ڈرون گرنے کے واقعے میں امریکہ کا روسی پائلٹوں پر ’لاپرواہی‘ کا الزام
طیاروں جتنے بڑے ریپر ڈرونز جاسوسی اورفضائی نگرانی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں
- مصنف, جیمز لینڈیل، لارا گوزی
- عہدہ, بی بی سی نیوز
امریکہ نے روس پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے روسی لڑاکا طیاروں کے ساتھ تصادم کے بعد بحیرہ اسود میں ایک امریکی ڈرون گر کر تباہ ہونے کے بعد لاپرواہی کا مظاہرہ کیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ تصادم سے قبل روسی طیاروں نے ڈرون کے راستے میں ایندھن پھینکا تھا۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس وقت امریکی ڈرون بین الاقوامی فضائی حدود میں تھا۔
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ تباہ شدہ ’ایم کیو-9 ریپر‘ قسم کے اس ڈرون کو اس وقت مار گرایا گیا جب وہ ’ناقابل پرواز‘ ہو گیا تھا۔
لیکن روس نے امریکی الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس ڈرون کو ایس یو-27 قسم کے لڑاکا روسی طیاروں نے نشانہ نہیں بنایا ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ کیا روس نے صرف امریکی ڈرون کے کام میں خلل ڈالنے کی کوشش تھی یا یہ واقعی اسے گرانے کی دانستہ کوشش تھی۔
امریکی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ منگل کو برطانوی وقت کے مطابق صبح سات بج کر تین منٹ پر پیش آیا تھا اور یہ فضائی تصادم تقریباً 30 سے 40 منٹ تک جاری رہا۔
ایک بیان میں امریکی فوجی حکام کا کہنا تھا تصادم سے پہلے دو روسی لڑاکا طیاروں نے کئی مرتبہ ڈرون پر لاپرواہی اور غیر پیشہ ورانہ انداز میں ایندھن پھینکا۔
پینٹاگون کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل پیٹ رائیڈر نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی ’ڈرون ناقابل پرواز اور بے قابو ہو چکا تھا، اسی لیے ہم نے اسے مار گرایا‘ اور ہوسکتا ہے کہ اس تصادم کے دوران روسی طیاروں کو بھی نقصان پہنچا ہو۔
مغربی ممالک کی کوشش رہی ہے کہ یوکرین کی جنگ، مغرب اور روس کے درمیان براہ راست محاذ آرائی میں نہ تبدیل ہو جائے
ریپر ڈرونز کے پر 20 میٹر (66 فٹ) لمبے ہوتے ہیں اور انھیں فضائی نگرانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
بریگیڈیئر جنرل پیٹ رائیڈر نے کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق روسیوں کو ڈرون کا ملبہ نہیں ملا ہے۔
امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے رکن جان کربی نے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’زیادہ تفصیل میں جائے بغیر، میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے اس ڈرون کے حوالے سے اپنے (تکنیکی) اثاثوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے ہیں‘ یعنی روس کو تباہ شدہ ڈرون کے ملبے تک رسائی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔
دوسری جانب روسی وزارتِ دفاع کا کہنا تھا کہ اس ڈرون کی پرواز میں اچانک تبدیلی آ گئی تھی اور اس وقت ڈرون کا سگنل دینے والا نظام (ٹرانسپونڈرز) بند تھا۔ٹرانسپونڈر ان مواصلاتی آلات کو کہا جاتا ہے جن سے طیارے کو ٹریک کیا جاتا ہے۔
لندن کے کنگز کالج سے منسلک جنگی امور کے ماہر، پروفیسر مائیکل کلارک نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ واقعہ ’یقیناً ایک حادثہ تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ کوئی پائلٹ جان بوجھ کر ایسا کر سکتا ہے‘ اور وہ اپنے طیارے اور اپنی زندگی کو سنگین خطرے میں ڈالے بغیر دوسرے طیارے کے پروپیلر سے جا ٹکرائے۔
یہ واقعہ یوکرین جنگ پر روس اور امریکہ کے درمیان براہ راست تصادم کے بڑھتے ہوئے خطرے کو اجاگر کرتا ہے۔
اس واقعہ پر احتجاج کرتے ہوئے امریکہ نے واشنگٹن میں روسی سفیر اناتولی انتونوف کو طلب کیا۔
ملاقات کے بعد روس کے سرکاری میڈیا نے انتونوف کے حوالے سے کہا کہ ماسکو ڈرون حملے کو امریکہ کی جانب سے ’اشتعال انگیزی‘ کے طور پر دیکھتا ہے اور ’ہماری سرحدوں کے قریب امریکی فوج کی ناقابل قبول سرگرمی روس کے لیے تشویش کا باعث ہے۔‘
بدھ کو کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان اس واقعے پر کوئی اعلیٰ سطحی رابطہ نہیں ہوا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ روس کبھی بھی تعمیری مذاکرات سے انکار نہیں کرے گا۔
یاد رہے کہ سنہ 2014 میں روس کی جانب سے کرائمیا پر قبضے کے بعد سے بحیرہ اسود میں کشیدگی میں اضافہ ہو چکا ہے۔
اگرچہ امریکہ اور برطانیہ ہمیشہ سے اس خطے کی نگرانی کرتے رہے ہیں، تاہم روس کے یوکرین پر باقاعدہ حملے کے بعد سے دونوں ممالک نے یہاں اپنی جاسوسی اور نگرانی کی پروازوں میں اضافہ کر دیا کیا ہے۔
امریکہ کے مطابق خطے میں ’روسی پائلٹوں کی خطرناک کارروائیوں‘ کی مثالیں موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈرون کو مار گرانا ممکنہ طور پر کسی ایسے روسی پائلٹ کی غلطی کا نتیجہ ہو سکتا ہے جو ڈرون کے بہت قریب پہنچ گیا تھا۔
لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ وقعی روسی جنگی طیارے کی جانب سے امریکی طیارے پر جان بوجھ کر کیا گیا حملہ تھا تو یہ ایک بہت بڑی اشتعال انگیزی ہے جس سے خطے میں جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس صورت میں اس حملے کو روس کی جانب سےامریکہ کے ممکنہ ردعمل کا ااندازہ لگانے کی ایک کوشش بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
مغربی ممالک کی کوشش رہی ہے کہ یوکرین کی جنگ، مغرب اور روس کے درمیان براہ راست محاذ آرائی میں نہ تبدیل ہو جائے، لیکن بحیرہ اسود پر ہونے والا یہ واقعہ کسی حد تک اس محاذ آرائی کا سبب بن سکتا ہے۔ اب امریکہ کو دیکھنا ہو گا کہ اس کا ردعمل کیا ہونا چاہیے۔
امریکی فوجی کمانڈروں نے اپنے بیان میں خبردار کیا ہے کہ یہ ایک خطرناک عمل ہے جو ’غلط اندازے اور کشیدگی میں غیر ارادی اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔‘
Comments are closed.