چین کے ’کیوٹ‘ سفیر جو کبھی سفارتکاری تو کبھی ناراضی ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں

چین پانڈا ڈپلومیسی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, وقار مصطفیٰ
  • عہدہ, صحافی، محقق

یہ پہلا موقع تھا کہ چین نے مشرقِ وسطیٰ کے کسی ملک میں ایسے سفیر بھیجے تھے۔

فٹبال ورلڈ کپ میں ٹیموں کی میزبانی کرتے قطر کو تو یہ سفیر، سی ہائے اور جن جنگ، اتنے بھائے کہ انھیں ’ثریا‘ اور ’سہیل‘ نام دے دیے۔

اگلے 15 سال کے لیے دوحہ میں تعینات ان سفیروں کی خوراک ہر ہفتے ان کے آبائی وطن چین سے آتی ہے، تقریباً 1,800 پاؤنڈ تازہ بانس۔ پانڈا یہی تو کھاتے ہیں۔ ہاں اگر ملے تو شہد، انڈا، مچھلی، شکر قندی، نارنگی اور کیلے وغیرہ بھی کھا سکتے ہیں۔

آنکھوں، کان اور جسم پر نمایاں کالے دھبے لیے ریچھ کے قبیلے سے تعلق رکھنے والا پانڈا چین کی پہچان اور تانگ خاندان کے دور (618-907 ) سے سفارتی تعلقات کی علامت ہے اور اس سے جڑی سفارت کاری باقاعدہ ’پانڈا ڈپلومیسی‘ کہلاتی ہے۔

صحافی برِن ہالینڈ لکھتی ہیں کہ خیال کیا جاتا ہے کہ ’پانڈا ڈپلومیسی‘ ساتویں صدی میں تانگ خاندان کے اوائل میں شروع ہوئی تھی جب ملکہ وو زیتان نے سیاہ اور سفید ریچھوں کا ایک جوڑا (خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جائنٹ پانڈا کا جوڑا تھا) جاپان بھیجا تھا۔‘

پانڈا کو انیسویں صدی تک صرف چین ہی میں جانا جاتا تھا۔

1869 میں ایک مسیحی مبلغ کو ایک مقامی چینی نے پانڈا کی کھال تحفے میں دی تو یورپ کو پہلی بار اس جانور کا علم ہو۔ سنہ 1916میں ایک جرمن ماہر حیوانات ہیوگووی گولڈ نے پانڈا پر تحقیق کی۔

پانڈا کے ساتھ دنیا کے پیار کی ابتدا سنہ 1936 میں ہوئی جب پانڈا کا ایک بچہ امریکا پہنچا۔

برِن ہالینڈ کے مطابق ’جدید تاریخ میں سفارتی تحائف کے طور پر پانڈے بھیجنے کی چینی پالیسی پانچ سال بعد یعنی 1941 میں بحال ہوئی۔‘

’چین جاپان کے محاصرے میں تھا، امریکا چین میں کومینتانگ (قوم پرست حکومت) کو امداد بھیج رہا تھا۔ چین اور جاپان کے مابین اس جنگ میں واشنگٹن کی مدد کے لیے شکریہ کے اظہار میں تب کومینتانگ کے آنجہانی رہنما چیانگ کائی شیک کی اہلیہ سونگ می لنگ (مادام چیانگ ) نے ’مزاحیہ سیاہ اور سفید پیارے پانڈوں کا ایک موٹا جوڑا‘ امریکا کو پیش کیا۔

پین ڈا اور پین ڈی نام کے ان پانڈوں کو برونکس کے چڑیا گھر میں رکھا گیا۔

چین، جاپان، پانڈا ڈپلومیسی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تاریخ دان لیوشیاو چن لکھتی ہیں کہ امریکا پہنچنے والے یہ پہلے پانڈے نہیں تھے۔ برونکس کے چڑیا گھر کے پاس دوسرے ذرائع سے حاصل کیا گیا پانڈوں کا ایک جوڑا بھی موجود تھا۔

’لیکن یہ پہلا موقع تھا جب جمہوریہ چین کی حکومت نے باضابطہ کسی غیر ملک کو پانڈے تحفے میں دیے۔ پانڈوں کو پرجوش امریکی عوام نے خوش آمدید کہا اور امریکی رائے عامہ کو جیتنے میں چین کی جاری کوششوں کو فروغ ملا۔‘

