چوٹی کی چوری: سوئٹزرلینڈ میں پُرخطر راستوں سے گزر کر چوروں نے عطیات لوٹ لیے

وادیوں سے گزرنے کے لیے کیبلز لگائے گئے ہیں

،تصویر کا ذریعہFACEBOOK/VIAFERRATA-LEUKERBAD

،تصویر کا کیپشن

وادیوں سے گزرنے کے لیے کیبلز لگائے گئے ہیں

  • مصنف, ایموجن فاکیز
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، جنیوا

چوروں نے سوئٹزرلینڈ کے سب سے مشکل لیکن قدرے محفوظ چڑھائی والے راستوں میں سے ایک کو سر کر لیا ہے۔

انھوں نے عطیات کے ایک صندوق کو چرانے کے لیے 2,350 میٹر بلندی تک کوہ پیمائی کی۔ چوری کے لیے یہ چور سٹیل کی تاروں پر چلتے ہوئے انتہائی پُرخطر گھاٹیوں سے گزرے۔

واضح رہے کہ یہ صندوق ایک مقامی کوہ پیما کلب کا ہے۔ یہ کلب لوکرباد گاؤں کے اوپر جیمی درے پر سوئٹزرلینڈ کے سب سے طویل محفوظ چڑھنے والے راستے کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

سب سے زیادہ جس چیز نے لوگوں کو حیران کیا وہ یہ ہے کہ اس عطیہ کے صندوق یا بکسے تک صرف سب سے زیادہ تجربہ کار کوہ پیماؤں کی رسائی تھی۔

اس راستے کو ویا فیراٹا کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کی درجہ بندی درجہ 5 کے طور پر کی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مشکل ترین راستوں میں سے ایک ہے۔ اس میں مشکل چڑھائی کے ساتھ ساتھ عمودی چڑھائی بھی ہے، جس میں چٹانوں پر زینہ بناتی ہوئی بڑی بڑی کیلیں لگی ہوئی ہیں جبکہ گھاٹیوں سے گزرنے کے لیے پتلے سٹیل کے کیبلز لگے ہیں۔ ان تمام چیلنجز کے ساتھ وہاں تک پہنچنا مشکل ترین عمل ہے۔

کلب نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا کہ ’آخر یہ کس قسم کے لوگ ہیں؟‘

کلب نے مزید لکھا: ’کلائمبنگ کلب بغیر کسی تنخواہ کے ویا فیراٹا کی دیکھ بھال کرتا ہے، ہم کسی سے کچھ نہیں مانگتے، اور اب کسی نے اس کی دیکھ بھال کرنے کے لیے عطیہ کی گئی رقم بھی چوری کر لی ہے۔‘

جن لوگوں کو اس چوری کا پتہ لگا انھوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ اس کی پہلے سے اچھی طرح منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

ڈونیشن باکس ٹوٹا ہوا اور خالی پایا گیا۔ کوہ پیمائی کے کلب نے بتایا کہ چور نہ صرف اچھے کوہ پیما تھے بلکہ وہ کوہ پیمائی کے تمام ضروری کٹ سے لیس تھے۔ وہ اپنے ساتھ ایسے اوزار بھی لیے ہوئے تھے جس سے وہ عطیہ کے صندوق کو ’وحشیانہ طاقت کے ساتھ‘ کھول سکیں۔

ڈونیشن باکس

،تصویر کا ذریعہFACEBOOK/VIAFERRATA-LEUKERBAD.CH

،تصویر کا کیپشن

ڈونیشن باکس

چوری کے بعد وہ آگے کی چڑھائی کرتے رہے‘

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

مزید حیران کن بات یہ نظر آتی ہے کہ اس کے بعد وہ سب رقم کے ساتھ 2941 میٹر کی بلندی پر ڈوبر ہورن چوٹی تک کوہ پیمائی کرتے رہے۔

کس نے یہ چوری کی ہوگی، یہ معلوم کرنا اگرچہ مشکل ہو سکتا ہے لیکن پچھلے کچھ دنوں کا موسم کوہ پیمائی کے لیے بہترین رہا ہے اور بہت سے کوہ پیما ویا فیراٹا میں کوہ پیمائی سے لطف اندوز ہو تے رہے ہیں۔

کوہ پیما کلب کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ کتنی رقم چوری ہوئی ہے۔ لیکن کلب کے رکن اور پہاڑی رہنما رچرڈ ورلن نے بی بی سی کو بتایا کہ اس میں از کم 400-500 سوئس فرانک یا 450 سے 560 امریکی ڈالر تک ہو سکتے تھے۔

سوئٹزرلینڈ اب بھی ایک ایسا ملک ہے جہاں نقد رقم کا استعمال مستقل بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سوئس باشندوں کو پیدل سفر کے راستوں اور چڑھائی والے راستوں کو برقرار رکھنے کے اپنے رضاکارانہ کام پر فخر ہے۔ اس طرح کی کوششوں کے لیے عطیہ کی توقع کی جاتی ہے، اور آبادی کے بڑے حصے کی جانب سے یہ عطیے بخوشی دیے جاتے ہیں۔

لیکن اب کوہ پیما کلب جیسی تنظیمیں اس بات پر غور کر سکتی ہیں کہ کیا انھیں عطیات لینے کے طریقے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

سوئٹزرلینڈ میں کیش کے وسیع پیمانے پر رواج کی وجہ سے پہلے ہی لوٹ مار کا سلسلہ نظر آتا ہے اور یہ ڈکیتیاں محفوظ اے ٹی ایم مشینوں سے بھی ہو رہی ہیں۔

پچھلے تین سالوں میں لاکھوں فرانک چوری کر لیے گئے ہیں اور اسی وجہ سے سوئس فیڈرل پولیس نے خبردار کیا ہے کہ باقاعدگی سے بھری جانے والی اور اکثر ناقص نگرانی والی مشینیں یورپ بھر سے چوروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔

ان سب کے درمیان کوہ پیما کلب کو امید ہے کہ جس نے بھی رقم چوری کی ہے اس کا ضمیر ’احساس جرم‘ سے جاگے گا اور وہ خاموشی سے پیسے واپس کر دے گا۔

بہرحال رچرڈ ورلن نے ایک تسلی بخش خبر دی ہے کہ آج صبح ہی ایک مقامی محسن نے چوری شدہ عطیات کے بدلے 500 فرانک بھیجے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