’چین میں رپورٹنگ کرنے کی تلخ حقیقت، مجھے اس پاداش میں ملک بدر ہی کر دیا گیا‘
- جون سدورتھ
- بی بی سی نیوز
آخر میں میرے ساتھ جس طرح چین میں ہوا یہ بات اس ملک میں صحافت سے متعلق تلخ حقیقت کو آشکارا کرتی ہے۔
جیسے ہی میری فیملی ایئرپورٹ کی طرف تیزی سے بڑھی تو اس وقت ہمارے پاس اپنا سامان بھی جمع کرنے کا مناسب وقت دستیاب نہیں تھا۔ ہمارے گھر کے باہر سے سادہ کپڑوں میں اہلکار ہماری نگرانی کر رہے تھے اور بعد میں ان پولیس اہلکاروں نے ایئرپورٹ تک ہمارا پیچھا کیا اور ایئرپورٹ میں داخلے تک ہمارے پیچھے رہے۔
یہ بھی پڑھیے
اگرچہ مجھے جس طرح کے خطرات کا سامنا تھا وہ بہت واضح تھے مگر چین کی پروپیگنڈہ لابی بالکل دوسری تصویر پیش کر رہی تھی اور اس بات کو ماننے سے سرے سے انکاری تھی کہ مجھے کسی قسم کا کوئی خطرہ بھی درپیش تھا۔
چین کی وزارت خارجہ نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ اس بات سے آگاہ نہیں ہیں کہ جون سدورتھ کو چین میں کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کے کنٹرول میں شائع ہونے والے اخبار گلوبل ٹائمز میں صرف اس حد تک بات ضرور کی گئی کہ صحافی کی بدنام کرنے والی صحافت کی وجہ سے انھیں سنکیانگ میں سوائے چند لوگوں کی طرف سے انفرادی حیثیت سے قانونی دعؤوں کے کوئی اور چیلنج درپیش نہیں تھا۔
چین میں میڈیا کی آزادی کی طرح جو کمیونسٹ پارٹی کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتا ہے، ایسے سرکاری سطح پر دیے جانے والے بیانات ملک کے عدالتی نظام کی قلعی بھی کھول دیتے ہیں۔ وہ آزاد عدلیہ کے مغربی تصور کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے ہیں اور اسے سراسر ایک غلط تاثر سے جوڑتے ہیں۔
چین کی وزارت خارجہ نے آزادی صحافت پر ایسے وار جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ جمعرات کو ہونے والی بریفنگ کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں جس میں انھوں نے بی بی سی کو جعلی خبریں چلانے والا چینل قرار دیا۔
انھوں نے بریفنگ میں ہمارے کار بنانے والی ایک کمپنی واکس ویگن کے ساتھ حالیہ انٹرویو کو دکھایا جس میں وہ سنکیانگ میں کار پلانٹ چلانے سے متعلق اپنے فیصلے پر بات کرتے ہیں۔ جس پر وہ یہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی رپورٹنگ چینی شہریوں میں غم و غصہ پیدا کر دیتی ہیں۔
یقیناً یہ ایک بے بنیاد دعویٰ ہے کیونکہ چین میں طویل عرصے سے ہم پر عائد کی جانے والی پابندیوں کی وجہ سے پہلے ہی بہت سے لوگ ہماری رپورٹنگ دیکھ یا پڑھ ہی نہیں سکتے ہیں۔
حالیہ چند برسوں میں جس طرح صحافیوں کو چین سے بے دخل کیا گیا اور ان سے جو سلوک روا رکھا گیا ہے میں اس سلسلے کی ایک تازہ مثال ہوں۔
یہ اس بڑی جنگ کا ایک حصہ ہے جو چین نئے خیالات اور اطلاعات کے خلاف دنیا بھر پر اسے مسلط کرنا چاہتا ہے۔
میڈیا میدان جنگ بنتا جا رہا ہے
امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے اپنی ایک تقریر میں چین پر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کو تسلیم کرنے سے متعلق زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ اکنامک فریڈیم، لبرٹی کی عادت ڈالتی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ لبرٹی کی یہ عادت جمہوریت سے امید وابستہ کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔
جب میں پہلی بار میں سنہ 2012 میں چین میں کام کرنے کی غرض سے آیا تو تو اس طرح کے مفروضے، تجزیے سننے کو ملے کہ جیسے جیسے چین امیر ہوتا جائے گا تو یہاں آزادیاں بڑھتی جائیں گیں۔
میرے اس سال کے ساتھ یہ محض ایک اتفاق بھی جڑا ہوا ہے کہ اس برس چین کے موجودہ صدر شی چن پنگ کو کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری کا ایک بہت مضبوط عہدہ مل گیا، جس کے بعد ملک کے منظر نامے میں کئی تبدیلیاں ظہور پذیر ہونی تھیں جن کی پیشنگوئی اس وقت نہیں کی جاسکتی تھی۔
چین کے صدر نے جب سے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے انھوں نے معاشرے پر اپنا اثر و رسوخ مضبوط کرنا شروع کر دیا۔
عالمی تجارت کے طریقہ کار میں تبدیلی نے بھی چین کو بہت بدلا ہے۔ تاہم جمہوریت سے جو امیدیں وابستہ کی جا سکتی تھیں وہ محض امیدیں ہی رہیں اور عملاً نظام مزید جکڑ بندیوں کی نظر ہو گیا۔ صدر شی نے پہلے سے ہی چین کے قدامت پسند نظام کو ہر شعبے پر اپنا کنٹرول مزید مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا۔
