پیٹرو ڈالر: چین اور سعودی عرب جیسے ممالک کب تک امریکی ’پیٹرو ڈالر‘ پر انحصار کریں گے؟
- انیس القدوہی
- بی بی سی عربی
‘پیٹروڈالر’ کی اصطلاح ستر کی دہائی میں چلن میں آئی تھی
چند روز قبل امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل میں ایک خبر شائع ہوئی تھی کہ سعودی عرب چین سے تیل کی فروخت کی ادائیگی یوآن میں لینے پر غور کر رہا ہے۔
اس خبر کے ساتھ ہی یہ افواہیں بھی زور پکڑنے لگیں کہ کہیں یہ پیٹرو ڈالر کے دور کے خاتمے کا آغاز تو نہیں ہے؟
‘پیٹرو ڈالر’ کی اصطلاح ستر کی دہائی میں استعمال میں آئی اور اس کے ساتھ ہی دنیا کے کاروبار میں بین الاقوامی لین دین کے لیے ترجیحی کرنسی کے طور پر ڈالر کی پوزیشن مستحکم ہوتی گئی۔
توانائی کے شعبے میں ایک پبلشنگ کمپنی انرجی انٹیلی جنس کے سینیئر ایڈیٹر رفیق لٹا کا کہنا ہے کہ چینی کرنسی یوآن میں ادائیگی سے متعلق یہ خبر سعودی ذرائع کے حوالے سے سامنے آئی ہے۔
سعودی عرب نے ابھی تک اس بارے میں سرکاری طور پر کچھ نہیں کہا ہے لیکن جیسے ہی یہ اطلاع منظرِ عام پر آئی تو یہ طے تھا کہ یہ بحث کچھ دنوں تک جاری رہے گی۔
توانائی کے ماہر ڈاکٹر انس الحاجی کا کہنا ہے کہ اس سال تیل کا عالمی کاروبار 2.6 ارب ڈالر تک پہنچنے کا تخمینہ ہے۔ یہ بہت بڑی رقم ہو گی۔
اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جس کرنسی میں تیل خریدا اور بیچا جائے گا اس میں اچھی خاصی لیکویڈیٹی ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ ڈالر ہی وہ کرنسی ہے جس کے ذریعے یہ کام بہترین طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔ اس کی اور بھی وجوہات ہیں۔
ڈالر کی لیکویڈیٹی سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی شرح تبادلہ دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں زیادہ مستحکم ہے اور یہ پوری دنیا میں لین دین کے لیے سب سے زیادہ مقبول کرنسی ہے۔
س سال تیل کا عالمی کاروبار 2.6 ارب ڈالر تک پہنچنے کا تخمینہ ہے
پیٹرو ڈالر کا آغاز
تیل کے عالمی بحران کے کچھ عرصے بعد 1974 میں سعودی عرب کی حکومت نے اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نِکسن کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت یہ طے پایا کہ سعودی عرب کی تیل کی برآمدات ڈالر میں ہوں گی۔
اس معاہدے کے تحت سعودی عرب نے اپنی رقم امریکی ٹریژری بانڈز میں لگائی۔
سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان یہ معاہدہ دور رس اثرات کا حامل تھا۔ کئی ممالک سعودی عرب کے نقش قدم پر چل پڑے اور پوری دنیا میں تیل کی قیمت ڈالر میں طے ہونے لگی۔
یہ بھی پڑھیے
یہی وجہ تھی کہ دنیا بھر کے ممالک نے تیل خریدنے کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر کو ڈالر میں رکھنا شروع کر دیا تاکہ وہ تیل اور ٹریژری بانڈز خرید سکیں، مغربی ممالک میں سرمایہ کاری کر سکیں اور دیگر غیر ملکی اشیا اور دیگر سازو سامان درآمد کر سکیں۔
رفیق لٹا کا کہنا ہے کہ ‘آج ہم جس عالمی معیشت کو دیکھ رہے ہیں اسے یہاں تک پہنچانے میں ڈالر کے ذریعے ہونے والے کاروبار کا اہم کردار ہے۔
’دنیا بھر کے ممالک جس رقم میں اپنے ذخائر رکھتے ہیں ان میں 60 فیصد سے زیادہ ڈالر میں ہیں’۔
