چین نے ساجد میر کو عالمی دہشتگرد قرار دینے کی کوشش کو پھر ویٹو کر دیا، انڈیا کا شدید ردعمل

ساجد میر

،تصویر کا ذریعہFBI

انڈیا کو 2008 کے ممبئی حملوں کے لیے مطلوب شدت پسند ساجد میر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی ایک اور کوشش کو چین کی جانب سے ناکام بنائے جانے کے بعد انڈیا نے کہا ہے کہ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کے عالمی ڈھانچے میں کچھ خامیاں ہیں۔

ساجد میر 26 نومبر 2008 کو ممبئی میں ہونے والے سلسلہ وار حملوں کے مرکزی ملزمان میں سے ایک ہیں۔ وہ انڈیا کی ’انتہائی مطلوب افراد‘ کی فہرست میں شامل ہیں اور امریکہ نے ان کے سر پر 50 لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کیا ہوا ہے۔

جون 2022 میں پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے ساجد میر کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے مقدمے میں 15 سال قید کی سزا سنائی تھی اور وہ اس وقت پاکستان کی ایک جیل میں قید ہیں۔ انھیں 21 اپریل 2022 کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا اور 16 مئی 2022 کو انھیں سزا سنانے کے بعد لاہور کی کوٹ لکھپت جیل بھیج دیا گیا تھا۔

امریکہ اور انڈیا نے انھیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ’1267 کمیٹی‘ کے قواعد و ضوابط کے مطابق بین الاقوامی دہشت گرد قرار دینے کے لیے مشترکہ طور پر تجویز پیش کی تھی لیکن چین نے ’ویٹو‘ کی طاقت استعمال کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔ تجویز کی منظوری کے لیے سلامتی کونسل کی پابندیوں کی کمیٹی کے تمام 15 ارکان کا متفق ہونا ضروری ہے۔

اگر یہ تجویز منظور ہو جاتی تو اس کے نتیجے میں ساجد میر کے اثاثے منجمد کیے جا سکتے تھے اور ان کے عالمی سفر پر بھی پابندی لگائی جا سکتی تھی۔

یہ ایک سال کے دوران پانچواں موقع ہے کہ چین نے ایسا قدم اٹھایا ہے اور تازہ ترین اقدام ایسے وقت میں ہوا ہے جب انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی امریکہ کے دورے پر ہیں اور بدھ کو اقوامِ متحدہ کے اجلاس سے خطاب بھی کرنے والے ہیں۔

انڈیا کا ردعمل

ساجد میر

،تصویر کا ذریعہAFP

چین کے اس اقدام پر انڈیا کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر کئی رکن ممالک کے تعاون کے باوجود ایک دہشت گرد کو بلیک لسٹ کرنے کی تجویز منظور نہیں ہوئی تو ’ہمارے پاس یہ ماننے کی معقول وجوہات ہیں کہ عالمی انسداد دہشت گردی کے ڈھانچے میں کچھ خامیاں ہیں۔‘

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اگر ہم جغرافیائی سیاسی مفادات کے لیے ایسے دہشت گردوں کو پکڑ نہیں سکتے جن پر اقوام متحدہ کی طرف سے پابندی عائد کی گئی ہے تو ہمارے پاس دہشت گردی کے اس چیلنج سے مخلصانہ طور پر لڑنے کے لیے حقیقی سیاسی عزم نہیں ہے۔‘

بیان میں انڈیا کی جانب سے اقوام متحدہ کےبارے میں بھی سخت سوالات اٹھائے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ ’احتساب اور شفافیت کے اس دور میں کیا دہشت گرد قرار دینے کی حقیقی تجاویز کو بغیر کوئی وجہ بتائے روکا جا سکتا ہے؟‘

چین کی جانب سے انڈیا کے اس تازہ ترین بیان پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم ستمبر 2022 میں جب چین نے ساجد میر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی قرارداد کو اقوامِ متحدہ میں روکا تھا تو اس وقت بیجنگ میں چین کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماؤ نِنگ نے کہا تھا کہ ’کمیٹی کے پاس دہشت گرد تنظیموں اور افراد کی نامزدگی اور متعلقہ طریقہ کار کے حوالے سے واضح رہنما اصول ہیں اور چین ہمیشہ قوانین اور طریقہ کار کے مطابق تعمیری اور ذمہ دارانہ انداز میں کمیٹی کے کام میں حصہ لیتا ہے۔‘

ساجد میر کون ہیں؟

ساجد میر

،تصویر کا ذریعہFBI

امریکی محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق ساجد میر ایف بی آئی کی انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی شہری ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق، ساجد میر سنہ 2001 سے شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ کے سینیئر رکن رہے۔ امریکی ادارے ایف بی آئی کے مطابق، سنہ 2006 سے سنہ 2011 تک لشکر طیبہ ساجد میر کی نگرانی میں اپنی غیر ملکی شدت پسندی کی کارروائیاں کرتا تھا۔

