ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی 20 سال بعد اپنی بہن سے ملاقات: ’شیشے کی دیوار دیکھ کر مسکراہٹ اُداسی میں بدل گئی‘
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی 20 سال بعد اپنی بہن سے ملاقات: ’شیشے کی دیوار دیکھ کر مسکراہٹ اُداسی میں بدل گئی‘
قریب 20 سال سے امریکہ میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اپنی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان سے ملاقات ہوئی ہے۔
ریاست ٹیکساس کے فورٹ ورتھ جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ سے ’تین گھنٹے طویل ملاقات‘ کے بعد سینیٹر مشتاق نے اس حوالے سے چند تفصیلات جاری کی ہیں۔
مارچ 2003 میں پاکستانی نیورو سائنسدان ڈاکٹر عافیہ کراچی سے لاپتہ ہوئی تھیں۔ انھیں افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں 2010 میں امریکہ میں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ امریکی محکمۂ انصاف نے انھیں ’القاعدہ کی رکن اور سہولت کار‘ قرار دیا تھا۔
تاہم عافیہ صدیقی کے حامی سزا کے اس فیصلے کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے ان کی پاکستان واپسی کی تحریک چلائی جا رہی ہے جس کی سربراہی ان کی اپنی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کر رہی ہیں۔
تاحال امریکی حکام یا پاکستانی دفتر خارجہ نے اس ملاقات سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
امریکہ میں عافیہ صدیقی سے ملاقات کے لیے فوزیہ صدیقی (دائیں جانب) کے ساتھ وکیل کلائیو سٹیفورڈ سمتھ (درمیان میں) اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان (بائیں جانب) بھی موجود ہیں
’شیشے کی دیوار دیکھ کر مسکراہٹ اداسی میں بدل گئی‘
ڈاکٹر عافیہ سے ان کی بہن کی کل دو ملاقاتیں ہوئی ہیں جن میں سے پہلی ملاقات وہ تنہا تھیں جبکہ دوسری ملاقات میں ان کے ساتھ وکیل کلائیو سٹیفورڈ سمتھ اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان بھی موجود ہیں۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے بتایا ہے کہ پہلی ملاقات کا دورانیہ ڈھائی گھنٹے تھا جس دوران عافیہ نے اپنی بہن کو بتایا تھا کہ انھیں اپنی ماں کی وفات کا علم نہیں تھا۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ملاقات کے دوران ڈاکٹر فوزیہ کو عافیہ سے گلے ملنے اور ہاتھ ملانے تک کی اجازت نہیں تھی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر فوزیہ کو اس بات کی اجازت بھی نہیں دی گئی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کو ان کے بچوں کی تصاویر دکھا سکیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ ملاقات جس جگہ ہوئی وہاں دونوں بہنوں کے درمیان جیل کے ایک کمرے کے درمیان میں موٹا شیشہ موجود تھا۔
تین گھنٹوں پر محیط دوسری ملاقات، جس میں سینیٹر مشتاق بھی شامل تھے، کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ’سفید سکارف اور خاکی جیل ڈریس میں ملبوس ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے ملاقات کے دوران کہا کہ اُن کو اپنی والدہ اور بچے ہر وقت یاد آتے ہیں۔‘
مشتاق احمد خان نے دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر عافیہ کے سامنے والے دانت جیل میں ہونے والے حملے کی وجہ سے گر چکے ہیں جبکہ ان کو سر پر ایک چوٹ کی وجہ سے سننے میں بھی مشکل پیش آ رہی تھی۔
وکیل کلائیو سٹیفورڈ کا کہنا ہے کہ عافیہ نے انھیں بتایا کہ وہ یہ جاننا چاہتی ہیں کہ آیا ان کا نوزائیدہ بیٹا سلیمان ’اس وقت ہلاک ہوا تھا جب انھیں اغوا کیا گیا۔‘
ان کے مطابق عافیہ اور فوزیہ نے اپنے بچپن کی نظم ’آئی ایم شرلی ٹیمپل دی گرل ود کرلی ہیئر‘ پڑھی۔
