چلی کا الیکشن ترکی میں جشن: چلی کے بائیں بازو کے طلبا رہنما کی کامیابی ترکی میں زیرِ بحث کیوں؟
چلی کے سابق طالب علم رہنما جو حال ہی میں صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ان کے حامیوں کی بڑی تعداد میں نوجوان لڑکیاں ہیں۔
حال ہی میں لاطینی امریکہ میں چلی میں بائیں بازو کے ایک نوجوان سابق طالبِ علم رہنما کی صدارتی انتخابات میں کامیابی کو خطے میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دیا گیا ہے۔ گیبریئل بورِک نے صدارتی انتخابات کے دوسرے راؤنڈ میں اپنے حریف کو بھاری اکثریت سے شکست دی تھی۔
تاہم خطے سے باہر ترکی وہ اہم ملک ہے جہاں چلی کی اس کامیابی کو ایک ماڈل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ چلی میں سابق طالب علم رہنما بورک کی صدارتی فتح کا جشن ترکی کے بائیں بازو اور اپوزیشن رہنماؤں اور دانشوروں اور سیاسی کارکنوں میں ایک بڑی کامیابی کے طور پر منایا جا رہا ہے۔
ترکی میں ان حلقوں سے جڑے مبصرین کا کہنا ہے کہ چلی میں یہ پیش رفت ترکی کے لیے ‘سبق’ رکھتی ہے۔
ترک فوج کے سربراہ جنرل کینان ایورن نے سویلین حکومت کا تختہ سنہ 1980 میں الٹا تھا۔
چلی اور ترکی میں مماثلت
ترکی کی سیاست جو فوج اور لبرل یا بائیں بازو کے سیاتدانوں کی رسہ کشی میں اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھی، وہاں سنہ 1980 کی جنرل کینان ایورن کی قیادت میں فوجی بغاوت کے بعد سے زیادہ تر دائیں بازو کی جانب جُھک گئی۔
اور سنہ 2002 کے بعد سے ایک قدامت پسند اور مذہبی نظریات والی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی مسلسل اقتدار پر قابض ہے۔ سنہ 1980 کح فوجی بغاوت کے بعد سنہ 1982 میں ترکی کو ایک نیا آئین دیا گیا تھا جس میں 800 کے قریب فوجی آمریت کے قوانین کو شامل کیا گیا تھا۔
نئے آئین میں فوجی بغاوت کرنے والے جرنیلوں پر مقدمات چلانا ناممکن بنا دیا گیا تھا (رجب طیب اردعان کی قیادت میں بننے والی حکومت نے اس قانون میں تبدیلی کی تھی اور پھر جنرل ایوران اور اُن کے ساتھیوں پر مقدمہ چلایا گیا تھا)۔
اس دور میں فوج کے حامی سیاستدان ترگت اوزل نے ترکی کی معیشت کی آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق نیو لبنرل پالیسیوں کے مطابق تشکیلِ نو کی۔ لاکھوں سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں ڈالا گیا، پچاس سے زیادہ افراد کو سیاسی جرائم میں پھانسیاں دی گئیں اور تمام بڑی سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد کردیں تھیں۔
اسی طری چلی میں سنہ 1973 میں منتخب صدر آلندے کی حکومت کے خلاف جنرل آگستو پنوشے کی فوجی بغاوت کے بعد جب اسی کی دہائی میں سویلین حکومت بحال کی گئی تو سنہ 1982 کے نئے آئین میں بغاوت کرنے والے تمام جرنیلوں کو کسی بھی مقدمے سے آئینی استثنیٰ دیا گیا تھا۔ نئے آئین میں جنرل پنوشے صدر منتخب ہوئے تھے۔
چلی کے صدر سیلواڈور آلندے جن کی حکومت کا تختہ ایک فوجی بغاوت میں جنرل پنوشے نے سنہ 1973 میں الٹ دیا تھا۔
