دنیا بھر میں مِس کیرج سے خاندانوں پر پڑنے والے اثرات: ’ڈاکٹر ہوں، جانتی ہوں مِس کیرج میری غلطی نہیں لیکن پھر بھی شرمندہ ہوں‘
- ٹیولپ موزمدار
- نامہ گار برائے صحت
ہر پانچ میں سے ایک حمل مس کیرج یعنی حمل کے گِر جانے پر ختم ہوتا ہے، جب یہ مجھ پر گزری تو مجھے پتا چلا کہ یہ تجربہ کتنا اذیت ناک ہوسکتا ہے۔
اپنی دستاویزی فلم ’مس کیرج‘ کے لیے اپنی تحقیق کے دوران میں نے دنیا بھر کے مختلف علاقوں سے خواتین سے ان کے حمل ضائع ہوجانے کے تجربے کے بارے میں پوچھا۔
تنبیہ: کچھ قارئین کے لیے یہ مواد پریشان کن ہو سکتا ہے۔
یہ ایک عالمگیر دکھ ہے لیکن اس نقصان کے بعد خواتین کو کیا توجہ ملتی ہے یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کہاں رہتی ہیں ۔
37 سالہ میلکا موامدی، لیلونگوے ملاوی
میں نے اپنا پہلا بچہ حمل کے پانچ ماہ بعد کھو دیا۔ میں نے اچانک اپنی رانوں اور ٹانگوں کے درمیان پانی آتا ہوا محسوس کیا۔ میں ہسپتال گئی اور مجھے بتایا گیا کہ میرا مس کیرج ہو گیا ہے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میرے جسم کو کیا ہو رہا ہے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ مجھے اپنے مردہ بچے کو جنم دینا پڑے گا۔
میں ہسپتال کے وارڈ میں اکیلی رہ گئی تھی۔ یہ بہت اذیت ناک تھا۔
مجھے درد آنے لگے، مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا کروں۔ فلموں میں، لوگ درد ہونے پر زور لگاتے ہیں، اس لیے میں نے یہی کیا۔ میں زور لگا رہی تھی، درد ناقابل برداشت تھا، اور پھر میں نے محسوس کیا کہ میری اندر سے کچھ باہر نکل رہا ہے۔ یہ میرا بچہ تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے۔ میں بالکل اکیلی تھی۔
ذہنی طور پر یہ بہت مشکل تھا۔ میری کمیونٹی میں مس کیرج پر بات نہیں کی جاتی۔ یہ ممنوع موضوع ہے۔ زیادہ تر الزام عورت پر ڈالا جاتا ہے، جیسے آپ نے بچہ گنوانے کے لیے خود کچھ کیا۔ لوگ حمل میں تمام ممکنہ طبی پیچیدگیوں پر غور نہیں کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے مجھے بہت برا محسوس ہوا، جیسے میں ایک کم تر عورت تھی۔‘
میرے خیال میں ہم سب کو حمل کے نقصان کے بارے میں زیادہ کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ آپ خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں اور ٹھیک نہیں ہو سکتے۔
لوگ پوچھتے ہیں ’آپ صرف چند ماہ کے حمل کے لیے کیوں رو رہی ہیں؟‘ لیکن یہ حمل تھا اور یہ ایک نقصان تھا۔
میں نے تین بچے کھودیے لیکن اب میرے تین بچے بھی ہیں۔ نقصان کے بعد بھی امید باقی ہوتی ہے۔
50 سالہ ڈاکٹر مکی کاگامی، ٹوکیو ، جاپان
