چین کی تائیوان کے ’اہم اہداف‘ کو نشانہ بنانے کی فرضی مشق

Chinese aircraft

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

ایک چینی طیارہ تائیوان کے ارد گرد فوجی مشق میں حصہ لیتے ہوئے

  • مصنف, میٹ مرفی اور کرسٹی کونی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

چین نے فوجی مشقوں کے دوسرے دن تائیوان اور اس کے آس پاس کے پانیوں میں اہم اہداف کو بالکل ٹھیک فرضی (سِمیولیٹِڈ) نشانہ بنایا ہے۔

ان مشقوں کو بیجنگ نے خود مختار جزیرے کے لیے ’سخت انتباہ‘ قرار دیا ہے اور یہ مشقیں تائیوان کی صدر کے گزشتہ ہفتے امریکہ کے دورے کے ردعمل میں کی جا رہی ہیں۔

جب چینی فوج نے جزیرے کا فرضی محاصرہ کیا تو امریکہ نے چین پر زور دیا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرے۔

تائیوان کا کہنا ہے کہ کم سے کم 71 چینی طیاروں نے ہفتے کے روز جزیرے کے گرد پروازیں کیں۔

تائیوان نے یہ بھی کہا کہ 45 جنگی طیاروں نے یا تو آبنائے تائیوان کی درمیانی لائن کو عبور کیا، جو تائیوان اور چین کے علاقے کے درمیان غیر سرکاری تقسیم کی لائن ہے، یا تائیوان کے فضائی دفاعی زون کے جنوب مغربی حصے میں پروازیں کیں۔

چین کے نو بحری جہازوں کو بھی دیکھا گیا۔ یہ آپریشن جسے بیجنگ نے ’مشترکہ تلوار‘ کا نام دیا ہے، پیر تک جاری رہے گا۔ تائیوان کے حکام اس کارروائی پر برہم ہیں۔

ہفتے کے روز دارالحکومت تائی پے میں دفاعی حکام نے بیجنگ پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ صدر سائی کے امریکی دورے کو فوجی مشقوں کے لیے بہانہ بنا رہا ہے جس سے خطے میں امن، استحکام اور سلامتی کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

مشقوں کے پہلے دن چین کے ایک بحری جہاز نے تائیوان کے قریب ترین جزیرے پنگتان کے قریب گولہ باری کی۔

تائیوان کی اوشن افیئرز کونسل نے، جو کوسٹ گارڈ منتظم ادارہ ہے، ویڈیو فوٹیج جاری کی ہے جس میں اس کا ایک بحری جہاز چینی جنگی جہاز کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے، البتہ مقام کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔

فوٹیج میں ایک سیلر کو ریڈیو کے ذریعے چینی جہاز سے کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے: ’آپ علاقائی امن، استحکام اور سلامتی کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ براہ مہربانی فوراً پیچھے مڑ جائیں اور چلے جائیں۔ اگر آپ آگے بڑھتے رہے تو ہمیں آپ کو نکالنے کی کارروائی کرنا پڑے گی۔

دیگر فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تائیوان کا ایک جنگی بحری جہاز ڈی ہوا کوسٹ گارڈ کے جہاز کے ساتھ ہے جسے کوسٹ گارڈ کے افسر نے چینی جہاز کے ساتھ ‘تعطل’ قرار دیا ہے۔‘

چینی مشقیں ہفتے کی شام غروب آفتاب تک ختم ہو گئیں جبکہ تائی پے میں دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ لڑاکا طیاروں کی پروازیں اتوار کی صبح دوبارہ شروع ہوئیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کے عہدیداروں نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ صدر سائی کے دورۂ امریکہ سے فائدہ نہ اٹھائے اور تحمل سے کام لینے اور موجودہ صورت حال (سٹیٹس کو) میں کوئی تبدیلی نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ بیجنگ کے اقدامات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنانے اور قومی سلامتی کے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے امریکہ کے پاس کافی وسائل اور صلاحیتیں موجود ہیں۔

امریکہ نے 1979 میں بیجنگ کے حق میں تائی پے کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے، لیکن وہ قانون کے مطابق تائیوان کو اپنے دفاع کے لیے وسائل فراہم کرنے کا پابند ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن متعدد مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ اگر چین نے جزیرے پر حملہ کیا تو امریکہ مداخلت کرے گا لیکن امریکی پیغام میں ابہام پایا جاتا ہے۔

کیلی فورنیا میں بدھ کے روز ہونے والے اجلاس میں سائی نے امریکی ایوان نمائندگان کے سپیکر کیون میک کارتھی کا امریکہ کی غیر متزلزل حمایت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس سے تائیوان کے عوام کو یہ یقین دلانے میں مدد ملی ہے کہ ہم اکیلے نہیں ہیں۔

مسٹر میک کارتھی نے اصل میں تائیوان جانے کا ارادہ کیا تھا، لیکن چین کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کے خدشے کی وجہ سے انھوں نے تائیوانی صدر سے ملاقات کے لیے کیلیفورنیا کا انتخاب کیا۔

BBCUrdu.com بشکریہ