یوکرین، روس جنگ: پاکستان، انڈیا اور چین سمیت دیگر ایشیائی معیشتیں روس پر پابندیوں پر متفق کیوں نہیں ہیں؟
- ماریکو اوئی
- ایشیا بزنس نامہ نگار
لاکھوں ایشیائی باشندے جنگ مخالف احتجاج کا حصہ بن رہے ہیں لیکن ایشیائی ممالک کا روس کے بارے میں موقف یکساں نہیں ہے
روس نے جب سے یوکرین پر حملہ کیا ہے وہ دنیا میں سب سے زیادہ عالمی پابندیوں کا سامنا کرنے والا ملک بن چکا ہے۔
ایشیائی ممالک میں سے صرف چند کے ایک کے سوا کسی ملک نے روس کے خلاف کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے۔ چین نے یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کرنے سے انکار کے علاوہ اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کرنے کے لیے پیش جانے والی قرارداد پر انڈیا، پاکستان، ویتنام، بنگلہ دیش، سری لنکا اور منگولیا نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔
البتہ آسٹریلیا، جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان نے روس پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ جاپان اور جنوبی کوریا نے کئی روسی بینکوں کو ادائیگیوں کے عالمی نظام ‘سوئفٹ’ سے روکنے کے اقدامات کیےہیں لیکن ان کا اثر بہت کم ہے۔
جن ایشیائی ممالک نے مغربی ممالک کے ساتھ روس پر پابندیاں عائد کی ہیں ان کا روس کی عالمی تجارت میں حصہ صرف آٹھ فیصد ہے۔
روس یوکرین تنازع: اس جنگ کے آپ کی زندگی پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟ ہمیں اپنے سوال بھیجیں
انسٹیٹیوٹ فار پالیسی، ایڈووکیسی اینڈ گورننس کے چیئرمین سید منیر خسرو کے مطابق چین اور انڈیا کی روس کے خلاف پابندیوں کے بغیر روس پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
روس کی عالمی تجارت کا اٹھارہ فیصد حصہ چین اور انڈیا کے ساتھ ہے۔
اس کے علاوہ روس ممکنہ عالمی پابندیوں کے بارے میں کئی برسوں سے تیاری کر رہا تھا۔ روس نے جب سنہ 2014 میں کریمیا کو اپنے ساتھ ملایا اس وقت بھی مغربی ممالک نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
روس نے سنہ 2014 کے بعد سے ڈالر پر انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس نے اپنے ذخائر کو سونے اور چینی یوان میں منتقل کیا ہے۔
چین کے موقف کی وجہ کیا ہے؟
چین کو روس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لینا ہے۔ چین روس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔
یوکرین پر روس کے حملے سے چند ہفتے پہلے ہی چین نے روس سے گندم کی درآمد پر پابندی ختم کی اور روس سے گیس خریدنے کا 30 سالہ معاہدہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ گیزپرام جیسی روسی کمپنیاں اور بینک ادائیگیوں کے لیے چینی کرنسی کو استعمال کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں سنگاپور کے سابق سفیر بلہاری کاؤشیکن کا کہنا ہے کہ چین کے سامنے تین مقاصد ہیں۔
چین عالمی تعلقات کےحوالے سے حاکمیت، علاقائی خودمختاری اور عدم مداخلت کے اصولوں کے بارے میں بہت حساس ہے جس کی وجہ سے تبت، سنگیانگ اور تائیوان ہیں۔
یوکرین پر روسی حملہ ان تمام اصولوں کی خلاف ورزی ہے لیکن چین کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ روس اس کا سب تزویراتی اتحادی ہے۔ اس کے علاوہ چین اور روس عالمی نظام میں مغربی ممالک کی برتری سے بھی نالاں ہیں۔
مسٹر کاؤشیکن کے مطابق چین کے مفادات عالمی نظام میں بہت ہیں اور امریکہ، یورپ اور جاپان اس کے لیے روس سے بڑی منڈیاں ہیں اسی وجہ سے چین چاہتا ہے کہ صورتحال پر قابو پایا جائے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جھگڑے میں اس کا بھی نقصان ہو جائے۔
انڈیا کس طرف کھڑا ہے؟
روس انڈیا اور ویتنام کو سب سے زیادہ اسلحہ مہیا کرتا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی گذشتہ ماہ گیس پائپ لائن کے ایک معاہدے پر بات چیت کے لیے ماسکو کا دورہ کیا تھا۔
