چندریان 3: تاریخی خلائی مشن چاند سے قریب تر اور روس سے وہ ’سپیس ریس‘ جس پر سب کی نظریں ہیں
چندریان-3 سے بھیجی گئی تصاویر کی ایک سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ چاند کی سطح پر موجود گڑھے خلائی جہاز کے قریب آتے ہوئے مزید بڑے اور واضح ہوتے جا رہے ہیں۔
- مصنف, گیتا پانڈے
- عہدہ, بی بی سی نیوز، دہلی
انڈیا کا تیسرا قمری مشن چاند کے چھوٹے سے دریافت شدہ قطب جنوبی کے قریب ہے، جہاں سے اب اس کے مشن میں 23 اگست کو ایک لینڈر اور روور کو چاند کی سطح پر اتارنا شامل ہے۔
جمعرات کو لینڈر پروپلشن ماڈیول سے الگ ہو گیا جو بعد میں اسے چاند کے قریب لے گیا جہاں سے اب مشن کے آخری مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے۔
تاہم چندریان 3، قطب جنوبی پر اترنے والا پہلا سپیس مشن نہیں ہو گا، اسے حریف روسی سپیس مشن شکست بھی دے سکتا ہے۔
لونا-25 جسے گذشتہ ہفتے لانچ کیا گیا تھا کے بارے میں یہ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ یہ اپنے مقررہ وقت سے ایک یا دو دن پہلے چاند پر اُتر جائے گا۔
تقریباً نصف صدی یعنی 1976 کے بعد یہ روس کا چاند پر بھیجا جانے والا پہلا مشن ہے جو اگر 21 یا 22 اگست کو اسی مقام پر اُترنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو چندریان تھری اس مقام پر اُترنے والا پہلا نہیں بلکہ دوسرا مشن ہو گا۔
تاہم اس ’منی سپیس ریس‘ کے باوجود انڈیا دراصل امریکہ، سابقہ سوویت یونین اور چین کے بعد چاند پر کامیابی سے اترنے والا چوتھا ملک بنے گا۔
روسی خلائی ایجنسی روسکوموس نے اعلان کیا کہ روس نے لونا-25 کو 10 اگست کو لانچ کیا لیکن اس سے منسلک انتہائی طاقتور سویوز راکٹ کی مدد سے یہ زمین کی کشش ثقل سے نکل کر بدھ کو چاند کے مدار میں داخل ہو گیا۔
چندریان تھری کو 14جولائی کو لانچ کیا گیا تھا لیکن اس نے چاند کے مدار میں داخل ہونے سے پہلے زمین کے گرد چند چکر لگائے جس کے بعد یہ پانچ اگست کو چاند کے مدار میں داخل ہونے میں کامیاب ہوا۔
چندریان تھری اُس وقت سے لے کر اب تک چاند کے گرد چکر لگا رہا ہے اور اسی دوران یہ چاند پر اُترنے کی تیاری بھی کر رہا ہے۔
چاند کے لیے روانہ ہونے والے ان دو مشنوں کو بہت سے لوگ اب ’منی سپیس ریس‘ یعنی خلائی دوڑ کا نام بھی دے رہے ہیں۔
تاہم انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ کوئی دوڑ نہیں ہے بلکہ یہ دونوں ممالک کے درمیان چاند پر ایک نیا ’میٹنگ پوائنٹ‘ ہو گا۔
اسرو کے ترجمان نے بتایا کے ’اسرو 1960 کی دہائی میں اپنے قیام کے آغاز کے پہلے ہی دن سے کبھی بھی کسی دوڑ میں شامل نہیں رہا۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم نے خلائی جہاز کی تیاری اور چاند کی دوسری جانب پہنچنے کے لیے دستیاب وسائل کی بنیاد پر اس مشن کی منصوبہ بندی کی۔
’تاہم ایسا ہی لونا-25 نے بھی کیا جس کی منصوبہ بندی بھی بہت پہلے کی گئی تھی۔ اس کے لیے بھی کچھ نہ کچھ غور و فکر کیا گیا ہو گا جس کے بارے میں میں نہیں جانتا۔‘
،تصویر کا ذریعہISRO
چندریان تھری چاند تک کیسے پہنچا
چندریان تھری انڈیا کی جانب سے چاند پر تحقیق کی غرض سے بھیجا جانے والا تیسرا خلائی مشن ہے اور اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ اس سے قبل بھیجے جانے والے دو مشنز کی کامیابیوں کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے۔
یہ انڈیا کا تیسرا مشن ہے جسے ملک کے پہلے چاند پر جانے کے مشن کے 13 سال بعد بھیجا گیا ہے۔ اس سے قبل 2008 میں چاند کی جانب ملک کا پہلا مشن بھیجا گیا تھا جس نے چاند کی سطح پر پانی کے مالیکیولز کی موجودگی کو دریافت کیا اور یہ ثابت کیا کہ چاند کی سطح پر دن کے وقت ایک ماحول ہوتا ہے۔
