چمچہ، موسیقی اور نقلی سر: جزیرے پر واقع امریکی جیل سے ’ناقابل فہم‘ فرار جو 62 سال بعد بھی ایک معمہ ہے
- مصنف, مائلز برک
- عہدہ, بی بی سی کلچر
- ایک گھنٹہ قبل
12 جون 1962 کو تین قیدی امریکہ کی الکیٹراز جیل سے فرار ہوئے اور پھر کبھی نہیں ملے۔ فرینک مورس اور اینگلن برادران نامی ان قیدیوں کی تقدیر ایک معمہ تو ہے ہی لیکن امریکہ کی سب سے محفوظ تصور کی جانے والی جیل سے ان کا دلیرانہ فرار ایک ایسی کہانی ہے جو آج تک لوگوں کی دلچسپی کا باعث ہے۔اس فرار کے دو سال بعد بی بی سی نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا تھا۔ بی بی سی پینوراما کے مائیکل چارلٹن نے ’جرم کی دنیا کے سب سے خطرناک سفر‘ کے دوران ’دی راک‘ کے نام سے مشہور الکیٹراز کی بدنام زمانہ جیل تک رسائی حاصل کی جہاں امریکہ کے سب سے خطرناک مجرموں کو قید کیا جاتا تھا۔ اس جیل کو ایک ناقابل تسخیر قلعہ مانا جاتا تھا لیکن 12 جون 1962 کی صبح تین قیدیوں نے کچھ ایسا کیا جو اس وقت تک ناممکن تصور کیا جاتا تھا یعنی اس جیل سے فرار۔یہ جیل سین فرانسسکو کی حفاظت کی غرض سے ایک بحری دفاعی قلعے کے طور پر تعمیر ہوئی تھی۔ امریکی خانہ جنگی کے دوران اس جزیرے کے محل وقوع، یہاں چلنے والی تیز اور سرد ہوا اور چٹیل چٹانوں کی وجہ سے کنفیڈریٹ جنگی قیدیوں کو یہاں قید کیا جانے لگا۔
بیسویں صدی کے اوائل میں اسے بطور عسکری جیل تعمیر کیا گیا۔ 1930 میں جب امریکہ میں جرائم کی لہر پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی تھی تو محکمہ انصاف نے اس جیل کا کنٹرول حاصل کیا اور جلد ہی خطرناک مجرم یہاں پہنچنا شروع ہوئے۔یہاں قید رہنے والے مشہور قیدیوں میں ال کپون، مکی کوہن اور جارج مشین گن کیلی سمیت ’برڈ مین آف الکیٹراز‘ کے نام سے مشہور ہونے والا قاتل رابرٹ سٹروڈ بھی شامل ہیں۔بی بی سی کے چارلٹن کے مطابق یہاں ایسے مجرموں کو قید کیا جاتا جنھیں کسی عام جیل میں نہیں رکھا جا سکتا تھا۔بی بی سی کے اس پروگرام سے چار سال قبل فرینک لی مورس اس جزیرے پر پہنچے۔ وہ 11 سال کی عمر میں یتیم ہوئے اور 13 سال کی عمر میں پہلی بار قتل کے الزام میں قصوروار ٹھہرے تھے۔فرینک مورس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ مختلف جیلوں میں ہی گزارا تھا۔ ان کو نہایت ذہین اور عادی مجرم سمجھا جاتا تھا جن پر منشیات، ڈکیتی سمیت جیل سے فرار کے پرچے درج تھے۔لوزیانا جیل سے فرار کے بعد جب فرینک کو گرفتار کیا گیا تو ان کو ’دی راک‘ بھیج دیا گیا۔ یہاں پہچنتے ہی فرینک نے فرار کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ ان کی جیل کے سیل کے پاس بینک لوٹنے والے جان اور کلیرنس انگلن سمیت ایلن ویسٹ بھی قید تھے جو 1957 سے جیل میں قید تھے۔یہ سب ایک دوسرے کو پہلے سے ہی جانتے تھے اور ان کے جیل کے سیل قریب ہونے کے باعث وہ رات کو ایک دوسرے سے بات کر سکتے تھے۔
تفصیلی منصوبہ
