عمران حکومت میں صوبائی وزیر برائے صحت رہنے والی ڈاکٹر یاسمین راشد نے اپنے گھر میں میزبان عدیل ہاشمی کو ایک انٹرویو دیا جس میں انہوں نے کئی ہوشربا انکشافات کیے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر اسٹیٹ سیمنٹ کارپوریشن میں کام کرتے تھے، یہ گھر اس کارپوریشن کی کالونی میں ہے۔ 1976 اور 1977 کے درمیان 6 یا 7 ہزار روپے میں قسطوں پر پلاٹ خریدا، سنہ 1990 میں گھر بنا اور اُس وقت اِس پورے علاقے میں ہمارے گھر کے علاوہ یہاں بس ایک اور گھر تھا۔ باقی کا تمام علاقہ بیابان تھا۔ اس وقت تک یہاں شوکت خانم اسپتال بننا شروع نہیں ہوا تھا۔
انہوں نے کہا لوگ کہتے تھے کہ تم اتنی دور گھر کیوں بنا رہی ہو، میں کہتی تھی کہ اس کے علاوہ میری اور کوئی زمین ہی نہیں، کچھ پیسے اکٹھے کر کے گھر بنوانا شروع کردیا لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے گھر کا کام مکمل نہیں ہو پا رہا تھا، سہیلیوں نے کہا کہ ہم تمہیں قرضہ دیتے ہیں، ایک دوست ڈاکٹر جویریہ نے کہا یہ 50 ہزار لے لو اور مہربانی کرکے گھر کا کام تو مکمل کروا لو، تو ایسے ہی باقی سہیلیوں نے قرضہ دے کر مدد کی، پھر گھر کی چھت بنوائی اور دوسرا ضروری کام کروا کر ہم یہاں شفٹ ہوگئے۔ فرش وغیرہ کا کام دو سال بعد کروایا۔
ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ میں اس وقت گائناکولاجسٹ بھی تھی، اچھی کمائی ہو جاتی تھی لیکن بچوں کی پڑھائی چل رہی تھی، تو اس پر بھی بہت خرچے ہوتے تھے، تمام چیزوں کے لیے بجٹ بیلنس کرنا پڑتا تھا۔ اپنی بیٹی کی شادی بھی اسی گھر میں کی، جو تب تک مکمل نہیں بنا تھا، کیونکہ یہ دو آپشن تھے کہ بیٹی کی شادی کروا لیں یا گھر بنا لیں تو بیٹی کی شادی کے بعد گھر بھی مکمل بنوا لیا اور بیٹی بھی ڈاکٹر بن چکی ہے، سہیلیوں کا قرضہ بھی ادا کردیا۔
وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ میرے اکاؤنٹ میں جتنے بھی پیسے ہوتے ہیں، اس کے ایک ایک پیسے کا حساب موجود ہے، کوئی بھی مائی کا لال انگلی نہیں اٹھا سکتا، چکوال میں میرے پاس گاؤں میں 108 کنال زمین ہے، دو پرانی گاڑیاں بھی ہیں، اس کے علاوہ میری کوئی ملکیت نہیں ہے اور میں بہت خوش زندگی گزار رہی بھی ہوں۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کے مطابق جس عمارت میں ان کا کلینک ہے، وہ اس کا کرایا دیتی ہیں، انہوں نے بتایا کہ جب میں پنجاب کی وزیر صحت تھی تو کلینک کی عمارت کی مالکن نے نوٹس بھیجا کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے، کرایا بڑھاؤ، میں نے اسے کہا کہ میرا کلینک چل نہیں رہا، کرایا کیسے بڑھاؤں، اس پر وہ مجھے عدالت میں لے گئی تھی، بچے کہتے تھے کیا آپ سے زیادہ کوئی تَھکا ہوا منسٹر بھی ہوسکتا ہے، میں نے کرایا دگنا دینا شروع کردیا تو پھر کہیں جا کر مالکن نے پیچھا چھوڑا، ہم تو ایسے منسٹر تھے، آج بھی کلینک ویسا ہی ہے، وزارت کے بعد بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جون 2022 میں پنجاب اسمبلی کے اراکین کے اثاثوں کی تفصیلات جاری کی تھیں، جس میں بتایا گیا تھا کہ سابق وزیرِ صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد 2 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے اثاثوں کی مالک ہیں۔
Comments are closed.