ہینری اور ولیم کا فرار: دو بھائی جو نازی قبضے سے 56 گھنٹے تک کشتی میں سفر کر کے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے
- لارینس کاؤلی
- بی بی سی نیوز
ہینری پیٹیری کالج سے کشتی رانی کر رہے تھے اور اُنھوں نے دیگر ڈچ لوگوں کے بارے میں سُن رکھا تھا جو کشتی میں بیٹھ کر برطانیہ فرار ہوئے تھے
جب بھی نیلز پیٹیری کبھی ساحل پر جاتے ہیں تو وہ اپنے والد ہینری کو یاد کرتے ہیں۔
وہ اُن ‘اینگل واردرز’ میں سے تھے جو 21 ستمبر 1941 کو نازی قبضے میں موجود نیدرلینڈز سے کسی نہ کسی طرح بحیرہ شمالی کو عبور کر کے برطانیہ پہنچے تھے۔
اینگل واردرز کا نام نازیوں کی جانب سے نیدرلینڈز کے اُن لوگوں کو دیا جاتا تھا جو بحیرہ شمالی عبور کر کے برطانیہ فرار ہو جاتے تھے۔
نیلز پیٹیری لڑکپن میں تھے جب اُنھیں پہلی مرتبہ اپنے والد کے بحیرہ شمالی میں 56 گھنٹے کے خطرناک سفر کے بارے میں معلوم ہوا تھا۔
اپنی نسل کے زیادہ تر لوگوں کی طرح ہینری پیٹیری نے دوسری عالمی جنگ یا اُس میں اپنے کردار کے بارے میں کم ہی بات کی تھی۔
اس فرار کے 80 سال بعد اب نیلز بتا رہے ہیں کہ کیسے اُنھیں ایک مرتبہ یہ پوری کہانی سنائی گئی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ ناخوشگوار شروعاتوں، بھائی چارے اور بے مثال بہادری کی کہانی ہے۔
‘اُنھیں لگا کہ یہی وہ دن ہے’
ہینری اینگل واردرز میں سے بچ جانے والے آخری فرد تھے اور اُن کی وفات 2007 میں ہوئی
ہینری پیٹیری کالج کے دنوں سے ہی کشتی رانی کرتے رہے تھے۔
اُنھوں نے دیگر ولندیزی (ڈچ) لوگوں کے بارے میں سنا جو مچھلی پکڑنے والی کشتیوں کے ذریعے برطانیہ فرار ہوئے تھے۔
اُنھیں یہ بھی معلوم تھا کہ کئی لوگ ساحل تک پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار ہو گئے تھے یا کچھ لوگ نازی کشتیوں کی جانب سے اُن کی کشتیاں ڈبوئے جانے پر ہلاک ہو گئے تھے۔
مگر اُنھوں نے اُن لوگوں کے بارے میں بھی سنا تھا جو صرف کینو کشتیوں کے ذریعے سکینڈینیویائی ممالک سے برطانیہ پہنچے تھے۔
اُنھوں نے سوچا کہ کیا وہ بھی مچھلی پکڑنے والی کشتیوں سے چھوٹی کسی کشتی میں بحیرہ شمالی عبور کر سکتے ہیں؟
ہینری نے اپنے بھائی ولیم کو اس بات پر قائل کر لیا۔
اُنھوں نے ڈچ بندرگاہی شہر روٹرڈیم میں ایک جرمن ساختہ کیاک کشتی خریدی جو تہہ ہو سکتی تھی۔
اس کے بعد وہ کاتویک نامی ایک قصبے گئے جہاں وہ ایک گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے تھے۔
وہ دونوں اس قصبے کو اچھی طرح جانتے تھے کیونکہ وہ وہاں پہلے چھٹیاں منانے کے لیے آ چکے تھے۔
ایک رات دونوں بھائیوں نے کیاک کے پرزے جوڑنے شروع کیے۔
اینگل واردرز کون تھے؟
