اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کی آڈیو ٹیپس ریکارڈ کرنے کی صلاحیت کس کے پاس ہے، کیا انہوں نے یہ ریلیز کی یا کسی امریکا میں بیٹھے ہوئےآدمی نے؟ روزکچھ نہ کچھ چل رہا ہوتا ہے،آپ کس کس بات کی انکوائری کرائیں گے؟ہمیں جوڈیشل ایکٹوزم میں نہیں جانا
اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکی مبینہ آڈیوٹیپ کی تحقیقات کےلیےکمیشن بنانے کی درخواست پر سماعت سماعت ہوئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں یہ درخواست صدرسندھ ہائیکورٹ بارصلاح الدین احمد اورجوڈیشل کمیشن کےممبر سید حیدرامام رضوی نے دائر کی ہے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ یہ بتا دیں کہ یہ پٹیشن قابل سماعت کیسے ہے؟ ۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدلیہ کو بڑے چیلنجزکا سامنا کرنا پڑا اور عدلیہ کی آزادی کے لیے بار نےکردارادا کیا، ہم ایسےمعاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا کسی ریگولیشن کے بغیر ہے، اس پر درخواست گزار کا کہنا تھا کہ یہی بات تکلیف دہ ہےکہ سوشل میڈیا پریہ چیز وائرل ہوئی اوراس پرڈسکشن بھی ہورہی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ روزکچھ نہ کچھ چل رہا ہوتا ہے،آپ کس کس بات کی انکوائری کرائیں گے؟ ہم پہلےاٹارنی جنرل کو پری ایڈمشن نوٹس جاری کریں گے اور اس درخواست کےقابل سماعت ہونے پر بات کریں گے، عدالت نے صرف قانون کے مطابق حقائق کو دیکھنا ہے، جوڈیشل ایکٹوزم میں نہیں جانا، عدالت نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ کوئی فلڈ گیٹ نہیں کھل جائے۔
درخواست گزار صلاح الدین احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ پاکستان بار کونسل نے قرار داد منظور کی لہٰذا عدالت مناسب سمجھے تو انہیں بھی نوٹس کردے۔
اس پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آئین و قانون کی حکمرانی کے لیے عدالت آپ کا احترام کرتی ہے، آپ کچھ آڈیو کلپس سے رنجیدہ ہیں، چیف جسٹس پاکستان کی آڈیو ٹیپس ریکارڈ کرنے کی صلاحیت کس کے پاس ہے؟ کیا انہوں نے یہ ریلیز کی یا کسی امریکا میں بیٹھے ہوئےآدمی نے؟ مبینہ آڈیو ٹیپ ایک زیر التوا اپیلوں والے کیس سے متعلق ہے، جن کے کیسز سے متعلق ٹیپ ہے انہوں نے معاملہ عدالت لانے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ فرض کریں آڈیو درست بھی ہے تو اصل کلپ کہاں اور کس کے پاس ہے؟ ایسی تحقیقات سے کل کوئی بھی کلپ لا کر کہے گا تحقیقات کریں۔
بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کو پری ایڈمشن نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔
Comments are closed.