مورس نے فرار کے منصوبے کی کمان سنبھالی اور سات ماہ کے وقت میں انھوں نے سیل میں موجود ہوا کی گزرگاہ کے گرد موجود کنکریٹ آہستہ آہستہ نکالا۔ اس کام کے لیے کھانے کے چمچے استعمال کیے گئے اور ویکیوم کلینر کی موٹر سے ایک ڈرل مشین بھی بنائی گئی۔رفتہ رفتہ وہ ایک ایسے راستے تک سرنگ پہنچانے میں کامیاب ہو گئے جہاں کسی کی نظر نہیں تھی۔ ڈرل کا شور کم کرنے کے لیے مورس ان اوقات میں موسیقی کا ایک آلہ ’اکارڈیئن‘ بجایا کرتے تھے جب قیدیوں کو موسیقی سنائی جاتی تھی۔جب اس راہداری تک پہنچنے کے لیے سرنگ اتنی بڑی ہو گئی کہ اس میں سے گزرا جا سکتا تھا تو انھوں نے وہاں ایک خفیہ ورکشاپ قائم کر لی۔ دیوار میں موجود سوراخ کو چھپانے کے لیے انھوں نے جیل کی لائبریری سے میگزین کا سہارا لیا۔ اپنی ورکشاپ میں انھوں نے ربر کی کشتیاں بنائیں اور چوری شدہ بارش کے کوٹوں کی مدد سے لائف جیکٹس بھی تیار کی گئیں۔پھر انھوں نے ایک آلہ تیار کیا اور اس کی مدد سے ربڑ کی کشتی میں ہوا بھر لی۔ لکڑی کے ٹکڑوں کی مدد سے چپو بھی بنائے گئے۔لیکن اس دوران انھیں اپنی غیر موجودگی کو محافظوں سے چھپانے کی ضرورت تھی جو اکثر رات میں بھی قیدیوں کی چیکنگ کیا کرتے تھے۔ انھوں نے کاغذ کی مدد سے صابن، ٹوتھ پیسٹ اور ٹائلٹ پیپر کا استعمال کیا اور اپنے اپنے سر کا ایک مجمسہ بنایا۔ اس مجسمے کو اصلی روپ دینے کے لیے جیل میں حجام کی دکان سے زمین پر پڑے کٹے ہوئے بال چرائے گئے اور ان کی مدد سے سر کے بال تیار کیے گئے۔سر کے مجسوں کو بستر میں رکھ کر کپڑوں اور تولیے کی مدد سے انسانی جسم کا روپ دے دیا جاتا تاکہ کوئی باہر سے دیکھے تو ایسا لگے جیسے وہ سو رہے ہیں۔جس دوران یہ قیدی فرار کے لیے استعمال ہونے والا سامان تیار کر رہے تھے، اسی دوران وہ ایک راستہ بھی تلاش کر رہے تھے۔ پلمبنگ کے پائپ کو سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے انھوں نے تیس فٹ کی بلندی پر موجود ہوا کی ایک گزرگاہ کو کھول لیا تھا۔آخرکار 11 جون کی رات کو ان کا منصوبہ مکمل اور حرکت میں آنے کو تیار تھا۔ محافظوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اپنے اپنے بستر میں نقلی سر چھوڑ کر مورس اور اینگلن برادران جیل کے سیل کی دیوار میں موجود سوراخ سے باہر نکلے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
تاہم ویسٹ طے شدہ وقت پر باہر نہیں نکلا۔ ایسے میں باقی افراد نے اس کے بغیر ہی آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ جیل کی چھت پر پہنچ کر انھوں نے جیل کا احاطہ اور دو خاردار تاروں کی باڑیں پار کرنے کے بعد جزیرے کے شمال مشرقی حصے کا رخ کیا۔پانی کے کنارے انھوں نے کشتی میں ہوا بھری اور پھر رات کے اندھیرے میں غائب ہو گئے۔ اگلی صبح جب نقلی سر دریافت ہوئے تب جا کر جیل کا الارم بجایا گیا۔جزیرے پر جیل کے محافظوں کے اہلخانہ بھی رہائش پذیر تھے، جولین بابیاک کے والد جو اس زمانے میں جیل کے قائم مقام وارڈن ہوا کرتے تھے، نے ہی الارم بجایا تھا۔جولین نے 2013 میں بی بی سی وٹنس ہسٹری کو بتایا تھا کہ ’میری آنکھ کھلی تو سائرن بج رہا تھا اور بہت اونچی ہولناک ڈرا دینے والی آواز تھی۔ میں چونک گئی تھی اور میرا پہلا خیال یہ تھا کہ یہ فرار کی کوشش نہیں ہو سکتی لیکن ایسا ہی تھا۔‘جیل میں فوری طور پر لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا اور تمام عمارات کی تلاشی لی گئی۔ جولین کے والد نے سینکڑوں اہلکاروں کی مدد سے دنوں تک قریبی علاقے کی تلاشی لی اور چودہ جون کو کوسٹ گارڈ نے قیدیوں کے زیر استعمال رہنے والا ایک چپو دریافت کیا۔سات دن بعد کشتی کی باقیات گولڈن گیٹ پل کے قریب سے ملیں اور ایک دن بعد ایک دیسی ساختی لائف جیکٹ بھی برآمد ہوئی۔ لیکن تینوں فرار ہونے والے قیدیوں کو دوبارہ نہیں دیکھا گیا۔
ایک کھلا ہوا مقدمہ
،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.