کلائیو سٹیفورڈ نے دعویٰ کیا کہ فوزیہ کو دیکھ کر ڈاکٹر عافیہ مسکرائیں مگر ’شیشے کی دیوار جو انھیں گلے ملنے سے روک رہی تھی اسے دیکھ کر یہ اداسی میں بدل گئی۔‘
’ملاقات اور گفتگو ریکارڈڈ تھی‘
سینیٹر مشتاق نے عافیہ صدیقی کے ساتھ ملاقات کے بعد دعویٰ کیا کہ جیل میں ہونے والی تین گھنٹے کی ملاقات اور گفتگو ’مکمل ریکارڈ ہو رہی تھی۔ عافیہ کی صحت کمزور، بار بار ان کی آنکھوں میں آنسو، جیل اذیت سے دکھی اور خوفزدہ تھیں۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ عافیہ کے ’سامنے کے اوپر کے چار دانت ٹوٹے ہوئے تھے، ان کے سر پر چوٹ کی وجہ سے سماعت میں مشکل پیش آرہی ہے۔ وہ بار بار کہہ رہی تھیں کہ مجھے اس جہنم سے نکالو۔‘
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق جولائی 2022 میں جیل کے اندر ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ایک دوسرے قیدی نے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں انھیں چوٹیں آئی تھیں۔
اس حملے سے متعلق عدالتی دستاویزات کے مطابق عافیہ صدیقی کے وکلا نے کہا تھا کہ ایک قیدی نے ’گرم کافی کے ساتھ بھرا ہوئے مگ سے ان کے چہرے پر وار کیا تھا۔‘
اس کے مطابق اس حملے کے دوران ایک دوسری خاتون قیدی نے انھیں مکے اور لاتیں رسید کیں جس سے انھیں چوٹیں آئیں اور انھیں ویل چیئر پر جیل کے میڈیکل یونٹ لے جایا گیا۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق حملہ سے ڈاکٹر عافیہ کی آنکھوں کے گرد نشان بن گئے اور ان کی بائیں آنکھ کے نیچے تین انچ کی چوٹ نشان بن گیا۔
فائل فوٹو
عافیہ صدیقی: امریکہ سے تعلیم یافتہ خاتون جن کا افغانستان پہنچنا آج تک معمہ ہے
امریکہ سے تعلیم یافتہ ڈاکٹر عافیہ مارچ 2003 میں کراچی سے لاپتہ ہو گئی تھیں۔ ان کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو کراچی میں ان کی رہائش گاہ سے قبل تین بچوں سمیت حراست میں لیا گیا تھا۔
تاہم پاکستانی اور امریکی حکام اس کی تردید کرتے آئے ہیں۔
امریکہ نے جولائی 2007 میں ان کی افغانستان سے حراست کو ظاہر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ڈاکٹر عافیہ نے امریکی فوجیوں پر فائرنگ کر کے انھیں قتل کی کوشش کی۔
ایف بی آئی اور نیویارک کے پولیس کمشنر ریمنڈ کیلی کی طرف سے عافیہ صدیقی کے خلاف مقدمے میں جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کو افغانستان میں غزنی کے صوبے سے گرفتار کیا گیا۔
امریکی حکام کے مطابق افغان پولیس کو شیشے کے مرتبانوں اور بوتلوں میں سے کچھ دستاویزات ملی تھیں جن میں بم بنانے کے طریقے درج تھے۔
اس بیان میں کہا گیا ڈاکٹر عافیہ ایک کمرے میں بند تھیں جب ان سے تفتیش کے لیے ایف بی آئی اور امریکی فوجیوں کی ایک ٹیم پہنچی تو انھوں نے پردے کے پیچھے سے ان پر دو گولیاں چلائیں لیکن وہ کسی کو نشانہ نہ بنا سکیں۔
ایک امریکی فوجی کی جوابی فائرنگ اور اس کے بعد کشمکش میں ڈاکٹر عافیہ زخمی ہو گئی تھیں۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکہ میں پاکستانی سینیٹرز کے ایک وفد سے ملاقات میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ لائے جانے سے قبل انھیں افغانستان میں بگرام کی امریکی جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
مشاہد حسین سید، جو 2008 میں ہونے والی اس ملاقات میں شامل تھے، نے بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے بتایا کہ ان کو اسلام آباد سے اغوا کیا گیا اور ان کو بے ہوشی کے انجکشن لگائے گئے۔
مشاہد حسین سید نے کہا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مطابق جب ان کو ہوش آیا تو وہ بگرام جیل میں قید تھیں۔
عافیہ صدیقی کو 86 سال کی سزا کیوں ہوئی؟