کیتھلین بکنگھم، جوناتھن ڈیوڈ اور پال جیپسن کی تحقیق ہے کہ چین نے سنہ 1949 میں عوامی جمہوریہ بننے کے بعد 1950 کی دہائی میں پانڈا ڈپلومیسی کو زیادہ نمایاں طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔

پانڈا صرف سوشلسٹ ملکوں کے لیے

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

شیاو چن کے مطابق عوامی جمہوریہ کے قیام کے بعد پانڈا ڈپلومیسی نے بائیں جانب ایک تیز موڑ لیا۔

’ایک طرف جھکاؤ‘ کی اپنی سفارتی حکمت عملی کے تحت، نئی حکومت پانڈا کو دوستی کی علامت کے طور پر اپنے حلیف سوشلسٹ ممالک کو بھیجنے لگی۔ کسی بھی سرمایہ دارانہ حریف ملک کو انکار کر دیا جاتا۔

1950 کی دہائی میں چیئرمین ماؤ زے تنگ ’پانڈا ڈپلومیسی‘ میں مصروف رہے اور چین کے کمیونسٹ اتحادیوں (جیسے شمالی کوریا اور سوویت یونین) کو بطور تحفہ یہ جانور بھیجتے رہے۔

پانڈوں کو پکڑنا آسان نہیں۔ بعض اوقات جانوروں کے ماہرین اور مقامی دیہاتی جنوب مغربی صوبے سیچوان کے پہاڑی سلسلوں میں کئی ماہ تک پیچھا کرتے اور کوئی نتیجہ نہ نکلتا۔

1957 میں بیجنگ چڑیا گھر میں صرف تین نوجوان پانڈے تھے، جو ایک سال پہلے سیچوان سے پکڑے گئے تھے۔

سوویت یونین کے سربراہ کلیمنٹ ووروشیلوف کے سنہ 1957 میں چین کے سرکاری دورے کے موقع پر ان میں سے ایک جوڑے، پِنگ پِنگ اور کی کی کو سوویت یونین کو قومی تحفے کے طور پر پیش کیا گیا۔

شیاؤ چن لکھتی ہیں کہ ایک سال بعد سوویت یونین نے چین کو یہ بتاتے ہوئے کہ تحفے میں دیے گئے دونوں پانڈا نر تھے، اس سے کہا کہ وہ ان میں سے ایک کی جگہ مادہ پانڈا دے تاکہ ان کی اولاد ہو۔

’اس وقت ماہرین بھی پانڈا کی اناٹومی کو بمشکل سمجھتے تھے۔ چین نے اپنے اتحادی کی بات مان لی۔ 1958 میں، سوویت یونین نے ’کی کی‘ کو واپس بھیج دیا اور اس کی جگہ ایک اور پانڈا ’انان‘ بھیجا گیا۔ یہ تبادلہ بھی بے سود ثابت ہوا۔ بعد میں قریب سے معائنہ کرنے پر انان نر نکلا اور کی کی مادہ۔

’سوویت یونین کے علاوہ 1950 اور 60 کی دہائیوں میں دوسرا ملک شمالی کوریا تھا جسے چین نے پانڈا تحفے میں دیے۔ بھیجے گئے پانچ پانڈے اپنے میزبانوں کی ناقص پرورش کی وجہ سے یا تو مرگئے یا لاپتا ہو گئے۔‘

’اس دوران پانڈا مغربی ممالک کی دسترس سے باہر رہا۔ 1949 کے بعد برطانیہ، امریکا اور مغربی جرمنی سبھی نے چین کو خط لکھے کہ ایک آدھ پانڈا انھیں بھی مل جائے، چاہے قیمت دے کر، کسی اور جانورکے ساتھ تبادلے میں یا یہاں تک کہ انھیں خود پکڑنے کا موقع دے کر۔‘

شیاؤ چن کی تحقیق ہے کہ ان میں سے زیادہ تر تجاویز سیاسی بنیادوں پر مسترد کر دی گئیں۔ کچھ اس لیے ناکام ہوئیں کیونکہ چین کے پاس دینے کے لیے کافی پانڈے نہیں تھے۔ اس کے باوجود مغربی ممالک کے ’پانڈا بخار‘ نے انھیں چین کی سفارتی رکاوٹوں کو دور کرنے کے طریقے ڈھونڈنے پر مجبور کیا۔