میرا پانچ مرتبہ مس کیرج ہوا۔ وہ سب مشکل تھے ، لیکن تیسرا نقصان خاصا مشکل تھا۔ مجھے کچھ خون بہنے لگا اور میں جانتی تھی کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ہم نے ایک پارٹی کی دعوت قبول کی تھی، اس لیے ہم اس دن گئے۔ پارٹی میں لوگ اپنے پیارے بچوں کے بارے میں بات کر رہے تھے، اور کہہ رہے تھے کہ میرا اور میرے شوہر کا بھی ایک بچہ ہونا چاہیے۔ میری حالت غیر ہو رہی تھی لیکن مجھے لگا مجھے مسکراتے رہنا چاہیے۔
میرے پیٹ میں شدید درد ہونے لگا، لیکن میں جلدی وہاں سے نہیں نکل سکتی تھی، پھر آخر کار ہم گھر جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھ گئے۔
اس وقت میرا بہت زیادہ خون بہہ رہا تھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میرے اندر کا حصہ پھٹا جا رہا ہو۔ گھر پہنچ کر میں بیت الخلا گئی اور دیکھا کہ جنین باہر نکل رہا ہے۔ میں نے اس ٹشو کو ٹوائلٹ سے باہر نکالا کیونکہ میں جانتی تھی کہ ڈاکٹر اسے ٹیسٹ کر کے جاننا چاہیں گے کہ ہوا کیا تھا۔
مجھے یہ اب بھی بہت واضح طور پر یاد ہے، اس وقت کا درد، اداسی. میں اسے بار بار یاد کرتی ہوں۔ یہ میری زندگی کا مشکل ترین وقت تھا۔
میں ایک ڈاکٹر ہوں، میں جانتی ہوں کہ مس کیرج میری غلطی نہیں ہے، لیکن میں پھر بھی بہت شرمندہ ہوں۔
جاپان میں ایک تصور ہے کہ بچے اپنے والدین کا انتخاب کرتے ہیں۔ میری دوست نے مجھے بتایا کہ چونکہ میں ایک بہترین بچہ چاہتی تھی، اس لیے کوئی بچہ مجھے اپنی ماں کے لیے منتخب نہیں کرنا چاہے گا۔ مجھے ایسا لگا جیسے مجھے نقصان کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہو۔ میرے خاندان کا کہنا تھا کہ میں ایک دباؤ والی ملازمت میں بہت محنت کر رہی تھی، اور شاید اسی لیے ایسا ہوا۔
میرا مشورہ یہ ہے کہ اس عورت کو غمگین ہونے دیں، اور ان کے ساتھ غمگین محسوس کریں۔ آپ کو اس کی ہمدردی میں کچھ خاص کہنے کی ضرورت نہیں ہے، بس اس کے لیے موجود رہیں اور سنیں۔
27 سالہ ٹیڈا سماتھا، گاؤ کنیبا، گیمبیا
میں ایک دن ایندھن کے لیے بھاری لکڑیاں اٹھا کر لا رہی تھی، اس کے فوراً بعد ہی مجھے خون آنا شروع ہو گیا۔ میں نہیں جانتی تھی کے بھاری چیزیں اٹھانے سے مس کیرج ہو سکتا ہے۔ خواتین کو اپنے حمل کے آغاز میں ہی طبی مرکز جانا چاہیے اور اچھی توجہ اور مشورے لینے چاہیں۔ کئی دیہاتوں میں قریبی صحت مرکز ہیں ہوتے، یہ چیز بدلنی چاہیے۔
میں ایک مقامی ہسپتال میں گئی اور مجھے کہا گیاکہ سب ٹھیک ہو جائے گا اس لیے میں آرام کرنے گھر چلی گئی۔ اس رات میں نہانے کے لیے پانی کی بالٹی لے کر جا رہی تھی کہ مجھے درد شروع ہوا، اس کے بعد سب کچھ بیت الخلا کے فرش پر ہی بہت جلد باہر آ گیا۔
مجھ سے کہا گیا کہ میں حمل کے ٹشو لے کر ہسپتال جاؤں اس لیے مںی نے اسے ایک کپڑے میں لپیٹا اور ہسپتال چلی گئی۔
