چینی وزیراعظم کو انڈین طیارے میں بم سے اڑانے کا منصوبہ جس کی تحقیقات میں پانچ ممالک شامل ہوئے
- مصنف, ریحان فضل
- عہدہ, بی بی سی نامہ نگار
انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی کوششوں کے نتیجے میں اپریل 1955 میں انڈونیشیا کے شہر بنڈونگ میں ’ایفرو، ایشیا کانفرنس‘ کا انعقاد کیا گیا۔ چینی حکومت نے اپنے نمائندوں اور وزیر اعظم چو این لائی کو انڈونیشیا لے جانے کے لیے ایئر انڈیا کے ’کشمیر پرنسز‘ نامی طیارے کو چارٹر کیا تھا۔
یہ طیارہ 11 اپریل کی دوپہر 12:15 پر بنکاک سے ہانگ کانگ کے کائی ٹاک ایئرپورٹ پہنچا۔ وہاں فلائٹ انجینئر اے این کارنک کی نگرانی میں طیارے کی صفائی کی گئی۔
اس دوران شریک پائلٹ گوڈبولے نے کہا تھا کہ ’آج ہمیں چینی وزیر اعظم چو این لائی سے ملنے کا موقع ملے گا جو ہمارے جہاز سے سفر کریں گے۔‘ اسے یہ خبر ایئرپورٹ کے زمینی عملے سے ملی تھی جو طیارے کی صفائی اور اس میں ایندھن بھر رہے تھے۔
ہانگ کانگ میں یہ خبر عام تھی کہ چین کے وزیر اعظم اس طیارے سے سفر کرنے والے ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ہانگ کانگ میں بڑی تعداد میں چین مخالف تائیوانی ایجنٹ موجود تھے، چینی حکومت کو اس خبر کو باہر نہیں آنے دینا چاہیے تھا۔
کاک پٹ میں دھماکہ
ایئر انڈیا کی چارٹرڈ فلائٹ ’کشمیر پرنسز‘ ہانگ کانگ کے کائی ٹاک ہوائی اڈے پر چینی وزیر اعظم کا انتظار کر رہی تھی۔ طیارے کے ٹیک آف کے وقت سے کچھ دیر قبل اس کے کپتان ڈی کے جتار کو ایک ریڈیو پیغام موصول ہوا کہ چینی وزیر اعظم نے آخری لمحات میں اپنا دورہ منسوخ کر دیا ہے۔
اسے بتایا گیا کہ اب وہ اڑان بھر سکتے ہیں۔ طیارہ ٹھیک 1.26 بجے ہانگ کانگ کے ہوائی اڈے سے روانہ ہوا۔ یہ طیارہ لاک ہیڈ کمپنی کا ایل-749 کنسٹیلیشن طیارہ تھا۔ طیارے کو انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں لینڈ کرنا تھا۔ اس طیارے میں کپتان کے علاوہ سات اہلکار اور 11 مسافر سوار تھے۔
مسافروں میں زیادہ تر چینی مندوبین تھے جو انڈونیشیا میں کانفرنس میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔ طیارے کو ہوا میں پرواز کرتے پانچ گھنٹے گزر چکے تھے کہ اس کے کاک پٹ میں زور دار دھماکہ ہوا۔ ایک سیکنڈ میں طیارے کے ایک انجن سے آگ کے شعلے نکلنے لگے۔
پائلٹ نے دیکھا کہ جہاز میں فائر سائن آن ہو گیا ہے اور طیارہ بہت تیزی سے نیچے جا رہا ہے۔ مسافروں کی چیخیں پورے طیارے میں گونجنے لگیں۔ اس وقت طیارہ 18 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا۔
جلتا ہوا طیارہ سمندر میں گر کر تباہ ہو گیا
پائلٹ نے سب سے پہلے ہنگامی صورتحال کا سگنل بھیجا اور کنٹرول روم کو بتایا کہ اس وقت وہ بحیرۂ جنوبی چین کے جزیرہ ناٹونا کے اوپر سے پرواز کر رہا ہے۔ اس کے بعد جہاز کے تھروٹل کو پوری طاقت سے دباتے ہوئے اس نے جہاز کا رخ زمین کی جانب کر دیا۔ قریبی ہوائی اڈے پر اترنے کے لیے کافی وقت نہیں تھا، اس لیے مسافروں کو بچانے کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ جہاز کو سمندر کے پانی میں اتارنے کی کوشش کی جائے۔
