ڈاکٹر عارف علوی کے بطور صدر 5 سال پورے ہوگئے، ان کی مدت 8 ستمبر کو رات 12 بجے مکمل ہوگئی۔
عارف علوی مدت پوری ہونے کے باوجود عہدے پر رہنے والے ملک کے پہلے منتخب صدر بن گئے، نئی اسمبلی منتخب ہونے تک صدر علوی اپنا کام جاری رکھیں گے، عارف علوی 2018 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اتحادیوں کے ووٹ سے منتخب ہوئے۔
چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر اسمبلی توڑنے اور جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجنے پر سیاسی اور قانونی حلقوں کی جانب سے انہیں کڑی تنقید کا سامنا رہا۔
گزشتہ ماہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور ملٹری ایکٹ پر دستخط نہ کرنے کے بیان پر بھی پنڈورا باکس کھلا، صدر علوی نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کے قانون بن جانے پر اس کی ذمہ داری اپنے اسٹاف پر عائد کی۔
پاکستان کے 13ویں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی 5 سالہ مدت 8 ستمبر کو ختم ہوگئی، آئین کے آرٹیکل 41 شق چار کے مطابق صدر کا الیکشن صدارتی مدت ختم ہونے سے زیادہ سے زیادہ 60 اور کم سے کم 30 دن قبل کروایا جائے گا۔ اگر اسمبلی اس دوران توڑ دی گئی ہو تو صدارتی انتخاب عام انتخابات ہونے کے بعد 30 دن کے اندر کروایا جائے گا۔
اس اعتبار سے صدارتی انتخاب 8 ستمبر سے 30 دن قبل ہونا تھا، تاہم آئین کے مطابق صدر کا چناؤ سینیٹ، قومی اسمبلی اور تمام صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل الیکٹورل کالج کرتا ہے اور اس وقت الیکٹورل کالج مکمل نہیں کیونکہ قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں موجود نہیں۔ الیکٹورل کالج مکمل نہیں تو صدر کا انتخاب نہیں ہو سکتا۔
آئین کا آرٹیکل 44 ون کہتا ہے کہ صدر اپنی معیاد ختم ہو جانے کے باجود، نئے صدر کے اتنخاب اور عہدہ سنبھالنے تک اپنی عہدے پر فائز رہیں گے۔ آرٹیکل 44 تھری کے تحت صدر، اسپیکر قومی اسمبلی کے نام اپنی دستخطی تحریر کے ذریعے عہدے سے مستعفی ہو سکتے ہیں۔
یعنی آئین کی رو سے عارف علوی نئے عام انتخابات ہونے اور پھر الیکٹورل کالج مکمل ہونے کے بعد نئے صدر کے انتخاب اور عہدہ سنبھالنے تک بطور صدر مملکت اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔
آئین کی رو سے یہ تو طے ہو گیا کہ عارف علوی نئے صدر کے آنے تک عہدہ صدارت پر رہیں گے مگر یاد رہے کہ نئے صدر کا انتخاب عام انتخابات کی تاریخ کے 30 روز کے اندر ہونا لازم ہے۔
Comments are closed.