انھوں نے میرا اچھا خیال رکھا، لیکن میں بہت اداس اور تنہا محسوس کر رہی تھی کیونکہ میرے شوہر ملک سے باہر تھے۔
گیمبیا میں ایک روایت ہے کہ کہ اگر آپ تین یا چار سال تک اپنے شوہر کو اولاد نہیں دیتیں تو لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے صرف پیسے کے لیے شادی کی ہے۔ کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنے شوہر سے کوئی چیز نہیں مانگ سکتے کیونکہ آپ نے اسے کوئی بچہ نہیں دیا۔
اب میری ایک تین سال کی خوبصورت بیٹی ہے۔
33 سالہ جوزی برینن، لیسٹر ، برطانیہ
جب آپ کو یہ خون آنا شروع ہوتا ہے تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی امیدیں اور خواب ختم ہو گئے ہیں۔ آپ کو بہت درد محسوس ہوتا ہے اور آپ اتنا خون دیکھتے ہیں، اور آپ کو احساس ہوتا ہے کہ اب بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
2018 سے اب تک ہمارے پانچ مس کیرج ہو چکے ہیں۔ وہ سب حمل کے پہلے تین مہینوں میں ہوئے۔ ہم اب بھی انھیں اپنے بچے سمجھتے ہیں، اور ہم نے درج کر رکھا ہے کہ ان کی سالگرہ کب ہوئی ہوگی۔
تیسرے مِس کیرج کے بعد مجھے پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کی تشخیص ہوئی۔ اس کے بعد میرے دو اور حمل ضائع ہو گئے۔
ہم نے دوبارہ کوشش کرنے کی ہمت پیدا کی، اور میں اب چھٹی بار حاملہ ہوں۔ جب ہمیں پتہ چلا تو میں بالکل گھبرا گئی۔
میں نے فوراً ٹومی چیریٹی ریسرچ سنٹر کو فون کیا اور کہا ’آپ کو میری مدد کرنی ہے‘۔ انھوں نے مجھے ایک آزمائشی تجربے کے بارے میں بتایا جو انھوں نے ہارمون پروجیسٹرون پر ابھی ختم کیا تھا جس کے کچھ ایسی خواتین کے لیے بہت مثبت نتائج برآمد ہوئے تھے جن کے میری طرح مس کیرج ہو چکے تھے۔ اور اس لیے مجھے فوراً اس پر ڈال دیا گیا۔
اس بار، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم واقعی کچھ کر رہے ہیں، بجائے اس کے کہ صرف یہ امید رکھیں کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
میں اب اپنے حمل کے آخری دنوں میں ہوں۔ میں اس پورے تجربے سے جذباتی محسوس کر رہی ہوں اور پھر بھی بہت خوش قسمت ہوں۔
رخسانہ عامر، کراچی پاکستان
میں نے سنا تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے، لیکن مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ میرے ساتھ ہو رہا ہے۔ میں ڈاکٹر کے پاس گئی اور انھوں نے مجھے بتایا کہ یہ بہت فطری بات ہے، کہ حمل گر جاتا ہے اور فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔
اس کے بعد میرے تین اور مس کیرج ہوئے وہ سب آٹھ ہفتوں کے قریب تھے۔
میں سوچتی رہی ’میرے گھر والے کیا سوچیں گے؟‘ وہ سوچیں گے کہ مجھ میں کمی ضرور ہے۔ لوگ مجھے فون کریں گے اور مجھے بہتر محسوس کروانے کی کوشش کریں گے، یہ کہتے ہوئے کہ ’سب ٹھیک ہو جائے گا‘۔