جب طیارہ پانی میں گرا تو اس میں آگ لگ گئی تھی۔ جہاز میں سوار 19 افراد میں سے صرف تین عملے کے ارکان زندہ بچے جبکہ باقی 16 لوگ مارے گئے۔ نتن گوکھلے اپنی کتاب ’آر این کاؤ جنٹلمین سپائی ماسٹر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’بچنے والوں میں فلائٹ نیویگیٹر پاٹھک، جہاز کے مکینیکل انجینئر اے این کارنک اور معاون پائلٹ ایم سی ڈکشٹ شامل تھے۔‘
ایئر انڈیا کے تجربہ کار پائلٹس میں سے ایک کیپٹن جتار اپنی سیٹ پر مردہ پائے گئے۔ ایئر ہوسٹس گلوری ایسپنسن نے بے مثال ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاز کے سمندر میں گرنے سے پہلے ہر مسافر اور عملے کے ارکان میں لائف جیکٹس تقسیم کی تھیں۔
مینٹیننس انجینئر کارنک نو گھنٹے تک سمندر کے پانی میں تیراکی کرتے ہوئے ایک جزیرے پر پہنچi جہاں ماہی گیروں نے انھیں بچایا اور سنگاپور جانے والے برطانوی جنگی جہاز پر سوار کروایا۔ بعدازاں انھیں انڈیا کے قومی اعزاز ’اشوک چکر‘ سے نوازا گیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہBLOOMSBURY
نہرو نے تحقیقات کا مطالبہ کیا
اگر چین کے پہلے وزیر اعظم چو این لائی نے آخری وقت پر اپنا دورہ منسوخ نہ کیا ہوتا تو وہ بھی اس حادثے میں ہلاک ہو سکتے تھے۔ سنہ 2004 میں، چینی حکومت کی طرف سے انٹیلیجنس دستاویزات کو عام کیا گیا تھا جس میں چینی حکومت کا کہنا تھا کہ ’چو این لائی کا بیجنگ میں اپینڈیکس کا آپریشن کیا گیا تھا، اور اسی وجہ سے انھوں نے کچھ دنوں بعد انڈونیشیا جانے کا فیصلہ کیا تھا۔‘
آپریشن کے تین دن بعد چو این لائی رنگون گئے تھے جہاں انھوں نے جواہر لعل نہرو اور برما کے وزیر اعظم یو ان سے ملاقات کی تھی۔
اس واقعے کے فوری بعد چینی ریڈیو کی نشریات میں طیارے میں تخریب کاری کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ اس نشریات میں کہا گیا تھا کہ شک کرنے کی یہ وجہ کافی ہے کہ طیارہ گرا کر انڈیا اور چین کے تعلقات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔
چینیوں نے اس کے لیے تائیوان کی خفیہ ایجنسی ’کے ایم ٹی‘ کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ وزیر اعظم چو این لائی نے نہرو سے رابطہ کیا اور درخواست کی کہ انڈیا اس حادثے کی تحقیقات کا حصہ بنے۔
رام ناتھ کاؤ کو ذمہ داری سونپی گئی
رام ناتھ کاؤ
نہرو نے اپنے معتمد اور اس وقت کے انٹیلیجنس بیورو کے سربراہ بی این ملک سے کہا کہ وہ اپنے بہترین شخص کو اس کام کے لیے مقرر کریں جس کے بعد رام ناتھ کاؤ کا انتخاب کیا گیا۔ بعدازاں ہندوستان ایئر کرافٹ فیکٹری کے انجینئر وشواناتھن بھی تحقیقاتی ٹیم کے رکن بنے۔
کاؤ نے حادثے میں بچ جانے والے تینوں عملے کے ارکان سے تفصیلی بات چیت کی تھی۔ نہرو میموریل لائبریری کو دیے گئے دستاویزات میں کاؤ لکھتے ہیں کہ ’میں نے ان لوگوں کی مکمل فہرست بنائی جن کا انڈین طیارے کے ہانگ کانگ سے اڑان بھرنے سے پہلے کسی نہ کسی وجہ سے رابطہ ہوا تھا۔ اس فہرست میں مینٹینس عملے سمیت تمام افراد شامل تھے۔‘
