روس یوکرین جنگ: چین اس لڑائی کو آن لائن تبصروں اور سوشل میڈیا پر کیسے سینسر کر رہا ہے؟
- کائی وانگ
- بی بی سی ریئلٹی چیک
چین نے سفارتی سطح پر یوکرین میں جاری جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے۔ اس نے اقوام متحدہ میں روسی مداخلت سے متعلق مذمتی قرارداد پر ووٹنگ سے اجتناب کیا۔
مگر چینی سوشل میڈیا ویب سائٹس پر حکام اس لڑائی سے متعلق سخت تبصروں کو دبانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کسی تنگ راستے پر چلنے جیسا ہے۔
گذشتہ ماہ چینی صدر شی جن پنگ نے اعلان کیا تھا کہ بیجنگ کے روس کے ساتھ مضبوط تعلقات کی ’کوئی حد نہیں۔‘
چین کس طرح کا مواد سینسر کر رہا ہے؟
ایسی پوسٹیں جن میں روسی فوجی کارروائی کی حمایت یا مخالفت میں یکطرفہ رائے دی جائے انھیں ہٹایا جا رہا ہے۔
چینی سوشل میڈیا ویب سائٹ ویبو پر ایک شخص نے لکھا کہ ’اب کوئی بھی یوکرین کے ساتھ کھڑے ہونے کی ہمت نہیں کر سکے گا۔ یہ روس کے لیے مکمل یکطرفہ سپورٹ ہے۔‘ چین میں سینسرشپ کو دیکھنے والی تنظیم فری ویبو کے مطابق ایسی کئی پوسٹیں حذف کی گئی ہیں۔
جنگ سے قبل مسیجنگ ایپ وی چیٹ پر ایک ریٹائرڈ روسی جرنیل کا خط شیئر کیا جا رہا تھا جس میں وہ صدر پوتن کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسے بھی بلاک کر دیا گیا ہے۔
روس کی حمایت میں کیے جانے والے کچھ تبصروں کو بھی حذف کیا گیا ہے۔
روس کے سرکاری خبر رساں اداے آر ٹی نے اپنے ویبو اکاؤنٹ پر چین کی حمایت پر ’شکریہ‘ کی پوسٹ کی تھی مگر اسے بھی ہٹا دیا گیا۔ ویبو پر ایک حذف کی گئی پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’مجھے خوشی ہے کہ روس نے یوکرین میں نیو نازیوں کے خلاف لڑنے کا مشکل فیصلہ کیا ہے۔ روس پر عائد پابندیاں ناقابل قبول ہیں۔‘
یوکرین میں جاری جنگ کے دوران چین سفارتی سطح پر نیوٹرل رہنے کی کوشش کر رہا ہے
چین سوشل میڈیا کو کیسے سینسر کرتا ہے؟
چین میں سوشل میڈیا کمپنیوں کو حکومت کی جانب سے مسلسل ہدایات ملتی ہیں کہ مخصوص مواد کے ساتھ کیا کرنا ہے اور ان پر عملدرآمد کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔
مبینہ طور پر ایسی ہی چند ہدایات چائنہ ڈیجیٹل ٹائمز نامی ادارے پر رپورٹ کی گئی تھیں۔ خیال ہے کہ انھیں سائبر سپیس ایڈمنسٹریشن آف چائنہ (سی اے سی) نے رواں ماہ جاری کیا تھا۔ اس میں کمرشل ویب سائٹس اور مقامی میڈیا سے کہا گیا تھا کہ وہ یوکرین جنگ سے متعلق ’لائیو سٹریم یا ہیش ٹیگ استعمال نہ کریں۔‘
اس میں کہا گیا تھا کہ غیر ملکی میڈیا کی اطلاعات اور یکطرفہ ’گمراہ کن پیغامات‘ کی اشاعت پر سخت پابندی ہے۔
روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج
بی بی سی لائیو پیج: یوکرین پر روس کا حملہ، تازہ ترین صورتحال
چین میں ذرائع ابلاغ کی ماہر سارہ کُک کہتی ہیں کہ ’مجھے یہ ہدایت نامہ بلکل مستند لگتا ہے۔ اسے قابل اعتباد ذرائع سے حاصل کیا گیا اور اس میں دی گئی ہدایات وہاں میڈیا کنٹرول سے متعلق ماضی سے مطابقت رکھتی ہیں۔‘
