وفاقی حکومت نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کردیا ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان متنازع ہوگئے ہیں، اس لیے وہ استعفیٰ دیں۔
انہوں نے اس دوران پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ الیکشن کا نہیں بینچ فکسنگ کا معاملہ ہے۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ الیکشن کے وہ فیصلے جو مسلط کرائے جائیں وہ ناقابل قبول ہیں، 4 ججز کے فیصلے سے پٹیشن مسترد ہوچکی، پوچھنا یہ ہے کہ جب پٹیشن ہی مسترد ہوچکی ہے تو بینچ کیسا؟
ان کا کہنا تھا کہ سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ عدالتی کارروائی متنازع ہوجائے اور خود سپریم کورٹ کے ججز نہ مانیں تو عوام کیسے مانیں؟
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے مزید کہا کہ سوال اٹھتے ہیں عدالتی سہولت کاری کیوں کی گئی؟ کیوں جھوٹ بولا گیا کہ ججز نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا، کیوں 3 رکنی بینچ میں متنازع ججز کو بٹھایا گیا؟
انہوں نے کہا کہ سوال تو یہ بھی ہے کہ چیف جسٹس صاحب ایسا بینچ کیسے تشکیل دے سکتے ہیں؟ اختیارات کا ناجائز استعمال اور آئین کی مرضی کی تشریح قبول نہیں۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ ایک آئین شکن کی سہولت کاری ہو تو یہ قابل قبول نہیں، یہ بات عیاں ہوچکی ہے عمران خان کی عمران داری ہو رہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ آج جسٹس اطہر من اللّٰہ کا دیا گیا فیصلہ بہت اہم ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ نہ بینچ سے الگ ہوئے نہ معذرت کی۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے کہا کہ اس پر فل کورٹ بنا دیں، سیاسی جماعتوں نے جانتے ہوئے کہ یہ پٹیشن مسترد ہوچکی ہے فل کورٹ بنانے کو کہا۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں کبھی بھی الیکشن سے نہیں بھاگتیں، یہ الیکشن کا معاملہ نہیں ہے، یہ بینچ فکسنگ کا معاملہ ہے۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ اس کیس کا ایک سیاسی پہلو اور ایک عدالتی پہلو ہے، آپ پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت کررہے ہیں، الیکشن کا فیصلہ پارلیمنٹ نے کرنا ہے عمران خان نے نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سوال تو یہ بھی ہے کہ عمران خان کا خط آئینی اور چوہدری شجاعت کا غیر آئینی؟ جب پٹیشن ہے ہی نہیں تو بینچ کیوں بنا اور فیصلہ کیوں آیا؟
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور صدر سے غیر آئینی کارروائی کروائی گئی، 3 رکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن جو متنازع جج ہیں انہیں بٹھادیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسد عمر کو بلا بلا کر سنا گیا، جو 13 سیاسی جماعتیں وہاں موجود تھیں ان کو نہیں سنا، پوچھنا تھا آئینی بحران کا جنم اگر سپریم کورٹ سے ہو تو اس کے فیصلے پر کون اعتماد کرے گا؟
Comments are closed.