کانفرنس ابھی جاری تھی جب کاؤ بنڈونگ (انڈونیشیا) پہنچے۔ اس وقت کے ایف رستم جی، جو انٹیلیجنس بیورو میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہے تھے، انھیں نہرو کے پاس لے گئے۔ نہرو نے اسی شام کاؤ کی چینی وزیر اعظم چو این لائی سے ملاقات کا اہتمام کیا۔
بعد ازاں ملاقات کے بارے میں بتاتے ہوئے کاؤ نے لکھا کہ ’چو این لائی نے بوائلر سوٹ پہن رکھا تھا۔ ان کے ساتھ ایک مترجم بھی تھا جو ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ تھا اور اچھی انگریزی بولتا تھا۔ چو این لائی چینی زبان میں بات کر رہے تھے لیکن انگریزی زبان کی ان کی سمجھ بوجھ بہت سے لوگوں سے بہتر تھی۔ پہلی بار میں نے ان کے ساتھ چائنیز گرین ٹی پی تھی اور ہمیں خشک لیچی اور بہت سی دوسری چیزیں ساتھ کھانے کو دی گئیں تھی۔‘
پانچ ممالک تحقیقات کا حصہ بنے
اس ملاقات کے دوران ہی کاؤ نے چو این لائی کو کچھ سمجھانے کے لیے ایک کاغذ پر تصویر کھینچنا چاہی۔ اس کے لیے اس نے اپنے بریف کیس سے فاؤنٹین پین نکالا۔
کاؤ لکھتے ہیں کہ ’جب میں نے قلم کا ڈھکن کھولا تو اس کی سیاہی نکلنے لگی اور اس سے میرے ہاتھوں پر داغ پڑ گئے۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا اور اپنے بریف کیس میں سے کچھ کاغذ نکالا اور اسے صاف کرنے کی کوشش کی۔ یہ منظر دیکھ کر چو این لائی کچھ کہے بغیر اپنے صوفے سے اٹھ کر اپنے کمرے سے باہر نکل گئے۔ میں تھوڑا پریشان ہوا لیکن تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ دوبارہ کمرے میں داخل ہوئے۔ ان کا ساتھ صاف گیلے تولیے لے کر آئے تھے۔ انھوں نے مجھے ان سے ہاتھ صاف کرنے کا اشارہ کیا۔‘
اس ملاقات کے دوران ہی چو این لائی نے کاؤ کو ہدایت کی کہ وہ برطانوی حکام کو اس حوالے سے کچھ نہ بتائیں۔ اس واقعہ کے بہت سے بین الاقوامی پہلو تھے۔ طیارے نے ہانگ کانگ سے اڑان بھری تھی لیکن وہ انڈونیشیا کے پانیوں میں گر کر تباہ ہوا تھا۔ یہ طیارہ امریکہ میں بنایا گیا تھا لیکن اس کا مالک انڈیا تھا۔ طیارے میں سوار تمام افراد چینی تھے۔ اس طرح پانچ ممالک برطانیہ، انڈونیشیا، امریکہ، انڈیا اور چین تحقیقات کا حصہ بنے۔
اگلے پانچ ماہ تک، کاؤ نے واقعے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے برطانوی، چینی اور ہانگ کانگ کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ کاؤ کی محنت رنگ لائی اور ستمبر 1955 تک اس کی تصویر سامنے آنا شروع ہو گئی جو ’کشمیر پرنسز‘ کے حادثے کے دن ہوا تھا۔
کاؤ کی جان کو خطرہ
جب کاؤ بیجنگ پہنچے تو ان کی دوبارہ چو این لائی سے ملاقات ہوئی۔ چینی وزیر اعظم چو این لائی نے کاؤ کو بتایا کہ چینی حکومت کے پاس معلومات ہیں کہ ’کے ایم ٹی‘ کے جاسوس انھیں قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، اس لیے انھیں احتیاط کرنی چاہیے۔
کاؤ بیجنگ سے ہانگ کانگ پہنچے تو ہانگ کانگ سپیشل برانچ کے سربراہ نے ان سے ملاقات کی اور کہا کہ انھیں ہدایات ملی ہیں کہ انھیں مناسب سکیورٹی فراہم کی جائے۔
