ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کےخلاف توشہ خانہ کیس میں آج کی سماعت کا 4 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے جج پر عدم اعتماد کی درخواست دائر کی گئی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ بیرسٹر گوہر نے وکلا، پولیس اور دیگر افراد کے سامنے سوشل میڈیا پوسٹس عدالت میں دکھائیں، بیرسٹر گوہر کے مطابق سوشل میڈیا پوسٹس پر چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف بغض دکھائی دیتا ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ بیرسٹر گوہر کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی اس عدالت سے انصاف کی توقع نہیں رکھتے، بیرسٹر گوہر کے مطابق سوشل میڈیا پوسٹس چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف اور نفرت پر مبنی ہیں۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ بیرسٹر گوہر علی نے ایسی صورتحال میں عدالت سے ریلیف مانگا، شکایت کنندہ وکیل کے مطابق جج کے خلاف کئی دنوں سے ٹرولنگ جاری ہے۔
عدالت نے کہا کہ شکایت کنندہ وکیل کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں، بیرسٹر گوہر نے کہا عدالت میں دکھائی گئی تمام سوشل میڈیا پوسٹس اصلی تھیں۔
حقیقت پوچھنے پر بیرسٹر گوہر نے کہا کہ انہوں نے خود جج کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پوسٹس دیکھی ہیں، عدالت کے خیال سے بیرسٹر گوہر علی کا اندازہ درست نہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ بیرسٹر گوہر علی کا رویہ قانونی اور اخلاقیات کے خلاف تھا، چیئرمین پی ٹی آئی نے عدم اعتماد کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کر رکھی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر ہائیکورٹ نے تاحال فیصلہ نہیں سنایا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ سیشن عدالت میں عدم اعتماد کی درخواست مسترد کی جاتی ہے، لاہور ہائیکورٹ پیشی کے باعث آج چیئرمین پی ٹی آئی کی حاضری سے استثنیٰ منظور کی جاتی ہے۔
شہادتوں کیلئے چیئرمین پی ٹی آئی اور گواہان ذاتی حیثیت میں 20 جولائی کو عدالت پیش ہوں، شکایت کنندہ وکیل کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی نے متعلقہ عدالت کی عزت و احترام کو ٹھیس پہنچائی۔
عدالت نے کہا کہ شکایت کنندہ وکیل کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کو بیان حلفی جمع کروانا چاہیے تھا، شکایت کنندہ وکیل نے بیرسٹر گوہر کے دوران سماعت رویے پر بھی اعتراض اٹھایا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ شکایت کنندہ وکیل کے مطابق بیرسٹر گوہر نے سب کے سامنے سوشل میڈیا پوسٹس دکھائیں، وکیل صفائی بیرسٹر گوہر کو درخواست دائر کرنے کیلئے ایک طریقہ کار اپنانا چاہیے تھا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ بیرسٹر گوہر نے سماعت کے آغاز میں ہی سب کے سامنے سوشل میڈیا پوسٹس دکھانا شروع کردیں، بیرسٹر گوہر کے رویے پر افسوس ہوا جس سے عدالت کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا۔
عدالت نے مزید کہا کہ بطور جج بیرسٹر گوہر کو روکا نہیں جاسکتا تھا کیونکہ کوئی جج اپنے مقصد کیلئے نہیں ہوتا، بیرسٹر گوہر علی قانونی اصولوں سے بھی ناواقف تھے۔
Comments are closed.