لانگ مارچ فائیو بی: چین کا 21 ٹن وزنی بے قابو خلائی راکٹ زمین پر کب اور کس جگہ گرنے کا امکان ہے؟
لانگ مارچ فائیو بی نامی راکٹ کو چینی قصبے وین چانگ سے 29 اپریل کو لانچ کیا گیا تھا
چین کا ایک بے قابو راکٹ جو زمین کے مدار میں گھوم رہا تھا اب آئندہ آنے والے دنوں میں زمین کی فضا میں داخل ہونے والا ہے اور سائنسدانوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ کہاں گرے گا۔
خیال رہے کہ سنہ 1990 کے بعد سے 10 ٹن سے زیادہ وزنی کسی بھی مشین یا راکٹ کو زمین کے مدار میں دانستہ طور پر نہیں چھوڑا گیا تاکہ وہ بے قابو ہو کر زمین پر گرے۔ مگر اب اگلے چند دنوں میں 21 ٹن وزنی ’لانگ مارچ فائیو بی‘ نامی راکٹ زمین پر گرنے والے سب سے بڑے راکٹس میں سے ایک ہو گا۔
اس راکٹ کی لمبائی 98 فٹ، جبکہ چوڑائی 16 فٹ ہے اور اس کے ذریعے اپریل کے آخر میں چین کے نئے خلائی سٹیشن کو مدار میں لے کر جانے کی تیاریاں کی گئی تھیں۔ اس وقت یہ مدار سے 27 ہزار 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی جانب بڑھ رہا ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار برائے سائنس جوناتھن ایموس کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسے زون کی جانب بڑھ رہا ہے جو خط استوا سے 41 ڈگری شمال اور جنوب کے درمیان ہے۔ شمال میں یہ علاقہ نیویارک، استنبول اور بیجنگ تک جاتا ہے اور جنوب میں ویلنگٹن اور چلی تک۔
انھوں نے کہا کہ ’اگر آپ اس زون یا علاقے سے مزید شمال یا جنوب میں رہتے ہیں تو یہ آپ پر نہیں گر سکتا اور اگر آپ اس زون میں بھی رہتے ہیں اور یہ خط استوا سے قریب ہے، تب بھی اس کا آپ پر گرنے کا امکان بہت کم ہے۔ 70 فیصد زمین پانی سے ڈھکی ہوئی ہے، اس لیے اگر یہ زمین کے ماحول میں آتشیں داخلے کے بعد کچھ بچ جاتا ہے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ پانی میں گر جائے گا۔‘
یہ بھی پڑھیے
اس رپورٹ کے پس منظر میں امریکی وزیرِ دفاع لائڈ آسٹن نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ پینٹاگون چین کے بے قابو راکٹ پر نظر رکھے ہوئے ہے لیکن انھیں امید ہے کہ یہ کسی ایسی جگہ گرے گا جہاں اس سے کسی کو نقصان نہیں ہو گا۔
انھوں نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا کہ ’ہم بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن چین کے راکٹ کو مار گرانے کا فی الحال ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘
تاہم امریکی وزیرِ دفاع آسٹن کا مزید کہنا تھا کہ ’اس وقت ہمیں یہ معلوم نہ ہونا کہ راکٹ کب اور کہاں گرے گا اس بات کی جانب توجہ دلواتا ہے کہ ہم میں سے وہ جو خلا میں کام کرتے ہیں وہ محفوظ اور ذمہ دارانہ انداز اپنائیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں خلا میں موجود کچرے کو صاف کرنے کے حوالے سے حکمتِ عملی بھی وضع کرنی ہو گی۔‘
اس راکٹ میں چین کے تیانہے خلائی سٹیشن کا ماڈیول موجود تھا
مئی 2020 میں جب آخری مرتبہ چین سے لانگ مارچ فائیو بی لانچ کیا گیا تھا تو مغربی افریقہ کے ملک آئیوری کوسٹ پر اس کا ملبہ گرنے کے حوالے سے اطلاعات سامنے آئی تھیں، جن میں ایک 39 فٹ لمبا دھاتی پائپ بھی شامل تھا۔ تاہم کسی کے زخمی ہونے کی اطلاعات نہیں آئی تھیں۔
سائنسدانوں کو امید ہے کہ یہ راکٹ 10 مئی کو گرے گا، اس پیشنگوئی میں غلطی کی گنجائش دو دن ہے، یعنی یہ مقررہ وقت سے دو دن بعد یا پہلے بھی گر سکتا ہے اور سائنسدانوں کو اس کے گرنے سے ایک گھنٹہ پہلے تک یہ معلوم نہیں ہو گا کہ یہ عین کس جگہ گرے گا۔
ایسٹریاگراف نامی ایک نقشہ جو امریکی حکومت کے فنڈ کے ذریعے بنایا گیا ہے خلا میں موجود انسان کے بنائے گئے پرزوں یا مشینوں کو ٹریک کرنے کا کام کرتا ہے۔ اس وقت خلا میں کل 26 ہزار پرزے موجود ہیں۔
یونیورسٹی آف ٹیکساس کی ایرو سپیس انجینیئر پروفیسر موریبا جاہ اس پراجیکٹ پر کام کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’ان کے سائز میں فرق ہوتا ہے، یہ سمارٹ فون سے لے کر سپیس سٹیشن کے حجم کے ہو سکتے ہیں اور شاید 3500 کے قریب سیٹلائٹس ہیں، باقی سب کچرا ہے۔‘
بیسویں صدی کے دوسرے حصے میں جیسے جیسے خلائی مشنز میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ویسے ہی خلا میں موجود کچرے یعنی ناکارہ مشینری یا پرزوں نے فعال سیٹلائٹس کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس وقت خلا میں تقریباً 200 بڑے پرزے ہیں جن میں راکٹ کے ٹکڑے بھی شامل ہیں اور پروفیسر جاہ کے مطابق ’یہ ٹائم بم کی طرح ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’فعال سیٹلائٹس جو ہمیں جگہ، نیویگیشن، ٹائمنگ، مالی لین دین سے منسلک ٹیکنالوجی، ماحولیاتی وارننگز دیتی ہیں وہ کسی بھی وقت ان میں سے کسی بھی پرزے سے ٹکرا کر غیر فعال ہو سکتی ہیں۔ اگر ہم خلا میں موجود ان وسائل کو کھو دیتے ہیں تو اس کا انسانیت پر گہرا اثر ہو گا۔
چینی راکٹ کو بھی ایسٹریا گراف پر ڈھونڈا جا سکتا ہے اور وہاں اس کا نام سی زی فائیو بی ہے۔
یہ زمین کے گرد 90 منٹ میں چکر لگا رہا ہے لیکن کسی بھی گرتے ہوئے راکٹ کی اڑان سے متعلق اندازے لگانے اس لیے مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس حوالے سے مختلف بدلتی چیزوں کا لمحہ بہ لمحہ حساب کرنا پڑتا ہے۔
اس وقت سائنسدان اس کے گرنے کی رفتار پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور انھیں توقع ہے کہ یہ زمین کے ماحول میں جلد داخل ہو جائے گا۔
Comments are closed.