اب سے ایک برطانوی انسپکٹر ہمیشہ بغیر نشان والی گاڑی میں ان کے ساتھ رہے گا۔ کاؤ نے بھی ہانگ کانگ میں اپنی طرف سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا شروع کر دیں۔ انھوں نے رات کو گھومنا پھرنا، گلیوں میں جانا اور نامعلوم جگہوں پر کھانا کھانا چھوڑ دیا۔ ان کے ہوٹل کے کمرے میں کوئی سیف نہیں تھا، اس لیے وہ جب بھی باہر جاتے تو تفتیش سے متعلق تمام کاغذات اپنے بریف کیس میں لے جاتے۔
یہ بھی پڑھیے
کاؤ نے بعد میں لکھا کہ ’ہوٹل میں بھی، میں نے کبھی اپنا بریف کیس اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔ حتیٰ کہ جب میں باتھ روم جاتا تھا تو میں بریف کیس اپنے ساتھ لے جاتا تھا۔ رات کو میں اسے بستر کے گدے کے نیچے رکھتا تھا۔‘
طیارے کے حادثے کی سائنسی تحقیقات کے بعد پتا چلا کہ ٹائم بم طیارے کے وہیل بے کے انڈر کیریج میں رکھا گیا تھا۔ یہ معلوم ہونے کے بعد سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ کام کس نے کیا؟
کاؤ نے واقعے کی تہہ تک پہنچ کر اس کے ہر پہلو کی چھان بین کی، ہانگ کانگ کے برطانوی گورنر سر الیگزینڈر گرانتھم اور اس کے جاسوسوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔
کاؤ نے چینی وزیر اعظم چو این لائی کو بتایا کہ وسیع تحقیقات کے بعد انھیں پتا چلا ہے کہ ایک تائیوانی شخص چاؤ چاؤ، جو ہانگ کانگ ایئر کرافٹ انجینئرنگ کمپنی میں گراؤنڈ مینٹیننس عملے کا رکن تھا، اس واقعے میں ملوث تھا۔
تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ہانگ کانگ میں کے ایم ٹی کے ایک انٹیلیجنس افسر نے یہ کام کرنے کے لیے چاؤ چاؤ کو تیار کیا تھا۔ شروع میں چاؤ چاؤ اس کام کے لیے راضی نہیں ہوئے لیکن جب انھیں لالچ دیا گیا کہ انھیں اس کام کے لیے 60 ہزار ہانگ کانگ ڈالر ملیں گے تو انھوں نے اس پر رضامندی ظاہر کی۔
ہانگ کانگ کے کئی ہوٹلوں میں کے ایم ٹی اہلکار اور چاؤ چاؤ کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ اس کے بعد چاؤ چاؤ کو طیارے میں بم نصب کرنے کی تربیت دی گئی۔ اس منصوبے کے پیچھے چیانگ کائی شیک کا ہاتھ تھا، جو اس وقت تائیوان کا لیڈر تھا۔
تائیوان کے رہنما چانگ کائی شیک
یہ بھی پڑھیے
چاؤ چاؤ کا فرار
جب یہ بات عام ہوئی کہ چو این لائی کانفرنس میں شرکت کے لیے ایک انڈین چارٹرڈ طیارے میں ہانگ کانگ سے بنڈونگ جائیں گے تو فیصلہ کیا گیا کہ ان کے طیارے میں بم نصب کیا جائے۔ جب کاؤ ہانگ کانگ پہنچے تو انھیں پولیس کمشنر میکسویل نے مطلع کیا کہ مرکزی ملزم چاؤ چاؤ، جس نے ہوائی جہاز میں بم نصب کیا تھا، 18 مئی کی صبح 10 بجے امریکی ساختہ جہاز میں ہانگ کانگ سے تائیوان فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
جیسے ہی وہ تائیوان پہنچا، کے ایم ٹی کے انٹیلیجنس افسران اسے نامعلوم مقام پر لے گئے۔ اس کے بعد بیرونی دنیا نے ان کے بارے میں کبھی کچھ نہیں سنا۔
12 جون 1955 کو ہانگ کانگ پولیس نے اعلان کیا کہ جو بھی ’کشمیر پرنسز‘ حادثے کے بارے میں ٹھوس معلومات دے گا اسے 10 لاکھ ہانگ کانگ ڈالر دیے جائیں گے، لیکن کوئی بھی پولیس کی مدد کے لیے آگے نہیں آیا۔
