اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی وکلاء اور اہلِ خانہ سے ملاقات کی درخواست نمٹا دی۔
کیس کی سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر نے کی۔
عدالت میں وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ سپرنٹنڈنٹ جیل نے چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کا نیا شیڈول بنایا ہے، سپرنٹنڈنٹ جیل نے نئے شیڈول میں تھوڑا ریلیف دینے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی مرضی سے ملاقات کے لیے کچھ نام شامل اور کچھ نکالے گئے، 10 وکلاء کو چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت دی گئی ہے۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ ہفتے میں 6 دن ملاقات کا کہا تھا لیکن 2 دن وکلاء اور ایک فیملی کو دیا گیا ہے، ہماری استدعا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی اہلیہ سے ملاقات کے لیے بھی 2 دن کر دیے جائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے مجھ سے ملاقات میں ایک شکوہ کیا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اہلیہ سے ملاقات میں پرائیویسی نہیں دی جاتی۔
عدالت میں جسٹس گل حسن نے کہا کہ یہ طریقے پرانے دور کے ہیں، بینظیر بھٹو اور دیگر کے ساتھ ایسا کیا جاتا تھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا کہ ملاقات کا پھر غلط استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
جسٹس گل حسن نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا شوہر اور بیوی کی ملاقات کا غلط استعمال کیا گیا؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں وکلاء کی ملاقات سے متعلق کہہ رہا ہوں۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ وکالت ناموں پر دستخط نہ کروا لیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جیل میں ملاقات کو باہر آ کر سیاسی طور پر استعمال نہ کیا جائے۔
جسٹس گل حسن نے کہا کہ ملاقات بامقصد اور بامعنی ہونی چاہیے جس میں لیگل ایڈوائس دی جائے۔
Comments are closed.