دوسری عالمی جنگ کے دوران دو ہزار سے زائد مرد و خواتین نیدرلینڈز سے برطانیہ آئے تھے جن میں سے 1700 کے قریب نے یہ سفر سمندری راستے سے کیا۔
کئی دیگر افراد اس کوشش میں یا ڈوب گئے، گرفتار ہوئے، قید میں گئے یا پھر اُنھیں گولی مار دی گئی۔
برطانیہ پہنچنے والوں میں سے کئی نے برطانوی یا ڈچ مسلح افواج یا کمرشل جہاز رانی میں شمولیت اختیار کر لی یا پھر حکومت کے لیے کام کرنے لگے۔
سو سے زیادہ اینگل واردرز یعنی ‘انگلیڈ کے مسافر’ واپس خفیہ ایجنٹوں کے طور پر واپس نازیوں کے زیرِ قبضہ نیدرلینڈز گئے۔ ان میں سے تقریباً نصف گرفتار ہوئے۔
نیلز پیٹیری جب بھی ساحل پر جاتے ہیں تو اُنھیں اپنے والد کا سفر یاد آتا ہے
نیلز کہتے ہیں: ‘میرے والد نے کھڑکی سے باہر دیکھا اور سوچا کہ یہی وہ دن ہے۔’
‘وہ نہیں چاہتے تھے کہ راتیں مختصر ہو جائیں اسی لیے اُنھوں نے سوچا کہ یہ اُن کے پاس آخری موقع تھا۔ یہ ‘اب یا کبھی نہیں’ والی بات تھی۔
مگر نیلز کہتے ہیں کہ اُن کے سامنے ایک غیر متوقع مشکل کھڑی تھی۔
‘جب اُنھوں نے اپنی کیاک کے پرزے جوڑ لیے تو اُنھیں احساس ہوا کہ ایک پرزہ موجود نہیں تھا۔ پھر اُنھوں نے اسے دوبارہ کھولا اور پھر تمام پرزے لگائے۔ اس مرتبہ تمام پرزے اپنی جگہ پر ٹھیک بیٹھے۔’
‘ہوا مشرق سے چل رہی تھی اور پانی پرسکون تھا۔ چنانچہ وہ نکل پڑے۔’
ہینری پیٹیری نے روٹرڈیم کی ایک دکان سے جرمن ساختہ کیاک خریدی تھی
اصل میں وہ دو مرتبہ نکلے۔
‘جب اُنھوں نے نیدرلینڈز چھوڑا تو فوراً ہی اُن کی کشتی الٹ گئی اور ان کے دو میں سے ایک قطب نما گم ہو گیا۔’
مگر اس دوسری ناکامی کے باوجود ہینری نے ولیم کو سفر جاری رکھنے پر آمادہ کر لیا۔
‘گارڈ سے پوچھا کیا وہ یہاں رک سکتے ہیں’
دو دن سے زیادہ کے سفر کے بعد اُنھیں علم ہوا کہ وہ انگلینڈ کے قصبے سائزویل پہنچ چکے ہیں
تقریباً 56 گھنٹے بعد دونوں بھائیوں نے پانی میں تیرتا ہوا ایک بوائے یا پیراک پیپا دیکھا جس پر سائزویل لکھا ہوا تھا۔
سائزویل جنوبی برطانیہ میں سفوک ساحل پر واقع ایک چھوٹے سے قصبے کا نام ہے۔
اس وقت اُنھیں احساس ہوا کہ وہ انگلینڈ پہنچ چکے ہیں اور پھر وہ ساحل کے ساتھ ساتھ کشتی چلاتے رہے۔
نیلز کہتے ہیں: اُنھوں نے جو پہلا شخص وہاں دیکھا، وہ ایک باوردی پولیس اہلکار تھا۔ میرے والد نے مجھے بتایا کہ اُنھوں نے چِلّا کر اُن اہلکار سے پوچھا کہ کیا وہ یہاں رک سکتے ہیں۔’
ہینری اجازت مانگتے ہوئے شائستہ تو تھے لیکن وہ یہ بھی یقین کر لینا چاہتے تھے کہ کہیں وہ مشکل میں نہ گھر جائیں۔
‘پولیس اہلکار نے کہا ‘کیوں نہیں’، اور پھر وہ سفوک میں لائسٹن پولیس سٹیشن پہنچ گئے۔
اس جنگ کے دوران 32 لوگوں کے بارے میں علم ہے کہ وہ نیدرلینڈز سے کیاک کے ذریعے انگلینڈ پہنچے تھے۔