اب میڈیا کا میدان ہی ایسا رہ گیا جو اب فیصلہ کن میدان جنگ کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔
اور جیسا کہ بی بی سی کے تجربے سے ظاہر ہوتا ہے جو بھی غیر ملکی صحافی سنکیانگ کی صورتحال پر سچ سامنے لے کر آتا ہے، چین کے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے سے متعلق کوششوں پر سوالات اٹھاتا ہے اور اس وائرس کی ابتدا یا پھر وہ ہانگ کانگ میں اس کے مخالفین کی آواز کو سامنے لاتا ہے تو پھر سمجھ لے کہ اس کی فیملی پر مصائب کے پہاڑ توڑ دیے جائیں گے۔
،تصویر کا ذریعہTwitter
جمہوری بحث کی حوصلہ شکنی کرنا
جیسا کہ میری ملک بدری کے بعد بھی میرے متعلق چین کا پروپیگنڈہ جاری ہے تو یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ غیر ملکی سوشل میڈیا نیٹ ورکس کو بھی اس پیغام کو پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
مشکل تو یہ ہے کہ ایک طرف چین میں غیر ملکی صحافیوں کے لیے زمین تنگ کی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف کمیونسٹ پارٹی اپنی میڈیا کے بارے حکمت عملی پر بیرون ملک پیسہ خرچ کر رہی ہے۔ چین آزاد میڈیا تک باآسانی رسائی کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔
آسٹریلیا کے سٹریٹجک پالیسی انسٹیٹیوٹ کے انٹرنیشنل پالیسی سینٹر کے محققین کا کہنا ہے کہ چین کے جارح مزاج سفارتکار غصے والے ٹویٹس کرتے ہیں جس میں وہ غیر ملکی میڈیا کی طرف سے کی جانے والی رپورٹنگ کی خبر لیتے ہیں جبکہ وہ ایک سوچے سمجھے پلان اور حکمت عملی کے تحت اپنے شہریوں کو ان غیر ملکی پلیٹ فارمز تک رسائی نہیں دیتے۔
چین کے سرکاری میڈیا کے پروپیگنڈہ کرنے والے عناصر بیرون ملک بغیر کسی روک ٹوک کے اپنا مواد شائع کروا لیتے ہیں جبکہ اپنے ملک میں بڑے استعبدادی حربوں کے زریعے چین میں آزادانہ رپورٹنگ کے رستے مسدود کر رہا ہے۔
چین غیر ملکی چینلز اور ویب سائٹس پر پابندیاں عائد کرتا ہے اور غیر ملکی صحافیوں کو چین کے اپنے بنائے ہوئے سوشل میڈیا نیٹ ورکس پر بلاک کر دیتا ہے۔
اس تناظر میں میری ملک بدری چین کی طرف سے اس بڑے پلان کا حصہ ہے جس کے تحت آئیڈیاز پر بھی مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہے۔
یہ حقائق پر مبنی اور عوامی مفاد میں معلومات کی رسائی میں بڑی رکاوٹ ہے۔
اس طرح معلومات تک رسائی میں رکاوٹیں ہمیں یہ جاننے کا بھی موقع نہیں دیتی ہیں کہ چین کے اندر ہو کیا رہا ہے۔ چین اس وقت اداروں کو اپنے مقاصد کے لیے اس طرح استعمال کر رہا ہے کہ ہر طرف جمہوری بحث کا گلا گھونٹ رہا ہے۔
سچ تک کا سفر
بہت سے سوالات کے آسان جوابات نہیں ہیں۔ اگرچہ سابق امریکی صدر جارج بش کی پیشنگوئی بھی سچ ثابت نہ ہو سکی مگر اب بھی بہتری کی کچھ امید باقی ہے۔
سنکیانگ میں کیا ہو رہا ہے اس متعلق حالیہ کچھ برسوں میں جو معلومات سامنے آئی ہیں وہ چین کی اپنی دستاویزات اور پروپیگنڈہ رپورٹس سے ملی ہیں اگرچہ چین ایسی خبروں کو جعلی قرار دیتا ہے۔
بڑے پیمانے پر چلائے جانے والے استبدادی نظام میں ایک جدید، ڈیجیٹل سپر پاور اگر کوئی مدد نہیں کر سکتی تو وہ آن لائن ایسے شواہد ضرور چھوڑ دیتی ہے۔۔اور ایسے میں بہتر صحافت کے اصول کے تحت سچ کو سامنے لانے کی کوششیں دور دراز سے بھی جاری رہیں گی۔
اب میں بھی ایسے صحافیوں کی صف میں شامل ہو گیا ہوں جنھیں ایشیا اور دیگر شہروں اور خطوں سے چین سے متعلق خبریں دینے کا کہا جاتا ہے اور ایسی صحافیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ابھی بھی چین میں دیگر ممالک کے ایسے بہادر اور پرعزم صحافی موجود ہیں جو سچ سامنے لانے کا جذبہ رکھتے ہیں۔
اور تمام تر پابندیوں کے باوجود بھی ایسے چینی شہری موجود ہیں جو تمام خطرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہیں بھی صحافت جیسا اہم فریضہ انجام دینے کا رستہ تلاش کر ہی لیتے ہیں۔
وہ اپنے ملک کی خبریں اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
ووہان میں لاک ڈاؤن کے ابتدائی دنوں کی خبریں سٹیزن جرنلزم کے زریعے ہی باہر تک پہنچ سکی ہیں جو ابھی اپنی اس بہادری کی قیمت بھی چکا رہے ہیں۔
امید واثق یہی ہے کہ میں بیجنگ ائیرپورٹ کے الوداعی ہال میں سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں کو آخری بار چھوڑ کر آیا ہوں۔
آئیڈیاز کے لیے نئی عالمی جنگ میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چائیے کہ یہ چین کے ہی شہری ہیں جنھیں اب بھی سچ بتانے کی پاداش میں سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔
Comments are closed.