- مصنف, مانسی دیش
- عہدہ, بی بی سی
- ایک گھنٹہ قبل
انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے انڈیا اور چین کے تجارتی تعلقات پر سوال اٹھایا ہے کہ انڈیا چین سے اتنی زیادہ خریداری کیوں کرتا ہے۔ وزیر خارجہ نے یہ سوال کولکتہ میں ایک تقریب کے دوران اٹھایا۔ انھوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا چین کے ساتھ اتنے بڑے پیمانے پر تجارت کرنا ملک کے لیے درست ہےایس جے شنکر کولکتہ میں اس تقریب میں مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ملک کی خود انحصاری کی اہمیت کے بارے میں بات کر رہے تھے۔حال ہی میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق چین انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیٹو کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان رواں مالی سال میں تجارت 118.4 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔
چین سے انڈیا کی درآمدات کا حجم 3.24 فیصد بڑھ کر 101.7 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے جبکہ انڈیا سے چین کو برآمدات 8.7 فیصد بڑھ کر 16.67 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں ہیں۔ان اعداد و شمار کی بنیاد پر کولکتہ میں ایک تقریب کے دوران وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے انڈیا اور چین کے درمیان تجارت پر سوالات پوچھے گئے۔انڈین وزیر خارجہ جے شنکر نے اس تجارتی شراکت داری کے حجم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب انڈیا کووڈ کی وبا سے گزر رہا تھا اس وقت چین نے انڈیا کے ساتھ اپنی سرحد پر فوجیوں کی تعداد بڑھا دی تھی۔ اس سے قبل 2017 میں بھوٹان کے قریب سرحد پر انڈیا اور چین کے درمیان 71 دنوں تک کشیدہ صورتحال رہی۔ اور پھر 2020 میں وادی گلوان میں دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان خونی جھڑپ ہوئی۔ اس کے بعد سے انڈیا اور چین کے تعلقات میں تناؤ ہے۔گلوان واقعے کے بعد دونوں ممالک نے سرحد پر فوجیوں کی تعداد بڑھا دی ہے۔ انڈیا نے کواڈ تنظیم کے رکن ممالک جاپان، امریکہ اور آسٹریلیا کے ساتھ سرحدی سلامتی کے معاملے کو لے کر بھی بات چیت بھی کی ہے۔انڈین حکومت نے جون 2020 میں کچھ چینی موبائل ایپس پر پابندی عائد کی تھی۔ انڈیا نے سکیورٹی اور پرائیویسی کے خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے 59 چینی ایپس پر پابندی لگائی، اس کے بعد انڈین حکومت نے 10 اگست کو 47 ایپس، یکم ستمبر کو 118 ایپس اور 19 نومبر کو 43 موبائل ایپس پر پابندی لگائی تھی۔جون 2020 میں جن چینی ایپس پر پابندی عائد کی گئی تھی ان میں ٹک ٹاک بھی شامل تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
انڈین وزیر خارجہ نے کیا کہا؟
انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کولکتہ میں ’ڈویلپڈ انڈیا ایٹ 2047‘ کنونشن میں چین کے بارے میں بات کرتے ہوئے 1962 کی انڈیا چین جنگ کی یاد تازہ کی۔انھوں نے کہا کہ چین کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں انڈیا کو 1962 کی جنگ کا تجربہ ہے۔یاد رہے کہ سنہ 1962 میں چین اور انڈیا کے درمیان اکسائی چن کے متنازعہ خطے پر جنگ ہوئی تھی جو تقریباً ایک ماہ جاری رہی تھی۔ اکسائی چن خطے پر دونوں ممالک اپنا دعویٰ کرتے ہیں۔جے شنکر نے کہا کے اس جنگ کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی 1988 میں چین گئے تھے۔ ایک طرح سے یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش تھی۔ اس دوران دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر امن برقرار رکھنے کے لیے ایک معاہدہ طے پایا۔ یہ 1988 کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بنیاد تھی۔ تاہم 2020 میں پیش آنے والے واقعے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں تبدیلی آئی ہے۔جے شنکر نے کہا کہ ’چین نے 2020 میں انڈیا کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں کی خلاف ورزی کی اور سرحد پر بڑی تعداد میں فوجیوں کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ چین نے یہ قدم اس وقت اٹھایا جب انڈیا کووڈ کی وبا سے گزر رہا تھا۔‘انڈیا نے بھی اپنی سرحد پر فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرکے جواب دیا اور اس کے بعد گالوان میں فوجی جھڑپ ہوئی۔