مسٹر کاؤشیکن کا کہنا ہے کہ انڈیا کے پاس روسی ساختہ اسلحے کا ایک بڑا ذخیرہ ہے جسے وہ قابل استعمال حالت میں رکھنا چاہتا ہے جس کی وجہ چین ہے۔
روس کے ساتھ مضبوط تعلقات کے علاوہ انڈیا امریکی سربراہی میں بننے والے چار ملکی اتحاد ’کواڈ‘ کا بھی حصہ ہے جس میں جاپان اور آسٹریلیا بھی شامل ہیں۔ کچھ لوگ کواڈ کو چین مخالف اتحاد سمجھتے ہیں۔
روس میں انڈیا کے سابق سفیر پنکج سرن نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’انڈیا کس جانب کھڑا ہے؟ ہم اپنی طرف کھڑے ہیں۔‘
روس کی یوکرین کی یلغار پر ایشیائی ممالک کے ردعمل کو پنکج سرن کی ٹویٹ کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج
بی بی سی لائیو پیج: یوکرین پر روس کا حملہ، تازہ ترین صورتحال
ایشیا میں حکومتوں کےلیے کسی ایک فریق کی حمایت کرنا کوئی نئی بات نہیں۔
ایشیائی ممالک کو تجارتی تنازعوں، انسانی حقوق کے معاملات میں کسی ایک فریق کی طرف داری کرنی ہوتی ہے لیکن جب معاملات معاشی صورتحال سے جڑے ہوں تو ایشیائی ممالک ہمیشہ اپنے حالات و واقعات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔
پروفیسر منیر کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونےکے ناطے انڈیا سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کرے گا۔
’لیکن دنیاوی اصولوں اور عالمی آداب کے برعکس اپنے مفادات کے تحت چلتی ہے۔‘
’ایشیا کی چھوٹی معیشتیں مغربی ممالک اور چین اور روس کے درمیان پھنس کر رہ گئی ہیں‘
اقوامِ متحدہ میں روس کے خلاف قرارداد پر ووٹنگ نے ایشیائی ممالک کی تقسیم کو مزید اجاگر کیا ہے۔ شمالی کوریا ان پانچ ممالک میں سے ایک تھا جنھوں نے روس کے خلاف قرارداد کی مخالفت کی تھی۔
میانمار نے روس کی مذمت کرنے کی قرارداد کی حمایت کی لیکن اس کی وجہ شاید میانمار کی جلاوطن حکومت ہے۔ البتہ برما کے فوجی حکمران روس کے حامی ہیں جہاں سے وہ اسلحہ خریدتے ہیں۔
این یو ایس ڈپارٹمنٹ آف پولیٹیکل سائنس کے چانگ جا اِن کے مطابق ایشیا کی چھوٹی معیشتیں مغربی ممالک اور چین اور روس کے درمیان پھنس کر رہ گئی ہیں۔ عام طور پر وہ روس اور چین جیسے ممالک پر تنقید سے گریز کرتے ہیں جس کی انھیں قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔
’ایشیا میں اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ روس جو کچھ یوکرین میں کر رہا ہے وہ بہت غلط ہے اور روسی عمل خود مختاری کے اصول کی خلاف ورزی ہے جس پر ان کا بھی دارومدار ہے۔ انھوں نے خاموش اختیار کر لی ہے، وہ نہ تنقید کرتے ہیں اور نہ ہی حمایت۔‘
پروفیسر چانگ کے مطابق مغربی دنیا کا حامی جنوبی کوریا بہت احتیاط سے چل رہا ہے کیونکہ اسے بھی شمالی کوریا کے معاملے پر روس کی مدد بھی چاہیے اور وہ غیر ضروری طور پر چین کے راستے میں بھی نہیں آنا چاہتا ہے۔
کونسل آن فارن ریلیشنز کے جنوبی ایشیائی فیلو منجاری چیٹرجی ملر کے مطابق بہت سے ایشیائی ممالک انڈو پیسیفک میں چین کی موجودگی چاہتے ہیں جبکہ انڈیا اور کچھ اور ایشیائی ممالک شاید چاہتے ہیں کہ انڈو پیسیفک میں چین کے بڑھتے ہوئےکردار میں توازن پیدا کرنے کے لیے روس کو بھی آگے آنا چاہیے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ کچھ ایشیائی ممالک نے روس کی جارحیت پر خاموش رہنے کو کیوں ترجیح دی لیکن اس کا دوسرا پہلو بھی ہے: چین یوکرین پر روسی یلغار سے کیا سبق سیکھ سکتا ہے؟
اگر روس کو نہ روکا گیا تو اس کے چین پر کیا اثرات ہوں گے۔ اگر عالمی پابندیاں روسی رویے کو تبدیل نہیں کرتیں تو اس سے انڈوپیسیفک پالیسی اور تائیوان کے مستبقل پر کیا اثرات ہوں گے۔
منجاری چیٹرجی ملر کہتی ہیں کہ اگر تیل کی قیمتیں بڑھتی رہیں، یوکرین میں لڑائی جاری رہی، اور وہاں مظالم بڑھتے رہے تو پھر ایسے ممالک جو ابھی کنارے پر بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں ان کے لیے مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔
Comments are closed.