انھوں نے کہا ’تم جوان ہو تمہارے اور بچے ہو جائیں گے۔‘ مجھی سب سے یہ رد عمل ملا۔
میں نے اور میرے شوہر نے اپنے مس کیرج کے بارے میں بات نہیں کی، حالانکہ انھوں نے میرا بہت اچھا ساتھ دیا۔ ہم جانتے تھے کہ اس کے بارے میں بات کرنا ہم دونوں کے لیے تکلیف دہ ہوگا۔
خوش قسمتی سے، مجھے ایک بہت اچھی ڈاکٹر ملیں۔ وہ دیکھ بھال کرنے والی اور مہربان خاتون تھیں اور انھوں نے ہمیں بہت سارے ٹیسٹ کرے کو کہا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کیا ہو رہا ہے۔ ہمیں پتہ چلا کہ مجھے حمل کے دوران خون جمنے کا مسئلہ تھا۔
جب میں اگلی بار حاملہ ہوئی، میں نے حمل کو سہارا دینے کے لیے بہت سی دوائیں لیں۔ اب میری دو صحت مند بیٹیاں ہیں۔ مجھ پر رحمت ہے۔
میں نے چار بچے کھوئے۔ مجھے یاد رکھنا ہے کہ یہ میری غلطی نہیں تھی، اور یہ وہ چیز ہے جو مس کیرج سے گزرنے والی ہر عورت کو معلوم ہونی چاہیے۔
34 سالہ تامیرا ڈین، بالٹیمور، امریکہ
اکتوبر 2014 میں، میں کمر کے درد کے ساتھ جاگی۔ میں نے ڈاکٹر سے بات کی اور بتایا گیا کہ شاید مجھے ابھی قبض ہے اور مجھے الٹراساؤنڈ کے لیے چند گھنٹوں میں آنا چاہیے۔ لیکن میں اس کے لیے جا ہی نہیں پائی کیونکہ گھر میں ہی میرا اسقاط حمل ہو گیا۔ میں اکیلی تھی، مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے جسم کو کیا ہو رہا ہے۔ مجھے صرف خون کا ایک جوہڑ نظر آ رہا تھا۔
مجھے ایمبولنس کے ذریعے ہسپتال لے جایا گیا، اور جب میں وہاں پہنچی تو ڈاکٹر نے صرف اتنا کہا ’اوہ، کبھی کبھی یہ چیزیں ہوتی ہیں۔‘
میری ڈی اینڈ سی کی گئی یہ طبی طریقہ کار ہے جس میں حمل کے باقی ٹشوز کو ہٹا دیا جاتا ہے۔ مجھے آدھے گھنٹے کے لیے ایک ریکوری روم میں رکھا گیا، مس کیرج کے بارے میں کتابچوں کا ڈھیر دیا گیا، اور گھر جانے کو کہا گیا۔
ذہنی طور پر اس نے مجھ سے بہت کچھ لے لیا۔ لیکن ڈاکٹروں کے لیے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک کام ہے۔ ’یہ چیزیں ہو جاتی ہیں، ہمیں افسوس ہے، اگلی بار دوبارہ کوشش کریں۔‘
کیونکہ میں نے گھر میں بیت الخلا میں بچہ کھو دیا تھا، اس کے بعد باتھ روم کا استعمال میرے لیے کافی دیر تک تکلیف دہ رہا۔ میرے خیال میں اگلے چھ مہینے تک میں ہر روز روتی رہی۔
مجھے فوراً کام پر واپس جانا پڑا۔ میں اس وقت پڑھا رہی تھی، میں بچوں کے آس پاس نہیں رہنا چاہتی تھی۔ لیکن میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ مجھے اپنے غم پر توجہ دینے کا موقع نہیں ملا۔
مجھے آخر کار کچھ مشورے مل گئے۔ آٹھ سال بعد، میں اب بھی زیرِ علاج ہوں۔ مجھے اب بھی وہ لمحات یاد ہیں۔ جیسے سال کے وہ دن جب میں نے بچہ کھو دیا تھا۔ میرے خیال میں یہ چیزیں ہمیشہ مجھے تکلیف دیتی رہیں گی۔
Comments are closed.