سپریم کورٹ میں ہائی پروفائل مقدمات میں حکومتی مداخلت پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب قابل اور دیانتدار شخص کو ہونا چاہیے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے ہائی پروفائل مقدمات میں حکومتی مداخلت پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس آف پاکستان، عمر عطا بندیال کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ ہائی پروفائل کیسز میں تفتیشی افسران تبدیل نہ کرنے کا عدالت کا حکم بر قرار ہے، چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے نظام سے باہر کسی کی رائے سے متاثر نہ ہوں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مشورہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ چیئرمین نیب قابل اور دیانتدار شخص کو ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کی تقرری سے متعلق احتیاط سے سوچ سمجھ کر اقدام کریں، نیب کسی پر بے بنیاد مقدمہ بنانے سے متعلق دباؤ قبول نہ کرے، اگرنیب پر دباؤ ڈالا جائے تو ہمیں چِٹھی لکھیں۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ ایسے پرانے مقدمات جن میں سزا نہیں ہوسکتی نیب خود جائزہ لے کر فیصلہ کرے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ جس کیس کو چاہیں اٹھا کر پھینک دیں، ایک منشیات کا کیس تھا جس کی ہیڈ لائن لگی تھی، تفتیشی افسر سے پوچھا تو اس نے کہا یہ بوگس کیس تھا۔
دوران سماعت ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے لاہور کا عہدہ خالی ہے، تقرری کرنا چاہتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ڈی جی ایف آئی اے اور پراسیکیوٹر نیب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہائی پروفائل مقدمات کی نقول سربمہر کر کے ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کرائیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ اس لیے ہے کہ اگر اداروں سے ریکارڈ غائب ہو تو سپریم کورٹ سے مل جائے۔
بعد ازاں عدالت کی جانب سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت 14 جون تک ملتوی کر دی گئی۔
Comments are closed.