’ان کی سب سے کامیاب کوشش سنہ 1958 میں ہوئی۔ شکاگو کے بروک فیلڈ چڑیا گھر نے آسٹریا کے جانوروں کے تاجر ہینی ڈیمر کو چین سے پانڈا خریدنے یا اس سے تبادلہ کرنے کا کہا۔ بیجنگ چڑیا گھر کے ساتھ بات چیت کے بعد ڈیمر نے یہ سودا کیا: ایک پانڈا کے بدلے میں تین زرافے، دو گینڈے، دو دریائی گھوڑے اور دو زیبرے۔ انھیں جو پانڈا ملا وہ وہی تھا جسے سوویت یونین نے نر قرار دے کر واپس بھیجا تھا مگر وہ بعد کی جانچ میں مادہ نکلی۔‘

’مادہ ثابت ہونے پر بیجنگ چڑیا گھر نے اس کا نام بدل کر ’چی چی‘ رکھ دیا لیکن چی چی کی امریکا آمد کا منصوبہ فوراً ہی تلپٹ ہو مگیا۔ امریکی محکمہ تجارت کے قانون کی وجہ سے پانڈا کے امریکا میں داخلے کو اس کے ’کمیونسٹ پس منظر‘ کی بنیاد پر روک دیا گیا۔ ڈیمر چی چی کو یورپ کے دورے پر لے گئے۔ یہاں تک کہ لندن کے چڑیا گھر نے اسے 12,000 پاؤنڈ (آج کی رقم میں تقریباً 390,000 ڈالر) میں گود لینے پر رضامندی ظاہر کی۔

پانڈا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مادہ ثابت ہونے پر بیجنگ چڑیا گھر نے ’کی کی‘ کا نام بدل کر ’چی چی‘ رکھ دیا

پانڈوں کی ’ڈیٹ‘ پر اتفاق

سنہ 1961 وہ ہی سال تھا جب پانڈا کے لوگو کے ساتھ ماحولیات کے تحفظ کے لیے کوشاں عالمی تنظیم ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) نے سوئٹزرلینڈ سے اپنے کام کی ابتدا کی۔

چی چی کی آمد پر پورا برطانیہ مسحور تھا لیکن ساتھ ہی یہ سوال اٹھا کہ چی چی کے لیے موزوں ساتھی کہاں سے مل سکتا ہے۔ چین اور شمالی کوریا سے تو ملنا ناممکن تھا، سو دنیا میں ایک ہی ملک ایسا تھا جس سے رجوع کیا جا سکتا تھا اور وہ تھا سوویت یونین۔

پِنگ پِنگ 1961 میں بیماری سے مر چکا تھا لیکن انان ماسکو میں زندہ اور تندرست تھا۔ ڈیڑھ سال کی اعلیٰ سطحی بات چیت کے بعد برطانیہ اور سوویت یونین نے بالآخر اپنے اپنے پانڈوں کی ’ڈیٹ‘ پر اتفاق کیا اور مارچ 1966 میں چی چی کو نجی جیٹ میں سوویت دارالحکومت لے جایا گیا۔

وہاں لندن اور ماسکو کے چڑیا گھر کے جانوروں کے ڈاکٹروں اور اہلکاروں اور ریموٹ کنٹرول ٹیلی ویژن کیمروں کی نگرانی میں نو سالہ چی چی نے اپنے منگیتر سے ملاقات کی۔

مگر پہلی نظر میں محبت تو کیا ہوتی، یہ جوڑا تو فوراً ایک دوسرے سے لڑنے کو آ گیا۔ دو سال بعد دوسری کوشش کی گئی، اس بار لندن میں لیکن نو ماہ قریب قریب رکھنے کے باوجود دونوں کو ایک دوسرے کے قریب نہ لایا جا سکا۔

جیسے جیسے چی چی سے اولاد کے امکانات کم ہوتے گئے، مغرب پریشانی میں مبتلا ہوتا گیا۔

مگر پھر امریکی صدر رچرڈ نکسن نے فروری 1972 میں چین کے اپنے تاریخی دورے میں خواہش کا اظہار کیا کہ چین امریکی عوام کو پانڈوں کا ایک جوڑا تحفے میں دے۔ ماؤ زے تنگ نے وعدہ کر لیا۔ بدلے میں نکسن نے چین کو دو کستوری بیل تحفے میں دیے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی برف پگھلانے کے جذبے کے تحت چینی وزیر اعظم ژو این لائی نے اتفاق کیا۔

