چینی غبارہ: امریکی تفتیش کاروں کو ملبے سے کیا معلومات مل سکتی ہیں

  • مصنف, سیم کیبرال، واشنگٹن میں، اور میڈلین ہالپرٹ، نیو یارک میں
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

چین کا غبارہ

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

امریکہ نے سنیچر کے روز اس چینی غبارے کو اس وقت مار گرایا تھا جب وہ اس کی سمندری حدود کے اوپرمحوِ پرواز تھا۔

ملبہ ملنے کے بعد تفتیش کار جاننے کی کوشش کریں گے کہ چینی غبارہ گزشتہ ہفتے امریکہ کی فضائی حدود میں کیوں داخل ہوا تھا۔

پینٹاگون کا دعویٰ ہے کہ یہ غبارہ، جسے سنیچر کو امریکی پانیوں کے اوپر سے پرواز کرتے وقت مار گرایا گیا تھا، حساس فوجی مقامات کی جاسوسی کر رہا تھا۔

غبارے کا ملبہ جنوبی کیرولائنا کے ساحل سے کچھ پرے ایک وسیع علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔

چین کا اصرار ہے کہ یہ ایک موسمی جہاز تھا جو راستے سے بھٹک گیا تھا۔ اس نے اسے مار گرائے جانے پر ’شدید عدم اطمینان‘ کا اظہار کیا ہے۔

امریکی بحریہ اور کوسٹ گارڈ کے جہاز اور غوطہ خور ایئرکرافٹ میں موجود آلات سمیت غبارے کا زیادہ سے زیادہ ملبہ نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پیر کے روز دفاعی حکام نے کہا تھا کہ 4920 فٹ کے علاقے سے کچھ ملبہ ملا ہے۔ اگرچہ ملبہ خاصے بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ غبارے کے آلات کی بازیابی کی کوششیں سمندری حالات اور اس امکان کی وجہ سے پیچیدہ ہیں کہ ملبے میں دھماکہ خیز مواد یا بیٹری کے اجزا جیسی خطرناک چیزیں شامل ہو سکتی ہیں۔

غبارے کے ملبے سے حکام کو کونسی معلومات ملنے کی توقع ہے؟

سنیچر کے روز ایک اعلی دفاعی عہدیدار نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’ہم قطعی طور پر نہیں جانتے کہ اس سے ہمیں کونسی مفید معلومات ملیں گی۔ لیکن ہم نے اس غبارے اور اس کی نگرانی کی صلاحیت کے بارے میں تکنیکی باتیں معلوم کر لی ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ جنتا زیادہ ملبہ ہم نکال پائیں گے اتنا زیادہ ہمیں سیکھنے کو ملے گا۔‘

بی بی سی سے بات کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ غبارے میں نصب آلات اس کے مقصد اور صلاحیتوں کے بارے میں جاننے میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔

یونیورسٹی آف کولوراڈو بولڈر میں ایرو سپیس انجینئرنگ سائنسز کے پروفیسر آئن بوئڈ کا کہنا ہے کہ نہ تو بیجنگ اور نہ ہی واشنگٹن کی سرکاری وضاحتوں سے کوئی معنی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دونوں جانب شکوک و شبہات موجود ہیں اور یہ ہی کسی حد تک دلچسپ بات ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ سچ کہیں درمیان میں ہے۔‘

بوئڈ کا کہنا تھا کہ اگر رسکیو ٹیمیں کافی مقدار میں آلات برآمد کر لیتی ہیں تو وہ ممکنہ طور پر یہ جان سکیں گے کہ اس میں کتنی معلومات موجود ہیں، کس قسم کی معلومات پر کا تجزیہ کیا جا رہا تھا اور کیا کوئی پروسیس شدہ ڈیٹا چین بھیجا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ غبارے کو قریب سے دیکھنے اور یہ معلوم کرنے میں بھی مدد ملے گی کہ آیا اس میں پروپیلر یا مواصلاتی آلات جیسی خصوصیات موجود ہیں یا نہیں، جس سے اس بات کا تعین کرنے میں بھی مدد ملے گی کہ آیا اسے دور سے کنٹرول کیا جا رہا تھا یا نہیں۔