اُن میں سے صرف آٹھ ہی یہ سفر مکمل کر پائے اور ان آٹھ میں سے بھی جنگ کے اختتام تک صرف تین افراد ہی زندہ بچ پائے۔
ہینری بچ جانے والے آخری شخص تھے اور اُن کی وفات 2007 میں ہوئی۔
نیلز کہتے ہیں: ‘میں جب بھی ساحل پر جاتا ہوں تو اُن کے تجربات کے بارے میں سوچتا ہوں۔ ایسا کرنے کا خیال بھی کافی خوفناک ہے۔’
’وہ بہت خوش قسمت تھے‘
ہینری نے جنگ کا باقی عرصہ ایک ڈچ بحری جہاز پر گزارا جس کا کام سمندروں میں تجارتی جہازوں کی حفاظت تھا
‘میرے والد نے ایک مرتبہ مجھے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ اُنھیں برطانوی جیل میں پہلی رات گزار کر بھی آزادی کا ایسا احساس ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔’
جب برطانوی حکام نے اُن کا جائزہ لے کر اُنھیں چھوڑ دیا گیا تو ہینری اُن لوگوں میں سے تھے جو نیدرلینڈز سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے اور جنھیں جنگ کے دوران لندن فرار ہو کر یہاں سے اپنی حکومت چلانے والی ڈچ ملکہ ولہیلمینا نے اُن کا خیر مقدم کیا۔
جنگ کے باقی عرصے میں وہ ولندیزی بحریہ میں افسر رہے اور اُنھیں جیکب وان ہیمسکرک نامی بحری جہاز پر تعینات کیا گیا جو بحیرہ روم، بحرِ اٹلانٹک اور بحرالکاہل میں تجارتی جہازوں کی حفاظت کے لیے مامور تھا۔
نیلز کہتے ہیں: ‘وہ بہت خوش قسمت تھے۔ اُن پر بہت حملے ہوئے تھے لیکن انجن کے مسائل کی وجہ سے وہ معرکہِ بحیرہ جاوا میں شکست کھا گئے جہاں پورے ولندیزی بحری بیڑے کو جاپانیوں نے تباہ کر دیا تھا۔’
ہینری کو جنگ میں خدمات کے لیے دو مرتبہ اعزازات سے نوازا گیا۔
ولیم اس کشتی میں تھے جو جرمن حملے کے باعث ڈوب گئی تھی تاہم وہ بچ جانے میں کامیاب رہے
جرمن حملہ
نیلز کے مطابق اُن کے ‘چچا اتنے خوش قسمت نہیں رہے۔`
ولیم رائل نیدرلینڈز نیوی میں شمولیت کے انتظار میں ڈچ ساحل سے دور ایک برطانوی کشتی میں رات گزار رہے تھے جب جرمنز نے حملہ کر کے اُن کی کشتی ڈبو دی۔
‘تین اکتوبر 1942 کو میرے والد کو ایک مختصر سا ٹیلیگرام موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا: ‘ایڈمرل نہایت افسوس یہ اعلان کرتے ہیں کہ ایم جی بی 78 ایک حملہ آور گشت سے واپس نہیں آیا ہے۔’
نیلز کہتے ہیں: ‘ہینری کو لگا کہ اُن کے والد کو جرمنز نے یا مار دیا ہے، یا وہ گم ہو گئے ہیں یا ڈوب گئے ہیں۔’
اُن کے والد کو خاص طور پر ولیم کی فکر تھی کیونکہ وہ جہاز پر سویلین کپڑوں میں ملبوس تھے اس لیے ‘اُن کے ساتھ جاسوس والا سلوک ہونا تھا۔’
مگر ولیم گولیوں کی بوچھاڑ اور جہاز کے ڈوبنے سے زندہ بچ گئے اور ڈچ صوبے زی لینڈ پہنچ گئے۔