اس سے قبل انڈیا نے چندریان ٹو نامی ایک مشن جولائی 2019 میں چاند کی جانب بھیجا تھا جس میں ایک آربیٹر، چاند گاڑی اور روور شامل تھا۔
اس مشن کو جزوی کامیابی مل سکی تھی کیونکہ اس مشن میں شامل آربیٹر آج بھی چاند کے مدار میں موجود ہے جو روزانہ کی بنیاد پر چاند کی جانچ کر رہا ہے مگر چاند کی سطح پر کامیابی سے اترنے کی کوشش میں اس کی چاند گاڑی اور روور اس وقت تباہ ہو گیا تھا۔
انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) کے سربراہ سریدھرا پنیکر سوماناتھ نے کہا ہے کہ انھوں نے اس کے حادثے سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کا بغور مطالعہ کیا ہے اور چندریان تھری میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے لیے سمیولیشن پر مبنی مشقیں کی ہیں۔ چندریان تھری کا وزن 3900 کلوگرام ہے اور اس پر 6.1 ارب روپے لاگت آئی ہے۔
چندریان تھری میں موجود چاند گاڑی جس کا نام اسرو کے بانی کے نام وکرم سے منسوب کیا گیا تھا، کا وزن 1500 کلوگرام ہے اور اس میں موجود پرگیان نامی روور 26 کلو کا ہے۔ پرگیان سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنی دانشمندی کے ہیں۔
اب جب کہ خلائی جہاز چندریان تھری چاند کے مدار میں داخل ہو چکا ہے اور چاند کے بہت قریب ہے تو ایسے میں سائنسدان راکٹ کی رفتار کو بتدریج کم کر رہے ہیں تاکہ اسے ایک ایسے مقام پر لایا جا سکے جو وکرم کے لیے چاند کی سطح پر کامیاب لینڈنگ کو ممکن بنا سکے۔
انڈیا کے پہلے مشن کے سربراہ میلسوامی انادورائی نے بی بی سی کو بتایا کہ جمعرات کو پروپلشن ماڈیول سے علیحدگی کے بعد، لینڈر ماڈیول اگلے چند دنوں میں دو ایسے مراحل سے گزرے گا جو اسے چاند کے مزید قریب لانے میں مددگر ثابت ہوں گے۔
ایک مرتبہ جب یہ سب ہو جائے گا اور چندریان تھری چاند پر اُترنے میں کامیاب ہو جائے گا تو اس کے گرد اڑنے والی دھول کو واپس بیٹھنے میں چند گھنٹے لگیں گے۔
جس کے بعد اس خلائی مشن سے چھ پہیوں والی ایک گاڑی چاند کی سطح پر اُترے گی اور وہاں موجود چٹانوں اور گڑھوں کے گرد گھومے گی، اس دوران وہ جمع کیے جانے والے اہم ڈیٹا اور تصاویر کو واپس زمین پر تجزیے کے لیے بھیجے گی۔
چاند کی سطر پر اُترنے والی یہ گاڑی ایسے آلات لے کر جا رہی ہے جو چاند کی سطح کی خصوصیات، سطح کے قریب کے ماحول اور سطح کے نیچے کیا ہو رہا ہے اس کا مطالعہ کرنے کے لیے ’ٹیکٹونک ایکٹوٹی‘ کے بارے میں معلومات جمع کرے گی۔
چاند کا جنوبی قطب اب بھی بڑی حد تک غیر دریافت شدہ ہے۔ چاند کا وہ حصہ جو مستقل طور پر سائے میں رہتا ہے یعنی شمالی قطب اس کے جنوبی حصہ سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ سائنسدانوں کا اس حصہ کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ اس بات کے غالب امکانات ہیں کہ چاند کا جو حصہ سائے میں ہے وہاں پانی کی موجودگی کے آثار ملیں۔
انڈیا کے چندریان-3 اور روس کے لونا-25 دونوں کا چاند کے اس حصے کی جانب جانے اور چاند کی سطح کا مشاہدہ کرنے کے سب سے اہم ترین مقاصد اور اہداف میں سے ایک پانی کی موجودگی کا پتہ چلانا ہے اور ان معلومات کے سامنے آنے کے بعد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں چاند پر انسانوں کی آبادکاری کہ امکانات قوی ہو سکتے ہیں۔
دوسرا بڑا اور اہم مقصد یہ کہ اس مقام پر ایک ایسا ایندھن کا مرکز قائم کیا جا سکے جو چاند سے آگے مریخ اور دیگر دور دراز سیاروں پر تحقیق کے لیے جانے والے خلائی جہازوں کو مدد فراہم کر سکے گا۔
Comments are closed.