چین تائیوان کشیدگی: تائیوان کے ساتھ ‘دوبارہ اتحاد’ ضرور ہو گا، شی جن پنگ
تائیوان کے معاملے پر بڑھتی کشیدگی کے باوجود چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ تائیوان کے ساتھ ‘دوبارہ اتحاد’ ضرور ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ یہ ‘اتحاد’ پرامن طریقے سے ہونا چاہیے لیکن ساتھ ساتھ انھوں نے یہ بھی تنبیہ کی کہ چینی عوام کا علیحدگی پسند تحاریک روکنے کا بڑا زبردست ماضی رہا ہے۔
دوسری جانب تائیوان کا کہنا ہے کہ ان کے مستقبل کا فیصلہ ان کی عوام کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔
تائیوان خود کو ایک خود مختار ریاست تصور کرتا ہے جبکہ چین کے مطابق تائیوان ایک صوبہ ہے جو ملک سے اس وقت جدا ہے۔
چین نے اپنا مقصد پورا کرنے کے لیے جارحیت کے استعمال کو کبھی خارج از امکان نہیں کیا ہے۔
چینی صدر شی جن پنگ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چینی نے تائیوان کی فضائی حدود میں متعدد جنگی طیارے بھیجے۔ چند تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس قدم کا مطلب تائیوان کے صدر کو تنبیہ دینا ہے وہ بھی ایسے موقع پر جب اتوار کو تائیوان اپنا قومی دن منائے گا۔
تائیوان کے وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ ان کی موجودہ کشیدگی چار دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔
لیکن ہفتے کے روز چینی صدر کی جانب سے دیا گیا بیان جولائی کے مقابلے میں نسبتاً نرم تھا، جب انھوں نے اس عزم کا اتحاد کیا تھا کہ تائیوان کی جانب سے آزادی حاصل کرنے کی تمام کوششوں کو وہ ’کچل کر رکھ دیں گے۔‘
چینی بادشاہت کو ختم کرنے والے انقلاب کی 110ویں سالگرہ کی تقریب کے موقع پر چینی صدر نے کہا کہ تائیوان کے ساتھ پرامن طریقے سے ‘دوبارہ اتحاد’ ‘چینی حکومت کے اپنے مفادات سے منسلک ہے، جس میں تائیوان کے محب وطن عوام بھی شامل ہیں۔’
تاہم انھوں نے مزید کہا: ‘لیکن کوئی شخص چینی عوام کی قومی سالمیت اور علاقائی خود مختاری کا دفاع کرنے کی ہمت، عزم اور صلاحیت کو کم تر نہ سمجھے۔ مکمل اتحاد حاصل کرنے کی تاریخی ذمہ داری ہمیں پوری کرنی ہے اور یہ پوری ہو کر رہے گی۔’
شی جن پنگ نے مزید کہا کہ یہ اتحاد ‘ایک ملک دو نظام’ کے تحت ہو گا اور یہ اسی نظام سے ملتا جلتا ہو گا جو ہانگ کانگ میں رائج ہے۔ ہانگ کانگ چین کا حصہ ہے لیکن وہ کافی حد تک خود مختار بھی ہے۔
تائیوان کا رد عمل
تائیوان میں 10 اکتوبر کو قومی دن کی تقریب سے قبل ریہرسل کی جا رہی ہیں
دوسری جانب تائیوان کے صدراتی دفتر سے بیان سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا کہ تائیوان کے عوام کی رائے بہت واضح ہے کہ وہ ‘ایک ملک دو نظام’ کو نہیں مانتے۔
اس کے علاوہ تائیوان کے ‘مین لینڈ افیئرز کونسل’ کی جانب سے ایک علیحدہ بیان میں چین سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ‘مداخلت، ہراس اور تباہی پر مبنی اشتعال انگیز اقدامات’ کو بند کرے۔
بیجنگ میں صدر شی جن پنگ کے خطاب سے کچھ پہلے تائیوان کے وزیر اعظم سو سینگ چینگ نے بھی چین پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ جارحیت کے اشارے دے رہا ہے اور کشیدگی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
حالیہ کچھ عرصے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود چین اور تائیوان کے تعلقات 1996 جیسی صورتحال تک نہیں گئے ہیں جب چین نے میزائل ٹیسٹس کی مدد سے تائیوان کے صدارتی انتخابات میں خلل ڈالنے کی کوشش تھی اور امریکہ نے انھیں روکنے کے لیے خطے میں اپنے طیارہ برادر جہاز بھیجا تھا۔
اسی معاملے پر جہاں کئی مغربی ممالک نے چین کی جانب سے عسکری طاقت دکھانے پر خدشات کا اظہار کیا ہے، امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ نے ان سے ‘تائیوان معاہدے’ پر عمل کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
صدر جو بائیڈن کا اشارہ امریکہ کی اس طویل مدتی پالیسی کے بارے میں تھا جسے ’ایک چین‘ کہا جاتا ہے جس کے مطابق امریکہ تائیوان کے بجائے چین کو تسلیم کرتا ہے۔
تائیوان میں چین کی جانب سے حالیہ کچھ دنوں میں جارحانہ رویہ اختیار رکھنے پر ان کے خلاف احتجاج کیا گیا
تاہم اسی معاہدے کے تحت امریکہ کے تائیوان سے ’غیر سرکاری مگر فعال‘ تعلقات بھی قائم رکھتا ہے۔
امریکہ تائیوان ریلیشنز ایکٹ کے تحت امریکہ تائیوان کو اسلحہ بھی فروخت کر سکتا ہے، جس کے مطابق امریکہ تائیوان کے دفاع میں اس کی ضرور مدد کرے گا۔
بی بی سی کے ساتھ اس ہفتے کیے جانے والے ایک انٹرویو میں امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ امریکہ ہر اس قدم کے خلاف نہ صرف خود کھڑا ہو گا اور آواز اٹھائے گا جو آبنائے تائیوان کے خطے میں امن اور استحکام کو متاثر کرتا ہو گا۔
Comments are closed.