وہ کہتے ہیں ‘امریکی طاقت کو بڑھانے میں پیٹرو ڈالر کی معیشت کا بڑا کردار ہے اور اس صورت حال میں کوئی بھی تبدیلی صرف اقتصادی پہلو تک محدود نہیں ہوگی۔ اس کا براہ راست اثر عالمی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات اور مساوات پر پڑے گا’۔
تیل کی عالمی منڈی کا ڈھانچہ
2020 کے اعداد و شمار کے مطابق چین اس وقت روزانہ ایک کروڑ بیرل خام تیل درآمد کرتا ہے۔
اس میں سے 17 لاکھ بیرل سے زائد تیل سعودی عرب سے درآمد کیا جاتا ہے۔ یہ چین کی تیل کی درآمدات کا تقریباً 17 فیصد ہے۔ یہ سعودی عرب کی تیل کی کل برآمدات کا 26 فیصد ہے۔
ایشیائی ممالک جیسے انڈیا، جاپان اور جنوبی کوریا بھی خام تیل کے بڑے گاہک بن کر ابھرے ہی
چین روس سے روزانہ 15 لاکھ بیرل تیل بھی درآمد کرتا ہے۔ اس وقت چین دنیا بھر میں توانائی کا ایک بڑا صارف بن چکا ہے۔
اس حقیقت نے تیل کی عالمی منڈی کا ڈھانچہ ہی بدل دیا ہے۔ اب تیل کی منڈی میں چین ہی بڑے گاہک کے طور پر نہیں ابھرا بلکہ ایشیائی ممالک جیسے انڈیا، جاپان اور جنوبی کوریا بھی خام تیل کے بڑے گاہک بن کر ابھرے ہیں۔
یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق، سعودی عرب کی تیل کی برآمدات کا 77 فیصد ایشیائی منڈیوں میں جاتا ہے اور صرف دس فیصد یورپ جاتا ہے۔ امریکہ میں روزانہ صرف پندرہ لاکھ بیرل تیل جاتا ہے۔
امریکہ کا انحصار مقامی طور پر نکالے جانے والے تیل پر ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر سعودی عرب، روس اور تیل برآمد کرنے والے دیگر ممالک اب چین اور دیگر ایشیائی ممالک کے ساتھ سٹریٹیجِک تعلقات استوار کرنے کے خواہاں ہیں۔
اس کے ذریعے وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ان کا تیل ان اہم منڈیوں تک پہنچتا رہے۔
تیل برآمد کرنے والے ممالک اس کے لیے چین، انڈیا، جنوبی کوریا اور جاپان میں ریفائنریز بنانا چاہتے ہیں۔ اس سے تیل خریدنے والے ممالک کو خریداری کے طویل مدتی کانٹریکٹ ملتے ہیں۔
سعودی کمپنی آرامکو نے حال ہی میں چین کے ساتھ پیٹرول کیمیکل کمپلیکس اور ریفائنری بنانے کے لیے شراکت داری کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
اس سے دونوں ممالک کے درمیان توانائی کے شعبے میں سٹریٹجِک تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔
یوآن میں سودا کیوں؟
ڈاکٹر الہاجی کا کہنا ہے کہ ڈالر کے بجائے دوسری کرنسی استعمال کرنے کی بحث 50 سال سے زیادہ پرانی ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں چینی کرنسی یوآن میں خریداری کی بحث بھی تیز ہو گئی ہے۔
رفیق لٹا کا کہنا ہے کہ ’دراصل یہ بات اب سامنے آ چکی ہے اور اس سے سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی ظاہر ہوتی ہے۔‘
تیل کی عالمی منڈی کچھ عرصے سے اس تبدیلی کا مشاہدہ کر رہی ہے جس میں روس کے یوکرین پر حملے سے بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی ماحول کو بھی دیکھا جا رہا ہے اور آخری بات یہ کہ وہ چین کے ساتھ اپنے اہم تعلقات پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔
بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر سعودی عرب سے خریدے گئے تیل کی ادائیگی یوآن میں کی جائے تو یہ نظام سعودی عرب اور چین دونوں کے لیے انشورنس پالیسی جیسا ہو گا۔
اس کے ساتھ اگر مستقبل میں کسی پابندی کی وجہ سے ڈالر میں تیل کے سودوں پر پابندی لگتی ہے تو یوآن بہترین متبادل ثابت ہو سکتا ہے۔
Comments are closed.