روسی مداخلت کی ابتدا سے سوشل میڈیا کمپنیوں کو خطرناک یا اشتعال انگیز پوسٹیں ہٹانی پڑ رہی ہیں۔
چین میں ٹک ٹاک کی متبادل ایپ دوئن نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ اس نے 498 ویڈیوز اور 2657 کمنٹس ہٹائے ہیں۔ اس کی وجہ غلط معلومات اور نامناسب پیغامات بتائی گئی جن سے ’نفرت‘ اور ’جنگ سے متعلق جذبات‘ پھیل سکتے ہیں۔ اس نے سینکڑوں اکاؤنٹس بھی معطل کیے۔
ویبو نے کہا ہے کہ اس نے ہزاروں اکاؤنٹ اور ایک بڑی تعداد میں پوسٹیں حذف کی ہیں جو یوکرین کی ’غلط‘ صورتحال دکھاتی ہیں۔ اس نے مواد کی تصدیق کے لیے جیو لوکیشن کا لیبل متعارف کرانے کا بھی اعلان کیا ہے۔
ویڈیو سٹریمنگ ایپ بلیبلی نے کہا کہ گذشتہ ماہ اس نے 1642 ’نامناسب پیغامات‘ حذف کیے اور 57 اکاؤنٹ معطل کیے ہیں۔
وی چیٹ اور بلیبلی دونوں نے صارفین سے یوکرین کی صورتحال پر بحث کے دوران ’غیر جانبداری‘ اور ’سمجھداری‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
چینی نیوز چینلز پر روسی اقدام کو ’جنگ‘ یا ’مداخلت‘ نہیں کہا جاتا
چین کس بیانیے کی تشہیر کر رہا ہے؟
یوکرین کی صورتحال پر سرکاری اور مقامی میڈیا دونوں پر مسلسل کوریج جاری ہے لیکن اس دوران روسی اقدامات کو ’جنگ‘ یا ’مداخلت‘ نہیں کہا جا رہا۔
فیک نیوز پر نظر رکھنے والی تنظیم ڈبل تھنک لیب نے کہا ہے کہ چینی میڈیا ’روسی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے باقاعدگی سے غلط معلومات اور سازشی نظریات‘ کو فروع دے رہا ہے۔
چینی میڈیا کی جانب سے غلط دعوؤں کو خبر بنایا جا رہا ہے، مثلاً ’یوکرینیوں نے خود اپنے جوہری پلانٹ پر آگ لگائی‘۔ اور ان دعوؤں کی تصدیق بھی نہیں کی جا رہی۔
یوکرین کی طرف سے مزاحمت کی بھی کوریج نہیں کی جا رہی اور نہ ہی روسی مداخلت پر مغربی ممالک کا ردعمل دکھایا گیا۔
کُک کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال سے یوکرین سے متعلق مواد پر سینسرشپ میں عدم توازن ہے۔۔۔ (چینی) پوزیشن کے مقابلے دوسری رائے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘
ذرائع ابلاغ پر جب بھی یوکرین میں پیش آنے والے واقعات پر تنقید کی جاتی ہے تو درحقیقت اس کا ہدف امریکہ ہوتا ہے جسے اس لڑائی کا قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے۔
چینی اخبار گلوبل ٹائمز پر شائع ہونے والی ایک تحریر میں امریکہ پر الزام لگایا گیا کہ وہ یوکرین کو ہتھیار فروخت کر کے منافع کما رہا ہے۔ ایک دوسری تحریر میں امریکہ پر الزام لگایا گیا کہ وہ چین کو بدنام کرنے کے لیے یوکرین سے متعلق غلط معلومات فراہم کر رہا ہے۔
ایک طویل عرصے سے چین میں روسی سرکاری ذرائع ابلاغ کی موجودگی رہی ہے۔ یہاں بیشتر غیر ملکی ویب سائٹس پر پابندی ہے یا انھیں بہت زیادہ سینسر کیا جاتا ہے۔
ویبو پر روسی چینل سپوتنک کے ایک کروڑ 16 لاکھ فالوورز ہیں اور اکثر چین کا سرکاری میڈیا یوکرین جنگ پر اسی کا حوالہ دے کر خبر چلاتا ہے۔
Comments are closed.