انھوں نے مزید کہا کہ ’مذاکرات کی سب سے اہم اور نمایاں بات غزہ کی جنگ کے بعد کی حکومت کے لیے عبوری قومی مصالحتی حکومت کے قیام پر اتفاق رائے ہے۔‘اعلامیے میں فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت، تقسیم کے خاتمے کے لیے چین کی مخلصانہ کوششوں کو سراہا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام علاقائی اور بین الاقوامی شرکت کے ساتھ ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جانا چاہئے۔اعلامیے میں مندرجہ ذیل نکات بھی شامل تھے:
- اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق یروشلم کے دارالحکومت کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام۔
- غرب اردن، یروشلم اور غزہ سمیت فلسطین کی علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنا۔
- تمام فلسطینی گروہوں کے اتفاق رائے اور موجودہ بنیادی قانون کے مطابق ایک عبوری قومی مصالحتی حکومت کی تشکیل۔
- غزہ کی تعمیرِ نو اور منظور شدہ انتخابی قانون کے مطابق جلد از جلد عام انتخابات کی تیاری۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ منظور شدہ انتخابی قانون کے مطابق ایک نئی قومی کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور مشترکہ سیاسی فیصلے کرنے کے لیے ایک عارضی متحد قیادت تشکیل دی جائے گی۔اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ اعلامیے کی شقوں پر مکمل عمل درآمد کے لیے ایک اجتماعی لائحہ عمل قائم کیا جائے گا جس پر عمل درآمد کے لیے ٹائم ٹیبل ہوگا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ فلسطین کے 14 بڑے گروہوں کے نمائندوں کے علاوہ مصر، الجزائر، سعودی عرب، قطر، اردن، شام، لبنان، روس اور ترکی کے سفیروں اور نمائندوں نے اختتامی تقریب میں شرکت کی۔،تصویر کا ذریعہCGTN/SINA WEIBO
اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری کشیدگی میں چین کیا چاہتا ہے؟
ماضی کے معاہدوں میں ناکامی کے باوجود چین اب بھی اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازعات میں امن قائم کرنے کا خواہاں ہے اور فلسطین میں موجود اہم گروہوں میں اتحاد کو اس نتیجے کی کلید سمجھتا ہے۔ اس سے قبل بیجنگ نے اپریل میں بھی حماس اور فتح کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی تھی۔چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے کہا کہ چین اور فلسطین شراکت دار ہیں اور چین اتحاد اور مصالحت کے لیے تمام متعلقہ فریقوں کے ساتھ کام اور کوششیں جاری رکھے گا۔خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق چینی وزیر خارجہ نے اعلامیے پر دستخط کے بعد کہا کہ مصالحت فلسطینی دھڑوں کا داخلی معاملہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بین الاقوامی برادری کی حمایت کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔انھوں نے غزہ کی جنگ سے نمٹنے کے لئے تین مراحل پر مشتمل منصوبے کا بھی خاکہ پیش کیا: ’دیرپا جنگ بندی کو فروغ دینا، فلسطین پر حکومت کرنے والے فلسطینیوں کے اصول کو برقرار رکھنا اور ریاست فلسطین کو دو ریاستی حل کے حصے کے طور پر تسلیم کرنا اور انھیں اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینا۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesچین کی جانب سے فلسطینی مقاصد کی حمایت چینی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ماؤزے تنگ کے دور تک پھیلی ہوئی ہے، جنھوں نے دنیا بھر میں نام نہاد ’قومی آزادی‘ کی تحریکوں کی حمایت میں فلسطینیوں کو ہتھیار بھیجے تھے۔ یہاں تک کہ ماؤ نے اسرائیل کا موازنہ تائیوان سے کیا جسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔حالیہ تنازعے پر اپنے تبصروں میں چینی حکام اور یہاں تک کہ صدر شی جن پنگ نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ صدر شی جن پنگ نے اپنے اعلیٰ سفارت کاروں کو بھی مذاکرات کے لیے مشرق وسطیٰ بھیجا ہے اور حال ہی میں بیجنگ میں ایک کانفرنس کے لیے عرب رہنماؤں کی میزبانی کی ہے۔یہ تنازع ایک ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جب چین بین الاقوامی سیاست میں براہ راست کردار ادا کرنے کے عزائم رکھتا ہے اور اس نے خود کو امریکہ کے مقابلے میں دنیا کے لیے ایک بہتر حامی کے طور پر پیش کیا ہے۔ گزشتہ سال اس نے مشرق وسطیٰ کے حریف ایران اور سعودی عرب کے درمیان 2016 کے بعد پہلی بار تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔
- کیا سعودی عرب اب امریکہ کے بجائے چین جیسے نئے اتحادیوں کی تلاش میں ہے؟