یہ بھی پڑھیے

چند ماہ بعد لِنگ لِنگ اور سِنگ سِنگ نجی طیارے کے ذریعے امریکا پہنچے۔ سنہ 1953 کے بعد سے امریکی سر زمین پر قدم رکھنے والے یہ پہلے پانڈے تھے۔ آٹھ ہزار سے زائد افراد نے تیز بارش میں ان کا استقبال کیا۔ پہلے مہینے میں 10 لاکھ لوگ انھیں دیکھنے آئے۔

اس سے برطانوی وزیراعظم ایڈورڈ ہیتھ کو اپنے 1974 کے دورہ چین کے دوران میں پانڈا مانگنے کی ترغیب ملی۔چند ہفتوں بعد دو پانڈے لندن کے چڑیا گھر پہنچ چکے تھے۔

یہ پانڈا ڈپلومیسی کے عروج کے دور کا آغازتھا۔ اسی سال کے آخر میں چین اور جاپان کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے موقع پر دو پانڈے جاپان کو تحفے میں دیے گئے۔ اس جوڑے نے 1970 کی دہائی میں لاکھوں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور جب 1979 میں مادہ پانڈے کا انتقال ہوا تو ہزاروں جاپانیوں نے تعظیم کی۔

1982 تک چین دنیا بھر میں تقریباً 20 دیو قامت پانڈے عطیہ کر چکا تھا۔ ان اقدامات نے چین کے بین الاقوامی امیج کو بہت بہتر کیا لیکن بین الاقوامی ناقدین نے استدلال کیا کہ یہ حکمت عملی معدومی کے شکار جانوروں کی بین الاقوامی تجارت کے 1975 کے کنوینشن کے خلاف ہے۔

یہ رد عمل چائنا پیپلز براڈکاسٹنگ اسٹیشن کی تیار کردہ نومبر 1979 کی سیریز کے بعد بڑھتا گیا، جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ چین اپنے پانڈوں کو کس طرح پکڑ رہا ہے۔

چین پانڈا ڈپلومیسی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پانڈے صرف کرائے پر

بڑھتی ہوئی تنقید کے پیشِ نظر چینی حکومت نے 1982 میں اعلان کیا کہ وہ بیرونی ممالک کو پانڈے دینا بند کر دے گی۔

1984 کے بعد سے آپ دنیا بھر کے چڑیا گھروں میں جو پانڈے نظر آتے ہیں وہ زیادہ تر کرائے پر لیے گئے ہیں۔

برِن ہالینڈ کے مطابق پانڈوں کو صرف 10 سال کے قرض پر دوسرے ممالک کو بھیجا جاتا ہے۔ اس کے لیے ایک معیاری سالانہ فیس ہوتی ہے (امریکا کے لیے یہ دس لاکھ ڈالر تھی)۔ قرض لیے گئے پانڈوں کے بچے کا ’بے بی ٹیکس‘ ادا کرنا ہوتا ہے۔ چین سے باہرپیدا ہونے والے تمام پانڈا بچے چینی شہری ہوتے ہیں۔ انھیں دو سے چار سال کی عمر میں چین واپس بھیجا جانا ضروری ہے۔

پانڈا رکھنا بہت مہنگا ہے۔ پانڈا عام طور پر روزانہ تقریباً 40 کلو تازہ بانس کھاتا ہے۔ سنہ 2011 میں کلیئر کارسویل کی خبر تھی کہ ایڈنبرا چڑیا گھر اپنے دو پانڈوں کی خوراک پر ہر سال ایک لاکھ سات ہزار ڈالر خرچ کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے چڑیا گھر نے بانس کے عطیات کے لیے اپیل کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی باغبانوں کو بانس اگانے کی ترغیب دی۔

راکیل وارڈ نے لکھا ہے کہ کووِڈ وبا کے دوران تازہ بانس کی مسلسل اور مناسب فراہمی میں دشواری کی وجہ سے کیلگری چڑیا گھر نے اپنے پانڈا کے جوڑے کو مقررہ وقت سے پہلے چین کو واپس بھجوانا مناسب جانا۔

اگر کوئی پانڈا قرض کے دوران مر جاتا ہے تو اس کی لاش چین کو دی جاتی ہے اور ساتھ پانچ لاکھ امریکی ڈالر جرمانہ بھی دینا ہوتا ہے۔

امریکی چڑیا گھروں کو قرض دینے کے عمل سے متعلق سنہ 1998 میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مقدمے کے بعد اب نصف فیس جنگلی پانڈا کے تحفظ کے لیے مختص کی جاتی ہے۔

