چھ لاکھ ڈالر سے زیادہ مالیت کی ہڈیوں کا بیوپاری: ’یہ شو پیس نہیں، یہ ہڈیاں اُن لوگوں کی ہیں جو کبھی زندہ تھے‘

  • مصنف, ایلینور فنکیلستین
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 2 گھنٹے قبل

ہم اس دُنیا میں اکثر ایسے لوگوں کے بارے میں سُننے اور پڑھنے ہیں جو مختلف اقسام کی چیزیں جمع کرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ بعض کا یہ کاروبار بھی ہوتا ہے کہ وہ نایاب اور نادر یا انوکھی اشیا جمع کرتے ہیں اور بعد میں ان کے شوقین افراد کو منھ مانگے داموں فروخت کرتے ہیں۔آج جس معاملے کے بارے میں ہم آپ کے ساتھ بات کرنے جا رہے ہیں وہ ہے انسانی ہڈیوں کو جمع کرنے کا۔جی آپ نے درست پڑھا۔ ہم بات کرنے جا رہے ہیں 24 سالہ امریکی شہری جان پچیا فیری کی جن کے پاس چھ لاکھ امریکی ڈالر کی انسانی ہڈیوں کا ایک ذخیرہ موجود ہے جس کی مالیت پاکستانی روپے میں 16 کروڑ 80 لاکھ بنتی ہے۔جان اپنے اس ذخیرے سے متعلق سوشل میڈیا پر اکثر ویڈیوز بنا کر شیئر کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس میں دلچسپی رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد انھیں فالو کرتی ہے۔

بی بی سی کو بروکلین، نیو یارک میں اپنے گودام کے دورے کے دوران جان نے انسانی ہڈیوں کو جمع کرنے کی وجہ بھی بتائی اور اسی کے ساتھ انھوں نے چند دلچسپ تاریخی حقائق بھی ہمارے سامنے رکھے۔انھوں نے نہ صرف ’ذمہ دارانہ طور پر حاصل کردہ‘ انسانی باقیات کی وضاحت کی بلکہ یہ بھی بتایا کہ آرتھوپیڈک کی فیلڈ کے لیے انھیں جمع کرنے کا کیا فائدہ ہے۔

انسانی ہڈیوں کا ذخیرہ

جان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’امریکہ اور شاید دُنیا کہ کُچھ اور مُمالک میں اب بھی ایسے پرانے اور قدیم گھروں کی تعداد کافی زیادہ ہے کہ جن کے تہہ خانوں میں مکمل انسانی ڈھانچے یا کُچھ ہڈیاں موجود ہوں۔‘ تاہم وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں کے سامنے اچانک سے یہ ہڈیاں اور انسانی ڈھانچے آجاتے ہیں وہ اس بارے میں نہیں جانتے کہ ان کے ساتھ انھوں نے کیا سلوک کرنا ہے اور کس سے رابطہ کرنا ہے۔مگر جان کا ماننا ہے کہ جو ہڈیاں یا انسانی باقیات اُن کے پاس موجود ہیں وہ ملک میں انسانی باقیات کا سب سے بڑا مجموعہ ہے جس میں انھیں مناسب طریقے سے نہ صرف جمع کیا گیا ہے بلکہ انکی دیکھ بحال بھی کی جا رہی ہے۔تاریخی طور پر ایسے شواہد بھی ملتے ہیں کہ انسانی ہڈیوں کی فروخت کا کاروبار نا صرف عام تھا بلکہ بڑے پیمانے پر کیا جاتا تھا۔ تاہم یہ سلسلہ 1980 کی دہائی میں ختم ہو گیا تھا۔جان نے اپنے تہہ خانے میں موجود ہڈیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ’یہ ان لوگوں کی باقیات یا ہڈیاں ہیں جنھوں نے طبی تحقیق کے لیے اپنے جسم عطیہ کیے تھے۔ انھیں قبرستانوں یا قدیم تدفین کے مقامات سے غیر قانونی طور پر حاصل نہیں کیا گیا۔‘1980 کی دہائی تک امریکہ یا یورپ کے طبی طالب علموں اور ماہرین کو تحقیقی کام کے لیے اصل انسانی ہڈیاں خریدنے کی ضرورت ہوتی تھی لیکن آج ایسی ہزاروں انسانی ہڈیاں نیلامی کے ذریعے یا خاندانی ورثے کے طور پر بہت سے افراد کی تحویل میں ہیں۔جان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں ایک مہینے میں 30 سے 50 ای میلز آتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ای میلز جیسے، ’ہمارے دادا فوت ہوچُکے ہیں، ہمیں اُن کے پُرانے گھر کے تہہ خانے میں صفائی کے دوران ایک انسانی ڈھانچہ ملا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کے اس کے ساتھ کیا کرنا ہے، یہ انتہائی خوفناک ہے۔‘جان نے بات آگے بڑھائی اپنے تہہ خانے سے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ ’یہ وہ ہڈیاں ہیں جنھیں تیزاب کی مدد سے صاف کیا گیا ہے اور ان میں کوئی ڈی این اے نہیں ہے۔ لہذا، انھیں ڈی این اے مطالعہ کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا، اور ایک بات اور اہم یہ بھی ہے کہ انھیں دفن کرنا بھی قانون کے تحت جرم ہے۔‘امریکہ میں زیادہ تر طبی عجائب گھر بڑی مقدار میں انسانی ہڈیوں کو سنبھالنے کے لئے ڈیزائن نہیں کیے گئے ہیں، لہذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا کیا جائے جن کے پاس انسانی ہڈیاں ہیں۔