یہاں تک کہ اگر سافٹ ویئر کو نقصان پہنچا ہے یا کسی طرح مٹا دیا گیا ہے تو تفتیش کار اس کی طرف سے لی گئی نگرانی کی تصاویر کی ریزولوشن اور معیار جیسی چیزوں کا جائزہ لے سکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ نہایت حیران کن بات ہو گی کہ اگر اس پلیٹ فارم پر کوئی ایسی ٹیکنالوجی پائی گئی جس کے مقابلے میں امریکہ کے پاس پہلے سے کوئی مساوی ٹیکنالوجی نہ ہو۔ البتہ اس سے انٹیلی جنس سروسز چینی ٹیکنالوجی کی پختگی کا اندازہ لگا سکیں گے۔‘

جان ہاپکنز یونیورسٹی کے شعبۂ سول اینڈ سسٹم انجینئرنگ کے اسسٹنٹ پروفیسر گریگوری فالکو کا کہنا ہے کہ امریکہ غبارے کے ملبے میں موجود کسی بھی سینسر کو تلاش کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ ایئرکرافٹ کے مقصد کو بے نقاب کیا جا سکے۔

لیکن انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسا کرنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ مختلف قسم کے طول موج (ویولینتھ) کا پتہ لگانے والے سینسر عام طور پر چھوٹے ہوتے ہیں اور امریکی فوج کی جانب سے جاسوسی کے غبارے کو مار گرائے جانے کے بعد ہو سکتا ہے کہ انھیں نقصان پہنچا ہو۔ انہوں نے کہا کہ واقعے کی ویڈیو فوٹیج سے یہ واضح نہیں ہے کہ غبارے کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔

ڈاکٹر فالکو کا کہنا تھا کہ امریکہ کی طرح چین بھی ایک ’نہایت چالاک مخالف‘ ہے اور ہو سکتا ہے کہ جاسوسی کے مشن کے ایک حصے کے طور پر ایئرکرافٹ کو خود تباہ کرنے یا ڈیٹا کو ضائع کرنے کی منصوبہ بندی پہلے سے کر رکھی ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اسے مار گرانا کسی اور چیز سے زیادہ قومی افتخار باعث تھا کیونکہ مجھے یقین نہیں ہے کہ ہم اس سے کیا حاصل کر سکیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ غبارے کے ملبے سے حاصل ہونے والی معلومات کی مدد سے امریکی حکام کو ’اپنے دشمن کو قدرے بہتر طور پر سمجھنے‘ میں مدد مل سکتی ہے۔

ڈاکٹر فالکو نے کہا کہ امریکہ یہ جان سکتا ہے کہ غبارے کے ذریعے حاصل کردہ ڈیٹا کس طرح واپس چین بھیجا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ چین نے ’ہائبرڈ سیٹلائٹ نیٹ ورک‘ استعمال کیا ہو، جو قریب ترین مدار میں دوست سیٹلائٹ تک ڈیٹا پہنچانے کے لئے اونچائی والے پلیٹ فارم استعمال کرتا ہے۔ ڈاکٹر فالکو نے کہا کہ ایک بار جب سیٹلائٹ محفوظ علاقے میں پہنچ جاتا ہے تو یہ زمینی سٹیشن یا ایک اینٹینا سے منسلک ہوتا ہے جو کنٹرول سسٹم کے طور پر کام کرتا ہے۔

ڈاکٹر فالکو نے کہا کہ چین کے پاس ’زمینی سٹیشنوں کا ایک بہت بڑا حصہ ہے جو چین سے باہر نصب ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ جب تک یہ غبارہ کسی ایسے سیٹلائٹ سے جڑنے کے قابل ہے جو زمینی سٹیشن سے منسلک ہو، تو چین کو ’اپنے ڈیٹا تک رسائی حاصل رہے گی اور وہ تمام معلومات کو مٹا سکے گا۔

BBCUrdu.com بشکریہ