اور ‘سموسہ’ اور جاپانی ‘گیوزا’ سے بنتا ہو۔
گاچی چِلاڈزے کہتی ہے کہ پکوان تیار کرنے والے باورچیوں کی نئی نسل اب اس خیال سے ہم آہنگ ہو رہی ہے کہ جارجیا کے کھانوں کی تراکیب کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ روایتی کھانوں کے مزے محفوظ کیے جائیں، جن کی مہارت کا کل مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان پسندیدہ پکوانوں کی لذت کو مشکل ادوار میں بھی قائم رکھا جا سکے۔
گاچی چِلاڈزے کہتی ہیں کہ نوجوان شیف اب یہ سوچتے ہیں کہ جارجیا کے لوگ جارح سلطنتوں کے درمیان پِس کر رہ گئے، وہ ہمیشہ دنیا بھر کے کھانوں کی نت نئی ترکیبیں سیکھتے رہے ہیں۔
اُنھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ‘یہ اب مجھ سے بھی آگے بڑھ رہے ہیں اور میں اب اپنے ملک (کی ثقافت) کی دشمن نہیں سمجھی جاتی۔ اب یہ امتزاج ایک جدید اصطلاح کے طور پر لیا جا رہا ہے، لیکن جارجیا کے پکوان کی ترکیبیں کئی صدیوں سے امتزاج ہی سے بنتی آ رہی ہیں۔’
٭٭٭یہ تحریر اس سے قبل 25 مئی 2020 کو شائع کی گئی تھی
Comments are closed.