انسانی جسم کی چوری میں سنگین حد تک ہونے والا اضافہ

انسانی ہڈیوں کے بارے میں مزید جاننے سے پہلے، ہمیں طب کی تاریخ کے ایک عجیب بات کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے۔امریکہ اور یورپ میں، 17 ویں اور 18 ویں صدی کے دوران، تعلیمی غرض سے انسانی جسم اور ہڈیوں کی بہت زیادہ مانگ تھی۔ اس کے نتیجے میں متعدد ایسے واقعات بھی ہوئے کہ جہاں قبروں سے لاشوں کی چوری کی بہت سے واقعات ہوئے۔ اس کی روک تھام کے لئے متعدد قوانین منظور کیے گئے۔ ان میں سے ایک 1751 کا ’ہومیسائڈ ایکٹ‘ بھی تھا۔جان کہتے ہیں کہ ’اگر کسی شخص کو قتل کا مجرم پایا جاتا ہے تو اس کی لاش کو طبی جانچ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پھر بھی انسانی باقیات کی مانگ کم نہیں ہوئی۔ جیسے جیسے حالات بگڑتے گئے، قبروں کو لوہے کی باڑ اور پنجروں کی چاردواری میں بنایا جانے لگا کہ کوئی قبر میں سے کسی کی لعش کو نا نکالے۔‘1832 کے اناٹومی ایکٹ نے مردہ انسانی لاشوں کو طبی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی۔ اگر کوئی جیلوں، فیکٹریوں اور ہسپتالوں میں 48 گھنٹوں سے زیادہ لاشیں لینے نہیں آتا تھا تو لاشوں کو طبی کی غرض سے استعمال کرنے کے لیے دے دیا جاتا تھا۔مرنے والوں کی لاشوں کو طبی تحقیق کے لیے عطیہ کرنے کی بھی اجازت دی گئی۔

انڈیا سے بچوں کی لاشیں برآمد ہونے کا معاملہ

جان کہتے ہیں کہ ’ہڈیوں کا کاروبار 1800 کی دہائی میں شروع ہوا اور 1920 سے 1984 تک بڑے پیمانے پر ہوا۔‘اس طرح ہڈیوں کی تجارت پوری دنیا میں پھیلنے لگی۔ 1950 کی دہائی میں انڈیا ہڈیوں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ تھا۔جان کہتے ہیں کہ ’بہت سے طبی اداروں نے اس وقت کہا تھا کہ اگر آپ اپنے رشتہ داروں کی لاشیں طبی تحقیق کے لیے عطیہ کرتے ہیں تو یا تو ہم ان کی آخری رسومات کا خرچ برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں یا ایک مخصوص رقم آپ کو دی جا سکتی ہے۔ اس سے بہت الجھن پیدا ہوئی اور بہت سارے جرائم ہونے لگے۔‘مارچ 1985 میں انڈیا میں ایک چونکا دینے والی خبر سامنے آئی جس کی وجہ سے عالمی سطح پر اس کاروبار میں بڑی گراوٹ آئی۔جان نے بتایا کہ ’انڈیا میں ہڈیوں کے ایک تاجر کے گودام سے 1500 بچوں کے ڈھانچے ملے۔ اس لیے پورے ملک میں اس عمل پر پابندی لگا دی گئی۔‘انڈیا میں پابندی کی وجہ سے طبی اداروں کی جانب سے مصنوعی ہڈیوں کا استعمال شروع ہوا۔ آج ہڈیوں کا کاروبار دوبارہ شروع ہوا ہے۔ لوزیانا، ٹینیسی اور جارجیا کے علاوہ امریکہ میں تمام ریاستوں میں لوگوں کو انسانی ہڈیاں فروخت کرنے کی اجازت ہے۔جان کہتے ہیں کہ ’ہم عوام کو ہڈیاں فروخت نہیں کرتے۔ سکول اور یونیورسٹیاں ہمارے اہم گاہک ہیں، اور سرچ اینڈ ریسکیو ٹیمیں ہماری دوسری سب سے بڑی گاہک ہیں۔وہ ہم سے ہڈیاں خریدتے ہیں اور ان کا استعمال سراغ رساں کتوں کو لاشوں کا پتہ لگانے کی تربیت دینے کے لیے کرتے ہیں۔ سراغ رساں کتے ان ہڈیوں کے ذریعے انسانی باقیات کی بو سونگھ سکتے ہیں۔اپنے سوشل میڈیا پیجز کے ذریعے جان انسانی ہڈیوں کے بارے میں لوگوں کے تصور کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جان کہتے ہیں کہ ’یہ صرف شو پیس نہیں ہیں۔ یہ ہم جیسے لوگوں کی ہڈیاں ہیں، جو کبھی زندہ تھے۔ اس لیے ان کے ساتھ عزت اور وقار کے ساتھ برتاؤ کیا جانا چاہیے۔ ہم ان کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}