سنہ 2008 میں لشکرِ طیبہ نے ممبئی میں تین روز تک جاری حملے کے دوران متعدد اہداف بشمول ہوٹلوں کے خلاف مربوط حملوں کا ایک سلسلہ انجام دیا۔ اس حملے کے دوران کیفے، اور ایک ٹرین سٹیشن سمیت مختلف جگہوں پر حملوں میں تقریباً 170 افراد ہلاک ہوئے۔

تین دن کے حملوں کو دوران ہلاک ہونے والوں میں چھ امریکی بھی شامل تھے۔ ساجد میر مبینہ طور پر حملوں کے مرکزی منصوبہ ساز تھے، وہ تیاریوں اور جاسوسی کی ہدایت دیتے تھے اور حملوں کے دوران پاکستان میں مقیم کنٹرولرز میں سے ایک تھے۔

یہ الزام ہے کہ ساجد میر نے سنہ 2008 اور سنہ 2009 کے درمیان ڈنمارک کے ایک اخبار اور اس کے ملازمین کے خلاف انتہا پسندانہ حملہ کیا تھا۔

ممبئی حملوں کے بعد امریکہ نے سنہ 2011 میں ساجد میر کو انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ ان پر 21 اپریل سنہ 2011 کو امریکہ کی ضلعی عدالت، شمالی ضلع الینوئے، شکاگو میں فرد جرم عائد کی گئی اور ان پر غیر ملکی حکومت کی املاک کو نقصان پہنچانے کی سازش کا الزام لگایا گیا تھا۔

ان کے خلاف دہشت گردوں کی مالی مدد، امریکہ سے باہر ایک شہری کے قتل کے لیے مدد اور حوصلہ افزائی اور عوامی مقامات پر بمباری کے جرائم کے تحت 22 اپریل 2011 کو گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا گیا۔

ممبئی حملوں میں ملوث امریکی شدت پسند ڈیوڈ کولمین ہیڈلی نے 2011 میں شکاگو کی عدالت میں اپنے اقبالی بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ 26 نومبر 2008 کی شب ساجد مجید میر ان تین افراد میں سے ایک تھے جنھوں نے مبینہ طور پر 10 مسلح افراد کو کراچی میں لشکر کے ایک محفوظ مقام سے بذریعہ سمندر ممبئی بھیجا۔

بیان کے مطابق وہ فون پر ان سے رابطے میں تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مبینہ طور پر یہ ساجد کی منصوبہ بندی کا حصہ تھا کہ مسلح افراد سے رابطہ رکھا جائے۔

ان کے مطابق ساجد نے بارہا حملہ آوروں کو کہا تھا کہ یہودیوں کے مرکز میں ’خواتین کو قتل کرو۔‘ ہیڈلی کے مطابق مسلح حملہ آور اجمل قصاب کی گرفتاری کے بعد ساجد نے اُن کی رہائی کے لیے اس مرکز کے یہودیوں کو رہا کرنے کی پیشکش بھی کی تھی۔

بیان میں کہا گیا کہ ہیڈلی اور ساجد میر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے سے پہلے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔

ساجد کے بارے میں ہیڈلی نے کہا تھا کہ ’وہ بہت چالاک تھے اور وہ لشکر میں میرے پہلے ہینڈلر تھے۔‘ بیان کے مطابق حملوں کے بعد 2009 میں جب ہیڈلی پاکستان واپس آئے تو ساجد میر نے مسلح افراد کے ساتھ اپنی بات چیت کی آڈیو ٹیپس کے بارے میں بات کی تھی۔

سنہ 2022 میں انڈین اخبار ہندوستان ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں انڈین انٹیلی جنس حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ ساجد میر نے کئی انتہا پسندوں کو تربیت دی اور لشکر کو کم از کم تین براعظموں تک پھیلایا اور آسٹریلیا، امریکہ اور فرانس جیسے ممالک میں دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کیا۔

اخبار نے اپنی رپورٹ میں فرانسیسی بحریہ کے سابق افسر وِلی بریگزٹ سے اداروں کی تفتیش کا بھی حوالہ دیا ہے جو بعد میں دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہو گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بریگزٹ نے انکشاف کیا کہ میر کے افغانستان میں القاعدہ سے بھی رابطے تھے اور لشکر کے سربراہ ذکی الرحمان تک ان کی براہ راست رسائی تھی۔

رپورٹ میں انٹیلی جنس حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ساجد میر نے اپریل سنہ 2005 میں کرکٹ کے مداح کے طور پر انڈیا کا دورہ کیا تھا۔ پھر میر نے ڈیرہ دون میں انڈین ملٹری اکیڈمی اور دلی میں نیشنل ڈیفنس کالج کی جاسوسی بھی کی۔

پاکستان نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی ہے کہ اس نے عسکریت پسندوں کو محفوظ ٹھکانے دیے اور پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے کالعدم تنظیموں کی قیادت کے خلاف قانونی کارروائی کی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