چین کا نیا قانون ’امریکہ اور مغرب کے خلاف جارحانہ خارجہ پالیسی کی علامت‘
- مصنف, کیلی نِگ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
چین نے نئی قانون سازی کر کے صدر شی جن پنگ کے اختیارات میں مزید اضافہ کر دیا ہے تاکہ وہ دنیا بھر میں چینی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھا سکیں۔
یہ قانون ایسی کمپنیوں یا اداروں کو سزا دینے کی بات کرتا ہے جو چینی مفادات کے لیے کسی بھی قسم کے نقصان کا سبب بنتے ہوں۔ تاہم اس قانون میں یہ نہیں بتایا گیا کہ آخر کون سی وہ حدود ہیں جن کو عبور نہیں کیا جاسکتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قانون چین کی جارحانہ سفارتکاری کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ یکم جولائی کو نافذ العمل ہونے کے بعد اس پر کیسے عمل کیا جاتا ہے کیونکہ چین کووڈ کے بعد بیرونی سرمایہ کاری پر کڑی نظر رکھنے میں سنجیدہ دکھائی دیتا ہے۔
پنسلوینیا یونیورسٹی میں قانون اور پولیٹکل سائنس کے پروفیسر جیک دلیلا کا کہنا ہے کہ اس قانون کا زیادہ تر حصہ تو محض بیان بازی کی حد تک ہی ہے جو کہ پہلے سے ہی معلوم ہے۔ تاہم ان کے مطابق یہ امریکہ کے خلاف ایک جارحانہ خارجہ پالیسی اور مضبوط ’پش بیک‘ کی علامت بھی ہے۔
سرکاری اخبار ’دی گلوبل ٹائمز‘ نے اس قانون کو ’مغربی تسلط کے خلاف قانونی ڈھانچے کو تقویت دینے کے لیے ایک اہم قدم‘ قرار دیا۔
کارنیگی چائنہ کے سکالر ڈاکٹر چونگ جا ایان نے کہا کہ یہ قانون سازی بیجنگ کے عزائم ظاہر کرتی ہے کہ وہ اپنے مفادات کو یقینی بنانے کے لیے متحرک انداز میں مزید جبر و دباؤ کا اس طرح سہارا لیا جائے جبکہ تعاون اور معاشی فوائد کے لیے بھی دلچسپی برقرار رہے۔
انڈین تھینک ٹینک تکشاشیلا انسٹی ٹیوشن میں چائنہ سٹڈیز پروگرام کی قیادت کرنے والے منوج کیولرامانی نے کہا کہ چین کے رہنما اقتصادی ترقی، قومی سلامتی اور مفادات کے تحفظ کے درمیان ایک ’فطری تناؤ‘ کا شکار ہیں۔
ان کے مطابق چین کی ’کچھ دو اور کچھ لو‘ کی پالیسی جاری رہنے کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان خاص طور پر حالیہ برسوں میں تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ دونوں سپر پاورز کے درمیان تجارتی پابندیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
چینی حکام نے مغربی ممالک کی کمپنیوں کے خلاف متعدد اقدامات بھی اٹھائے ہیں، جن میں اس سال کئی امریکی کمپنیوں کے مقامی دفاتر پر چھاپے مارنا اور ان دفاتر کو بند کرنے جیسی کارروائیاں بھی شامل ہیں۔
اس قانون کے بارے میں یہی تاثر عام ہے کہ یہ امریکہ کی تجارت اور ٹیکنالوجی پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کا چین کی طرف سے ایک جوابی اقدام ہے۔
گذشتہ مہینے چین نے امریکی ’میموری چپ‘ بنانے والی بڑی کمپنی ’مائیکرون‘ کی تیار کردہ مصنوعات پر پابندی لگا دی تھی۔
ڈاکٹر چونگ کا کہنا ہے کہ نئے خارجہ تعلقات کے قانون کے نتیجے میں چین کے مفادات کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر اس قانون کا اطلاق ہو سکتا ہے مگر اس قانون پر دیگر ممالک کی طرف سے ردعمل بھی آ سکتا ہے۔
ان کے مطابق اب دیگر ممالک چین میں اپنے کاروبار سے متعلق پالیسی پر نظرثانی کر سکتے ہیں۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ’یہ قانون سازی غیر ملکی فرموں کے خلاف چھاپوں اور تحقیقات کے لیے مزید قانونی بنیاد فراہم کرتی ہے جو کہ چین پہلے سے ہی اس روش پر چل رہا ہے۔‘
پھر بھی، قانون اس بات کی ضمانت نہیں دیتا کہ چین یہ سخت اقدامات اٹھائے گا۔
ایلون مسک اور جے پی مورگن کے جیمی ڈیمن سمیت امریکہ کے اعلیٰ کاروباری عہدیداروں نے حالیہ ہفتوں میں چین کا دورہ کیا ہے اور امریکی معیشت میں چین کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون چین کے خارجی تعلقات کو اس کے نظریے کے تناظر میں بیان کرتا ہے جو حیران کن ہے۔
اس نئے قانون میں کہا گیا ہے کہ ’عوامی جمہوریہ چین چینی خصوصیات کے ساتھ اپنے سوشلزم کے نظام کو برقرار رکھنے، اپنی خودمختاری، اتحاد اور علاقائی سالمیت کے تحفظ اور اپنی اقتصادی اور سماجی ترقی کو فروغ دینے کے لیے خارجہ تعلقات رکھتا ہے۔‘
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ چین صدر شی جن پنگ، ماؤ زے تنگ، ڈینگ ژیاؤپنگ اور مارکسزم اور لینن ازم کے سیاسی نظریات کی رہنمائی میں خارجہ تعلقات آگے بڑھاتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ قانون پہلی بار تحریری طور پر اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ یہ ریاست کے بجائے حکمران کمیونسٹ پارٹی ہے جو خارجہ پالیسی ترتیب دیتی ہے، جس سے اقتدار پر شی جن پنگ کی سخت گرفت بھی ظاہر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر جیک دلیلا کے مطابق ’یہ قانون بیرونی تعلقات پر پارٹی قیادت کی برتری واضح کرتا ہے اور یہ اقتدار کی منتقلی کے شی جن پنگ دور کے رجحانات کی نشاندہی کرتا ہے۔ جس میں ریاست سے یہ اختیارات پارٹی کو منتقل ہوتے ہیں اور پھر پارٹی کے اندر شی جن پنگ لامحدود اختیارات کے حامل بن جاتے ہیں۔‘
سرکاری اخبار پیپلز ڈیلی میں جمعرات کو شائع ہونے والے اداریے کے مطابق چین کے اعلیٰ سفارت کار وانگ یی نے اسے ’کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی مرکزی اور متحد قیادت کو خارجہ امور پر مضبوط کرنے کے لیے ایک اہم اقدام‘ قرار دیا۔
منوج کیولرامانی کے مطابق نیا قانون خارجہ پالیسی کے مسائل پر بحث اور اختلاف کو روک سکتا ہے۔
تاہم انھوں نے مزید بتایا کہ اس قانون سازی کے مجموعی مضمرات کے بارے میں کچھ یقین سے کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔
Comments are closed.