ان پر امریکہ میں مقدمہ چلایا گیا اور سنہ 2010 میں انھیں 86 برس قید کی سزا سنائی گئی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے جج نے کہا تھا کہ امریکی شہریوں پر قاتلانہ حملے کی ترتیب وار سزا 20 سال، امریکی عملداروں اور اہلکاروں پر حملے کی سزا 20 سال، امریکی حکومت اور فوج کے عملداروں اور اہلکاروں پر ہتھیار سے حملے کی سزا 20 سال، متشدد جرم کرنے کے دوران اسلحہ سے فائر کرنے کی سزا عمر قید، امریکی فوج اور حکومت کے ہر اہلکار اور عملدار پر حملے کی ہر ایک سزا آٹھ سال یعنی 24 سال بنتی ہے۔
برطانوی اخبار دی گارڈین کی جانب سے خلیج گوانتانامو کے حراستی مرکز کی شائع کردہ خفیہ دستاویزات (گوانتانامو فائلز) کے مطابق پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکہ میں دھماکہ خیز مواد سمگل کرنے کی کوشش اور القاعدہ کو بائیولوجیکل ہتھیار بنا کر دینے کی پیشکش کی تھی۔
یہ الزامات امریکی انٹیلیجنس کے تجزیے اور القاعدہ کے کم از کم تین سینیئر ارکان سے براہ راست تفتیش کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات کے نتیجے میں لگائے گئے، جن میں امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں کے منصوبہ ساز خالد شیخ محمد بھی شامل تھے۔
تاہم ان معلومات کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی جا سکتی اور اس بات کا امکان ہے کہ ملزمان سے یہ بیانات تشدد کے ذریعے حاصل کیے گئے ہوں گے۔
خالد شیخ محمد کو جنھیں انٹیلیجنس حلقوں میں ’کے ایس ایم‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے کو دوران حراست 183 مرتبہ واٹر بورڈنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ وہ القاعدہ کے سرکردہ رہنما خالد شیخ محمد کے بھتیجے کی اہلیہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق گوانتانامو کی فائلوں سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ڈاکٹر عافیہ دو ہزار دو اور تین کے دوران کراچی میں القاعدہ کے سیل میں شامل تھیں اور اس سیل کے ارکان نے گیارہ ستمبر کے حملوں کی کامیابی کے بعد امریکہ، لندن کے ہیتھرو ائرپورٹ اور پاکستان میں مزید حملوں کے منصوبے بنائے۔
دستاویزات کے مطابق اس سیل کے ارکان نے ٹیکسٹائل اشیا برآمد کرنے کی آڑ میں امریکہ میں دھماکہ خیز مواد سمگل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ خالد شیخ محمد کے بیان کے مطابق اس دھماکہ خیز مواد سے امریکہ میں اہم معاشی اہداف کو نشانہ بنانا تھا۔ یہ آپریشن امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار کے ذریعے انجام دیا جانا تھا جو ایک پاکستانی بزنس مین سیف اللہ پراچہ چلاتے تھے۔
گوانتانامو کے حراستی مرکز میں سیف اللہ پراچہ کی فائل کے مطابق اس منصوبے میں ان کی ذمہ داری کرائے کے گھر حاصل کرنا اور انتظامی تعاون فراہم کرنا تھی۔
واضح رہے کہ سیف اللہ پراچہ کو حال ہی میں 20 سال قید کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر عافیہ پر الزام تھا کہ اسی آپریشن کے سلسلے میں ماجد خان نامی شخص کی امریکی سفری دستاویزات حاصل کرنے میں مدد کرنے کے لیے وہ 2003 میں امریکہ گئیں۔ ماجد خان کو امریکہ میں پیٹرول پمپز اور پانی صاف کرنے والی تنصیبات پر بموں سے حملے کرنے تھے۔
ماجد خان کو بھی رواں سال امریکہ نے رہا کر دیا ہے۔
تاہم خفیہ دستاویزات کے مطابق ماجد خان نے دوران حراست بیان دیا کہ انھوں نے اپنے امریکہ سفر کو ممکن بنانے کے لیے ڈاکٹر عافیہ کو رقم، تصاویر اور امریکہ میں پناہ کی درخواست کے لیے فارم بھر کر دیا۔
ڈاکٹر عافیہ نے امریکہ جانے کے بعد وہاں ماجد خان کے نام سے ایک پوسٹ آفس بکس کھولا جس کے لیے انھوں نے اپنے ڈرائیور کا ڈرائیونگ لائسنس استعمال کیا۔
تاہم یہ منصوبہ ناکام ہو گیا اور ماجد خان کو پاکستان میں گرفتار کرنے کے بعد گوانتانامو کے حراستی مرکز منتقل کر دیا گیا۔
Comments are closed.