اُنھیں جرمن دارالحکومت برلن منتقل کر دیا گیا جہاں اُنھیں ایک کھولی میں تین ہفتوں تک رکھا گیا اور پھر بالآخر شمالی جرمنی میں لیوبیک نامی ایک جرمن کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔
ولیم نے جنگ کا باقی عرصہ وہیں گزارا۔
مؤجد کے طور پر کریئر
یونی لیور میں عرصہ دراز تک کام کرنے کے بعد ہینری پیٹیری مؤجد بن گئے
سنہ 1946 میں ہینری نیدرلینڈز واپس چلے گئے اور ستّر کی دہائی تک وہ یونی لیور کے ساتھ کام کرتے رہے۔ پھر چھ بچوں کے والد کے طور پر اُنھوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ تھک چکے ہیں اور بطور مؤجد اپنا کام شروع کر دیا۔
اُن کا مقصد ایسا آلہ ایجاد کرنا تھا جس سے لوگ فوراً ابلتا ہوا پانی حاصل کر سکیں۔
دس سالہ نیلز نے اپنے والد کو خاندانی تہہ خانے میں کام کرتے ہوئے دیکھا اور اُن کی بھی اس منصوبے میں دلچسپی پیدا ہونے لگی۔
کئی سال بعد یہ پراجیکٹ قیوکر ڈیوائس کے طور پر نمایاں ہونے والا تھا۔
سنہ 1992 میں پہلا قیوکر نلکا مارکیٹ میں دستیاب ہوا اور سنہ 2000 تک یہ نیدرلینڈز میں ایک مقبولِ عام گھریلو آلہ بن چکا تھا۔
کمپنی اب ہر سال تین لاکھ قیوکر بناتی ہے اور یورپ و ایشیا میں اس کے 10 ہزار سے زائد ڈسٹری بیوٹرز اور متعدد ذیلی کمپنیاں ہیں۔
پیٹیری کا مقصد ایسا نکلا ایجاد کرنا تھا جس سے فوری طور پر ابلتا ہوا پانی حاصل کیا جا سکے
جب اُن سے پوچھا گیا کہ اُنھیں اپنے والد کے ساتھ کام کرنا کیسا لگا تو نیلز نے کہا کہ ہینری اُنھیں ہمیشہ اپنی ‘توانائی اور قابلیت’ سے فائدہ اٹھانے کے لیے کہا کرتے تھے۔
نیلز کے مطابق کئی سال ساتھ کام کرنے کے باوجود ایک مرتبہ بھی اُن کے درمیان تلخ کلامی نہیں ہوئی تھی۔
‘میرے والد کہتے تھے کہ ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اُن کا، نیلز کا اور نیلز کے چھوٹے بھائی والٹر کا کبھی بھی تنازع نہیں ہوا تھا۔’
وہ کہتے ہیں کہ ‘میرے والد نہ صرف ایک بہادر شخص تھے بلکہ ایک غیر معمولی شخص بھی تھے۔’
اسّی سال قبل کے اس سفر کو اب بھی سفوک کے اس چھوٹے سے قصبے میں یاد رکھا جاتا ہے جہاں یہ بھائی سب سے پہلے پہنچے تھے۔
سائزویل میں ایک چھوٹی سی یادگار
یہ تختیاں دونوں بھائیوں اور اس فرار کی کوشش کرنے والے تمام افراد کی یاد میں لگائی گئی ہیں
یہاں پر تین یادگاری تختیاں نصب ہیں۔
دو تختیاں دونوں بھائیوں کے لیے ہیں جبکہ ٹوٹی ہوئی تیسری تختی اُن لوگوں کی یاد میں ہے جو اس سفر میں بچ نہیں پائے۔
نیلز کہتے ہیں: ‘اس کے علاوہ وہ مکمل کیاک بھی اُس کمپنی میں نمائش کے لیے موجود ہے جس کی بنیاد میں نے اور میرے والد نے رکھی تھی۔’
‘اس کا مقصد اُن لوگوں کی یاد زندہ رکھنا ہے جنھوں نے یہ کوشش کی، قطع نظر اس کے کہ وہ کامیاب ہوئے یا نہیں۔’
Comments are closed.