چین میں وزیر خارجہ کی طرح اب وزیر دفاع بھی منظر عام سے غائب، امریکی سفیر کا سوالیہ ٹویٹ

لی شانگفو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, تیسا وونگ
  • عہدہ, ایشیا ڈیجیٹل رپورٹر

ایک اعلیٰ امریکی سفارت کار نے چین کے وزیر دفاع لی شانگفو کے منظر عام سے غائب ہونے کے بارے میں سوال اٹھایا ہے۔

چین کے وزیر دفاع لی شانگفو دو ہفتوں سے عوام کے سامنے نہیں آئے اور انھوں نے کئی اہم میٹنگز میں شرکت بھی نہیں کی ہے۔ اس سے ان اندازوں کو ہوا مل رہی کہ چین بدعنوانی کے خلاف مستقل اقدام کر رہا ہے۔

یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں انھیں بدعنوانی کے کسی مقدمے میں سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے۔ فی الحال اس حوالے سے چین کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

جاپان میں امریکی سفیر رہم ایمانوئل نے لی شانگفو کی غیبت کے بارے میں قیاس آرائی کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ہے کہ چینی حکومت میں ‘بے روزگاری کی شرح’ بہت زیادہ ہے۔

وزیر دفاع لی سے پہلے بھی کئی اعلیٰ چینی فوجی افسران کو ملازمتوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔

چینی اور امریکی ذرائع کے حوالے سے امریکی اخبار ‘وال اسٹریٹ جرنل’ نے جمعے کو اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ لی کو ان کے عہدے سے ہٹایا جا رہا ہے۔

چند ماہ قبل چین کے وزیر خارجہ چِن گانگ بھی اسی طرح اچانک منظر عام سے غائب ہو گئے تھے۔ بعد ازاں جولائی کے مہینے میں ان کی جگہ ایک اور شخص کو وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

چینی حکومت نے چِن گانگ کے حوالے سے بھی کوئی تبصرہ یا بیان جاری نہیں کیا۔

گذشتہ ہفتے چینی وزیر خارجہ کے ترجمان سے جنرل لی کے بارے میں جب سوال پوچھا گیا تھا تو ترجمان نے کہا تھا کہ انھیں ‘اس صورتحال کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔’

جنرل لی کو آخری بار 29 اگست کو دیکھا گیا تھا۔ اس دن انھوں نے بیجنگ میں افریقی ممالک کے ساتھ منعقدہ سکیورٹی فورم میں شرکت کی تھی۔

تاہم چینی وزرائے خارجہ کا عوام کے سامنے نہ آنا کوئی غیر متوقع یا انوکھا واقعہ نہیں ہے۔

جنرل لی نے اپنے کریئر کا آغاز بطور ایرو سپیس انجینئر کیا۔ اس کے بعد وہ چین کی فوج اور سکیورٹی سے متعلق کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔

سابق وزیر خارجہ چِن گانگ کی طرح جنرل لی بھی صدر شی جن پنگ کے پسندیدہ تصور کیے جاتے رہے ہیں۔ جنرل لی شانگفو دوسرے بڑے رہنما ہیں جو گذشتہ چند دنوں سے منظر عام سے غائب ہیں۔

چینی فوج میں کرپشن کی قیاس آرائیاں اگست کے مہینے میں ہی شروع ہوگئی تھیں۔ اس وقت چین نے اپنی فوج کی راکٹ فورس کے دو سینیئر جنرلوں کو تبدیل کر دیا تھا۔

فوجی ملٹری کورٹ کے چیئرمین کو بھی ان کی تعیناتی کے چند ماہ میں ہی تبدیل کر دیا گیا۔

لی شانگفو

،تصویر کا ذریعہEPA-EFE/REX/SHUTTERSTOCK

،تصویر کا کیپشن

لی شانگفو

جاپان میں امریکی سفیر نے کیا کہا؟

گذشتہ ہفتے اور جمعہ کو سفیر ایمانوئل نے جنرل لی اور مسٹر چِن گانگ کےساتھ دیگر اعلیٰ فوجی حکام کی عدم موجودگی کے بارے میں ٹویٹ کیا۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ جنرل لی ویتنام کے دورے بھی نظر نہیں آئے۔ ان کا اندازہ یہ ہے کہ جنرل کو شاید گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔

امریکی سفیر اپنی طنزیہ ٹویٹس کے لیے مشہور ہیں۔ ٹویٹ کرتے ہوئے انھوں نے جنرل لی کی عدم موجودگی کا موازنہ معروف جاسوسی ناول نگار اگاتھا کرسٹی کے ناول ‘اینڈ دن دیئر ویر نن’ اور شیکسپیئر کے ڈرامے ‘ہیملٹ’ کیسے کیا ہے اور شیکسپیئر کے ڈرامے کا ڈائیلاگ ‘سمتھنگ از روٹن ان دی سٹیٹ آف ڈنمارک’ لکھا ہے اور چین کی جانب اشارہ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ویت نامی حکام کا کہنا ہے کہ جنرل لی گذشتہ ہفتے آخری لمحات میں اچانک میٹنگ میں شرکت سے دستبردار ہو گئے۔ انھیں بتایا گیا کہ جنرل لی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔

سنگاپور کی بحریہ کے سربراہ شان واٹ نے گذشتہ ہفتے چین کا دورہ کیا تھا اور فوجی حکام سے ملاقات کی تھی۔ بی بی سی نے سنگاپور کی بحریہ سے مسٹر ایمانوئل کے الزام کی تصدیق کرنے کو کہا ہے۔

مسٹر چن گانگ کی گمشدگی کو ب تین ماہ ہونے کو ہیں۔ ان کے منظر عام سے غائب ہونے کو بھی ‘صحت کی صورتحال’ سے منسلک کیا گیا تھا اور بڑے پیمانے پر یہ قیاس آرائیاں کی گئیں کہ ان کی رخصتی بھی بدعنوانی کے خاتمے سے بھی منسلک ہیں۔ اس کے بعد انھیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔

ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ کوئی چینی اہلکار سرکاری میٹنگ سے اس طرح دستبردار ہو جائیں۔ ان افسران کا باقاعدہ طبی معائنہ کیا جاتا ہے۔

چن گانگ اور لی شانگفو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سابقہ وزیر خارجہ چن گانگ (بائیں) اور لی شانگفو (دائیں) چینی صدر شی جن پنگ کے پسندیدہ مانے جاتے تھے

جنرل لی اور تنازعات کا رشتہ

جنرل لی کا تنازعات کے ساتھ پرانا تعلق ہے۔ سنہ 2018 میں وہ چینی فوج کے فوجی ساز و سامان کے فروغ کے سربراہ تھے۔ اس وقت امریکہ نے ان پر روسی لڑاکا طیاروں اور ہتھیاروں کی خریداری کا الزام لگا کر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

ان پابندیوں کے بعد جنرل لی نے اس سال سنگاپور میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی وزیر دفاع کا لاپتہ ہونا چینی حکومت کے ابہام کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ صدر شی جن پنگ کے بعض فیصلوں کی کمزوری کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔

ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں چین کے امور کے ماہر نیل تھامس کا کہنا ہے کہ ’بڑی شخصیات کے لاپتہ ہونے اور بدعنوانی میں ان کے ملوث ہونے کی خبریں صدر شی کے فیصلوں پر سوال اٹھاتی ہیں کیونکہ ان کی منظوری سے ہی ان لوگوں کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا گیا تھا۔‘

لیکن نیل تھامس کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر شی کی قیادت اور چین کے سیاسی استحکام کو کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ لاپتہ ہونے والے افراد میں سے کوئی بھی ان کے اندرونی حلقے کا حصہ نہیں تھا۔

تجزیہ کار بل بشپ کا کہنا ہے کہ چینی فوج کی کرپشن کی ایک طویل تاریخ ہے۔ صدر شی ملک کی مسلح افواج کے سپریم لیڈر بھی ہیں۔ انھوں نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا ہے جو ان کے سابقہ لیڈروں نے اپنایا تھا۔

بشپ نے حال ہی میں لکھا کہ ‘شی جن پنگ کے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک اقتدار میں رہنے کے بعد، چینی فوج میں سب سے اوپر بدعنوانی کی اطلاعات ہیں۔ اور اس کے لیے وہ اپنے سابقہ لیڈروں کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ جنرل لی اور ان سے پہلے وزیر خارجہ چن کو صدر شی نے ترقی دی تھی۔ انھوں نے اندازہ لگایا کہ مستقبل میں اس طرح کے مزید واقعات پیش آ سکتے ہیں۔

کارنیگی چائنا کے تجزیہ کار ایان چونگ کا کہنا ہے کہ اعلیٰ حکام کی گمشدگی ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہے جب چین اور تائیوان کے تعلقات کشیدہ ہیں۔

چینی جنگی جہاز خلیج تائیوان میں تعینات ہیں اور چین جلد ہی بحریہ کی ایک اور مشق کر سکتا ہے۔

محکمہ دفاع اور خارجہ کسی بھی ملک کے لیے اہم محکمے ہوتے ہیں۔ تجزیہ کار چونگ کا کہنا ہے کہ اتنے نازک وقت میں ان دونوں محکموں میں مسائل پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔

دوسری جانب جاپان میں امریکی سفیر ایمانوئل کی ٹویٹ کو اعلیٰ عہدے پر فائز کسی بھی امریکی سفارت کار کے مقابلے میں عام نہیں کہا جا سکتا۔ خاص طور پر ایسے سفارت کاروں کے لیے جو امریکہ سے آتے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