7 دسمبر 2022 - اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسیاں موساد اور شاباک حماس کے آپریشن ’طوفان الاقصیٰ‘ کو روکنے میں کیسے ناکام رہیں؟8 اکتوبر 2023
- یوم کپور: عرب ممالک کا وہ حملہ جس نے ’ناقابلِ تسخیر‘ اسرائیل کی سالمیت کو خطرے میں ڈالا6 اکتوبر 2023
اپنی حالیہ تقریر میں چین کے وزیرِ خارجہ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ فلسطین کے مسئلے پر چین کے کوئی ذاتی مفادات نہیں ہیں اور وہ اخلاقیات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور انصاف کی وکالت کرتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’چین عرب اور اسلامی ممالک کی اکثریت کے ساتھ ایک ہی سمت اور مقاصد رکھتا ہے اور چین اس اعلامیے پر عمل درآمد کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ رابطے اور کوآرڈینیشن کو مضبوط بنانے کا خواہاں ہے اور مشرقِ وسطی میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے میں تعمیری کردار ادا کر رہا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
حماس اسرائیل جنگ سے متعلق چینی میڈیا کے کچھ اہم بیانیے
چینی میڈیا میں جہاں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری حالیہ تنازعے کے حوالے سے اہم بیانات سامنے آئے ہیں وہیں اس سب کے دوران واشنگٹن کے کردار پر چین کی جانب سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔اس تناظر میں گلوبل ٹائمز اخبار نے چینی سفارتی دعووں کو تقویت دی کہ مغرب کی جانب سے بیجنگ پر سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگانا ’منافقانہ‘ ہے جبکہ ’غزہ کے لوگوں کے مسائل پر کوئی نظر نہیں۔‘اس کے بعد اخبار کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا کہ امریکہ اپنے ’ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘ کے ذریعے جنگ سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور اپنی بالادستی برقرار رکھنے کی کوشش میں ہے۔بیجنگ کی جانب سے اسرائیل کے لیے ’یکطرفہ حمایت‘ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا، حالانکہ حالیہ مضامین میں واشنگٹن کے اسرائیل پر محدود کنٹرول اور اس پر قابو پانے میں ناکامی پر بھی تنقید کی گئی ہے۔بیجنگ کی اپنی سفارتی اور ثالثی کی کوششوں کی کوریج کو دیکھتے ہوئے، ایک وسیع موضوع یہ ہے کہ چین کس طرح ’شورش زدہ دنیا‘ میں ’استحکام‘ فراہم کرتا ہے۔یہ اس سال میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں وانگ یی کا اہم پیغام تھا، اور گلوبل ٹائمز میں سال کے آخر میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بھی شامل کیا گیا تھا، جس میں بیجنگ کی جانب سے گزشتہ سال سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کو ’دنیا کے لیے تحفہ‘ قرار دیا گیا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
حماس اور الفتح کے درمیان چین کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کا مستقبل
یہ واضح نہیں ہے کہ بیجنگ میں فلسطینی گروہوں کی ملاقات کا غزہ جنگ کے خاتمے پر کیا اثر پڑے گا۔جنگ کے بعد غزہ پر حکومت کرنے کا معاملہ ان مسائل میں سے ایک تھا جس کی وجہ سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات میں تاخیر ہوئی ہے۔اسرائیل کی جنگی کابینہ کی تحلیل کی وجوہات میں اندرونی اختلافات اور اسرائیل کی جانب سے جنگ کے بعد غزہ کے لیے کوئی مخصوص منصوبہ پیش کرنے میں ناکامی پر تنقید بھی شامل تھی۔بین یامین نتن یاہو نے پہلے ہی اس بات پر زور دیا تھا کہ جنگ کے بعد نہ تو فتح اور نہ ہی حماس کی حکومت ہوگی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’حماس کو ختم کرنے کے بعد، میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ غزہ کبھی بھی اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بنے۔ نہ حماسستان اور نہ فتحستان۔‘بیجنگ اجلاس میں فلسطینی گروہوں کا یہ معاہدہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے دوحہ اور قاہرہ میں بار بار ہونے والے مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔امریکہ، مصر اور قطر ان بالواسطہ مذاکرات کے ثالث تھے جو گزشتہ مہینوں میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے مقصد سے ہوئے تھے۔گزشتہ چند سالوں میں، بیجنگ نے بین الاقوامی سفارت کاری میں زیادہ فعال کردار ادا کیا ہے، بشمول ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی میں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.