رام ناتھ کاؤ کو یہاں تک پتہ چلا تھا کہ واقعے سے ایک دن پہلے چاؤ چاؤ کو مووی لینڈ ہوٹل بلایا گیا تھا اور خاکی لفافے میں لپٹا ٹائم بم دیا گیا تھا۔ اگلے دن کے ایم ٹی کے ایک ایجنٹ نے اسے اپنی کار میں ہانگ کانگ کے ہوائی اڈے کے گیٹ پر اتارا تھا۔
نتن گوکھلے لکھتے ہیں کہ ’بعد میں کاؤ کو یہ بھی معلوم ہوا کہ طیارہ پھٹنے کے بعد، چاؤ اپنے کے ایم ٹی ہینڈلرز کے پاس اپنا انعام لینے گیا، لیکن انھوں نے یہ کہتے ہوئے کہ گرائے گئے طیارے میں چین کے وزیر اعظم چو این لائی نہیں تھے اسے یہ رقم دینے سے انکار کر دیا۔
چو این لائی کاؤ کی تحقیقات سے بہت متاثر ہوئے۔ انھوں نے نہرو کو ایک خط لکھا جس میں کاؤ کے کام کرنے کے طریقے کی تعریف کی۔ انھوں نے کاؤ کو اپنی رہائش گاہ پر کھانے پر مدعو کیا۔ وہ اس وقت جونیئر افسر تھے اور یہ ان کے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی۔ شکریہ ادا کرنے کے لیے، چو این لائی نے کاؤ کو اپنی ذاتی مہر دی جو آخر تک کاؤ کی سٹڈی ٹیبل کا حصہ رہی۔ اس تفتیش کے بعد جب کاؤ انڈیا واپس آئے تو ان کا ایک ہیرو کی طرح استقبال کیا گیا۔
سی آئی اے کی سازش؟
،تصویر کا ذریعہMANAS PUBLICATION
چین کو اس واقعے سے کم از کم دو دن پہلے اس سازش کا سراغ مل گیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب چینی حکومت کو تائیوان کے جاسوسوں کی سرگرمیوں کا پہلے ہی علم ہو چکا تھا تو اس نے اس واقعے کو روکنے کے لیے کوششیں کیوں نہیں کیں؟
آر کے یادو اپنی کتاب ’مشن آر اینڈ ڈبلیو‘ میں لکھتے ہیں کہ ’چو این لائی اور ان کی حکومت نے اس حادثے کو روکنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ وہ اس بہانے ہانگ کانگ میں کے ایم ٹی کے خفیہ اڈوں کو بے نقاب کرنا چاہتے تھے تاکہ انھیں وہاں سے گرفتار کیا جا سکے۔‘
دوسری بات یہ تھی کہ وہ اس واقعے کی پروپیگنڈا قدر سے واقف تھے کیونکہ اس واقعے کے ایک دن بعد ہی چینی وزارت خارجہ نے کہنا شروع کر دیا کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور چیانگ کائی شیک کی کے ایم ٹی ایجنسی نے مل کر چینی وزیر اعظم کو قتل کرنے کی کوشش کی۔
لیکن چینی حکومت سی آئی اے اور کے ایم ٹی کے درمیان گٹھ جوڑ کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی، سوائے اس کے کہ اس واقعے میں استعمال ہونے والا ٹائم بم امریکہ میں بنایا گیا تھا۔
امریکیوں نے تائیوان سے مطالبہ کیا کہ مرکزی ملزم چاؤ چاؤ کو ہانگ کانگ سے نکال دیا جائے لیکن تائیوان نے یہ درخواست مسترد کر دی۔
مرکزی ملزم چاؤ چاؤ پولیس کے ہاتھوں کبھی نہیں پکڑا گیا تاہم اس کے ساتھیوں کو ہانگ کانگ میں کئی روز تک حراست میں رکھا گیا تھا۔
11 جنوری 1956 کو برطانوی حکومت نے لندن میں اعلان کیا کہ کے ایم ٹی ایجنسی کے اہلکاروں نے چاؤ کو ہانگ کانگ انتظامیہ کے حوالے کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
اس حادثے میں بچ جانے والے تین افراد میں سے ایک ایم سی ڈکشٹ کئی سالوں تک زندہ رہے۔ حال ہی میں پانچ دسمبر 2022 کو 105 سال کی عمر میں ان کا دہلی میں ان کا انتقال ہوا۔
Comments are closed.