جنوری 2006 میں امریکی نائب وزیر خارجہ رابرٹ زوئلک نے سیچوان کے دورے کے دوران پانچ ماہ کے پانڈا کے بچے کو گلے لگاتے ہوئے تصویر کھنچوائی۔ اس تصویر کو چینی میڈیا نے بڑے پیمانے پر نشر کیا اور اسے چین اور امریکا کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے زوئیلک کی حمایت سے تعبیر کیا گیا۔

سنہ 2008 میں سیچوان میں ایک تباہ کن زلزلہ آیا جس سے چین کے جنگلی پانڈا کی 67 فیصد رہائش گاہیں تباہ ہو گئیں۔ اب چین کو اپنے تمام 60 زندہ پانڈوں کے لیے گھر کی ضرورت تھی۔ چین نے کہا کہ وہ پانڈا کو صرف افزائش نسل اور حیاتیاتی تحقیق کے لیے دوسرے ملکوں کوبھیجے گا۔

چین، پانڈا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ناراضی کا اظہار پانڈا کے ذریعے

چین نے بعض ممالک سے اپنی ناراضی ظاہر کرنے کے لیے بھی پانڈوں کو استعمال کیا۔

چین نے امریکا کو خبردار کیا کہ وہ دلائی لامہ کو تسلیم نہ کرے۔ صدر اوباما اس کے خلاف چلے گئے اور اس کے نتیجے میں چین نے تائی شان نامی پانڈے کو امریکا سے واپس لینے کا فیصلہ کیا۔

اسی طرح 2014 میں ایک پرواز لاپتا ہوئی ۔اس میں تقریباً 150 چینی شہری سوار تھے۔ چین اس بات سے ناراض تھا کہ ملائیشیا نے تحقیقات غلط طریقے سے کی۔ چین نے ناراضی کے اظہار کے لیے کوالالمپور چڑیا گھر کو پانڈوں کا ایک جوڑا دینا ایک مہینے کے لیے موخر کر دیا۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق دیوہیکل پانڈے قید میں 30 سال تک زندہ رہ سکتے ہیں جبکہ جنگل میں ان کی متوقع عمر 15 سے 20 سال تک ہوتی ہے لیکن وہ اپنے کم جنسی میلان کے لیے مشہور ہیں اور محققین کو ان میں چڑیا گھر میں رہتے ہوئے حمل کی کوشش کے کامیاب ہونے میں بہت سال لگے۔

سنہ 2020 میں ’چھوٹا معجزہ‘ نامی پانڈا مصنوعی حمل کے ذریعے چین سے باہر پیدا ہونے والا پہلا پانڈا بنا۔

18 ممالک میں پانڈا سفیر

اب پانڈا اتنے کم نہیں، جتنے پہلے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق آج جنگل میں 19 ہزار پانڈے اور تقریباً چھ سو چڑیا گھروں اور افزائش کے مراکز میں ہیں۔ اس وقت 18 ممالک میں کم از کم 65 دیوہیکل پانڈا مقیم ہیں۔ اس فہرست میں جاپان نو پانڈا کے ساتھ سرفہرست ہے، اس کے بعد امریکا ہے جس کے پاس سات پانڈا ہیں۔

ستمبر 2016 میں جنگلی حیات کے تحفظ کی تنظیم آئی یو سی این نے انھیں ’معدومییت سے دوچار‘ کے زمرے سے نکال کر ’خطرے سے دوچار‘ کے زمرے میں ڈال دیا۔

چین اپنی ’پانڈا ڈپلومیسی‘ چھپاتا نہیں۔ چین کا سرکاری میڈیا چین کی نرم طاقت کی تشکیل میں پانڈا کو ’صدر شی کا سب سے طاقتور ہتھیار‘ قرار دیتا ہے۔

امریکا میں سب سے طویل عرصہ اپریل 2013 سے جون 2021 تک تعینات رہنے والے چینی سفیر کوئی تیان کائی نے واشنگٹن پوسٹ میں سنہ 2013 میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’واشنگٹن میں دراصل دو چینی سفیر ہیں: میں اور نیشنل چڑیا گھر میں پانڈا کا بچہ۔‘

قطر نے بھی پانڈوں کے شایانِ شان ایک شاندار ایئرکنڈیشنڈ پویلین یوں ہی تو نہیں بنایا ۔آخر کو چین کے سفیر ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