انھوں نے کہا کہ انڈین شہری ہونے کے ناطے ہم ملک کی سلامتی کو نظر انداز نہیں کر سکتے اور موجودہ دور میں یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔تاہم، انھوں نے مزید کہا کہ ایک بڑا اقتصادی چیلنج بھی ہے۔ ’ہم نے پچھلے سالوں میں مینوفیکچرنگ اور انفراسٹرکچر کے شعبوں کو نظر انداز کیا۔‘وزیر خارجہ نے کہا کہ انڈین تاجر ’چین سے اتنی زیادہ خریداری کیوں کر رہے ہیں؟ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی (چین کی) پیداواری صلاحیت زیادہ ہے، چین انفراسٹرکچر کے حوالے سے بھی زیادہ قابل ہے۔ چین میں بھی سبسڈی کا نظام بہت زیادہ ہے جس سے انھیں فائدہ ہوتا ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تاہم، میں آپ سے گزارش کروں گا کہ اس بارے میں سوچیں کہ کیا یہ ملک کے مستقبل کے لیے صحیح ہے۔ کیا آپ کے کاروبار کے لیے کسی اور پر انحصار کرنا درست ہے؟ خاص طور پر ایسے ملک پر جو سیاسی وجوہات کے ساتھ ساتھ تجارت کے لیے آپ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘جے ایس شنکر نے کہا کہ ’دنیا کے کئی ممالک اس وقت اقتصادی سلامتی پر بات کر رہے ہیں۔ ان ممالک کا خیال ہے کہ کچھ بنیادی کاروبار ملک کے اندر ہی رہنے چاہئیں۔ سپلائی چین محدود ہونی چاہیے۔ اگر آپ تمام اشیا خود تیار نہیں کر رہے ہیں، تو سپلائی چین قابل اعتماد ہونی چاہیے۔ ’یہ ایک ایسے ملک کے ساتھ ہونی چاہیے جو سیاست اور تجارت کو آپس میں نہ ملاتا ہو اور جس کے ساتھ ہمارا سرحدی تنازعہ نہ ہو۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’یہ معاملہ مکمل طور پر حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یہ فیصلہ بڑی حد تک تاجر کے فیصلے پر منحصر ہے۔ حکومت یقیناً اس کام میں مدد کرتی ہے۔ حکومت ہر شعبے میں ایسا نہیں کر سکتی۔ تاہم حکومت کچھ علاقوں کے بارے میں بہت حساس ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا انڈیا کو چینی درآمدات پر کم انحصار کرنا چاہیے؟
چین کے امور کے ماہر اور سینیئر صحافی سائبل داس گپتا نے کہا کہ وزیر خارجہ جے شنکر کا بیان انڈین تاجروں کو یہ یاد دلانے کی کوشش ہے کہ سرحدی کشیدگی جاری ہے اور انڈیا کو چین پر کم انحصار کرنا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ وزیر خارجہ کا بیان اس تناظر میں اہم ہے کہ اس قسم کے (چین پر) انحصار سے ہم ملک کے کاروباری مفادات پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ کیونکہ اگر چین مستقبل میں کسی بھی وجہ سے اپنی برآمدات روکتا ہے تو صورتحال مشکل ہو سکتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’انڈیا چین کو صرف 14 فیصد برآمدات کرتا ہے اور چین سے 86 فیصد درآمد کرتا ہے۔ انڈیا ایسی حالت میں ہے جہاں نیپال اور بنگلہ دیش بھی نہیں ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’حکومت نے نوکری پیشہ افراد کے حکومتی پروگرام ’آتمانیربھر بھارت یوجنا‘ کے ذریعے چین سے ریٹیل مصنوعات کی درآمد کو روک دیا تھا۔ تاہم اس نے درمیانی یا کم ٹیکنالوجی والی مصنوعات کی تیاری کے بارے میں نہیں سوچا جو ملک میں میں تیار ہو سکتی ہیں۔ انڈیا اپنی پیداوار بڑھا سکتا تھا لیکن صنعتی دنیا نے اس بارے میں نہیں سوچا اور اپنی پیداوار میں اضافہ نہیں کیا۔ کیونکہ انڈین صنعتیں وہ مصنوعات چین سے آسانی سے حاصل کر سکتی ہیں۔فیصل احمد ’فار سکول آف مینجمنٹ‘ دلی میں پروفیسر ہیں اور انڈیا چین تجارت کے ماہر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں عالمی ویلیو چینز کا ایک نیٹ ورک موجود ہے اور اس میں چین سب سے آگے ہے۔پروفیسر فیصل کا مزید کہنا ہے کہ ’چین نے ایسے انتظامات اور کم لاگت کے طریقے اپنائے، جس سے چین کو فائدہ ہوا۔‘اگر ان طریقوں کو چین کے بجائے کسی دوسرے ملک میں لے جایا جائے تو کمپنیوں کو اتنا فائدہ نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ چین کمپنیوں کے لیے ایک اہم پارٹنر ثابت ہوتا ہے۔سائبل داس گپتا نکہتے ہیں کہ ’حکومت نے پیداوار بڑھانے کے لیے پی ایل آئی سکیم کا اعلان کیا۔ اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی بھی لگائی گئی اور کوالٹی کنٹرول آرڈرز متعارف کرائے گئے، حالانکہ انڈین درآمدات میں اضافہ ہوا۔ ’حکومت نے بروقت اس معاملے کا جائزہ نہیں لیا، لیکن حکومت اب انڈسٹری کو اس کے بارے میں یاد دلاتی ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سوال پہلے پوچھنا چاہیے تھا۔ ملک میں جس تیزی سے مارکیٹ بڑھ رہی ہے اس کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کی کوششیں کیوں نہیں کی گئیں۔ اس پر غور نہیں کیا گیا اور حکومت کی کوششوں کا فقدان ہے۔‘پروفیسر فیصل احمد نے تبصرہ کیا کہ ’انڈیا میں تیار ہونے والی بہت سی اشیاء میں چین سے درآمد کردہ آلات کا استعمال ہوتا ہیں۔ یہ آلات انڈیا کی درآمدات کا ایک بڑا حصہ ہیں اور چین اس کا بڑا حصہ دار ہے۔ بھارت کو اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘’انڈیا کو دوسرے ممالک پر انحصار کم کرنے کے لیے حکومت کی خود انحصاری کی پالیسیوں کے تحت کام کرنا ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا کو گھریلو پیداواری صلاحیت کو بڑے پیمانے پر بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں اسے چین کی مخالفت کے اعتبار سے نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ ہمیں پیداوار بڑھانے اور دنیا کو اپنی مصنوعات برآمد کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ اگر ملکی پیداوار بڑھے گی تو دوسرے ممالک پر ہمارا انحصار کم ہو جائے گا۔‘پروفیسر فیصل احمد نے کہا کہ ملکی پیداوار بڑھانے کے لیے صنعت کا کردار ضروری ہے لیکن پیداوار میں اضافے کے لیے حکومت کا کردار بہت اہم ہے۔ تاہم یہ حکومت اور صنعت دونوں کی ذمہ داری ہے۔سائبل داس گپتا اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’یہ ضروری ہے کہ آنے والی حکومت نچلی سطح پر اس سے نمٹنے کی کوشش کرے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، یہ کہنا مشکل ہے کہ چین پر انحصار کتنا کم ہو گا۔‘
- کیا انڈیا، مشرق وسطیٰ اور یورپ کا راہداری منصوبہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا مقابلہ کر سکتا ہے؟3 اکتوبر 2023
- انڈیا چین کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اپنانے سے کیوں ہچکچاتا ہے؟8 اپريل 2023
- چابہار بندرگاہ: انڈیا اور ایران کا خطے کے لیے ’گیم چینجر منصوبہ‘ یا پاکستان اور چین سے نئے ٹکراؤ کا پیش خیمہ؟16 مئ 2024
،تصویر کا ذریعہHindustan Times
انڈیا اور چین کے درمیان تجارت
سال 2024 میں چین نے ایک بار پھر انڈیا کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ پچھلے سال امریکہ انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر تھا۔گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیٹو (جی ٹی آر آئی) کے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024 میں انڈیا اور چین کے درمیان دو طرفہ تجارت 118.4 بلین ڈالر رہی۔جی ٹی آر آئی کی رپورٹ کے مطابق انڈیا نے چین سے درآمدات کو کم کرنے کے لیے اینٹی ڈمپنگ ٹیکس اور کوالٹی کنٹرول کے ضوابط کو لاگو کیا۔ تاہم انڈیا کی درآمدات پر اس کا اثر نظر نہیں آ رہا ہے۔مالی سال 2024 میں انڈیا نے چین سے 2.2 بلین ڈالر مالیت کی لیتھیئم آئن بیٹریاں خریدیں، جو خطے میں درآمدات کا 75 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ ٹیلی کام آلات اور فون سے متعلق 44 فیصد درآمدات چین سے آتی ہیں جن کی مالیت تقریباً 4.2 بلین ڈالر ہے۔
انڈیا اور چین کے درمیان تجارت کی تاریخ
انڈیا اور چین کے درمیان دوسری صدی قبل مسیح سے ثقافتی تعلقات ہیں۔ پڑوسی ملک ہونے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے مورخین ایک دوسرے کے ملک جا کر اس بارے میں لکھتے تھے۔چین کے ساتھ انڈیا کی تجارت دیر سے شروع ہوئی۔ موجودہ اعدادوشمار کے مطابق انڈیا اور چین کے درمیان تجارت جو کہ 2000 تک 2.92 بلین ڈالر تھی 2008 میں بڑھ کر 41.85 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔سال 2000 میں دونوں ممالک کی درآمدات اور برآمدات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ تاہم سال 2006 کے بعد یہ فرق مزید بڑھ گیا۔ سال 2007 میں انڈیا نے 14.61 بلین ڈالر کی برآمدات کیں، جبکہ 24.05 بلین ڈالر کی درآمدات کی۔چین کے وزیر اعظم وین جیا باؤ نے دسمبر 2010 میں انڈیا کا دورہ کیا تھا۔ جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو 2015 تک 100 ارب ڈالر تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ تاہم درآمدات اور برآمدات کے درمیان فرق بھی وسیع ہو گیا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.