جنرل پنوشے کی حکو مت اور اس کے بعد کی نیو لبرل اقتصادی اصلاحات کو بھی آئینی تحفظ دیا گیا تھا۔ جنرل پنوشے پر اپنے پیش رو آلندے کے حامیوں کے قتل عام کا بھی الزام ہے۔ صدر آلندے سوشلسٹ نواز پالیسیوں کے حامی تھے اس لیے جنرل پنوشے نے چن چن کر سوشلسٹوں یا ان کے حامیوں کو ہلاک کیا تھا۔
چلی کی سنہ 1991 میں بننے والی حکومت نے پنوشے دور کے مظالم پر ایک انکوائری کمیشن قائم کیا تھا جو ‘ریٹنگ رپورٹ ‘ کے نام سہ مشہور ہے۔ اس کی رپورٹ کے مطابق اس دوران کم از کم 3000 سیاسی مخالفین کو ہلاک کیا گیا، 27000 کو جیلوں میں ڈالا گیا اور لاکھوں سیاسی مخالفین ہجرت پر مجبور ہوئے۔
جنرل پنوشے کی پالیسیوں کے نتیجے میں چلی میں اقتصادی ترقی تو ہوئی لیکن ملک میں آمدنی کے لحاظ سے عدم مساوات گہری ہوتی گئی۔ نوجوان صدر گیبریئل بورِک کے سامنے اس وقت یہی چیلنج بھی ہے کہ وہ معاشی ترقی کی نمو کو متاثر کیے بغیر کس طرح عدم مساوات کم کرتے ہیں۔
ترکی میں ردعمل
علوم سیاسیات کے پروفیسر اور بائیں بازو کے تجزیہ نگار ڈینیز یلدرم نے سیکولر حزب اختلاف کے اخبار ‘جمہوریت’ میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں کہا ہے کہ چلی کی جن نسلوں نے چلی کے سابق صدر آگسٹو پنوشے کی بغاوت کا تجربہ نہیں کیا وہ ‘سماجی اور سیاسی تبدیلی کا پیغام لے کر جا رہے ہیں’۔
انھوں نے مزید لکھا کہ چلی میں تبدیلی اس بات کا بھی اشارہ دے رہی ہے کہ ‘اب نئی نسل میں پرانے رہنماؤں کے خیالات کو نوجوان نسل میں قبول کرنے والا کوئی نہیں رہا ہے۔’ یلدرم نے یہ بات اس پس منظر میں کہی ہے کہ نو منتخب نوجوان صدر بورک کو نوجوانوں نے منتخب کرکے پرانی نسل کے خیالات کو مسترد کردیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتخابات ‘انتہائی دائیں بازو’ اور ‘جابر حکومتوں’ کے سیاسی انداز کو پیچھے دھکیلنے کی جد و جہد میں ایک ‘اہم کامیابی’ کا حصہ ہیں جس نے ترکی کو بھی متاثر کیا ہے۔ وہ اس کامیابی میں اپنے ملک کی اپوزیشن کے لیے ایک ماڈل تلاش کرنے کا اشارہ دے رہے ہیں۔
ترکی میں بائیں بازو کے ممتاز ماہر اقتصادیات کورکوت بوراتاو نے نیو لبرل ازم کے تناظر میں اس پر بحث کرتے ہوئے ان مسائل کے درمیان مماثلت پیش کرتے ہیں جن کا ترک اور لاطینی امریکہ کی بائیں بازو جماعتوں کو سامنا ہے۔ انہوں نے بائیں بازو کے حزب اختلاف کے اخبار ‘برگون’ کو بتایا کہ ‘لاطینی امریکہ میں طبقاتی جدوجہد ترکی کے لیے ایک مثال ہے۔’
ترک اخبارات کی ایک جھلک۔
بوراٹاو نے کہا کہ ‘یہ دلچسپ ہے کہ چلی میں پنوشے کا آئین ترکی میں سنہ 1982 کے آئین کی طرح بغاوت کی پیداوار ہے۔ چلی کا آئین تبدیل ہو رہا ہے۔ اور 12 ستمبر (سنہ 1982) کے آئین کو ختم کرنا (ترکی میں بھی اپوزیشن کے) ایجنڈے پر ہے۔’
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے حالیہ مہینوں میں کہا تھا کہ وہ حکومت کی اتحادی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (MHP) کے ساتھ مل کر ایک نئے آئین کا مسودہ تیار کریں گے۔ بوراٹاو نے پوچھا تھا کہ ‘ترکی کے جمہوریت پسندوں اور بائیں بازو والوں کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ کیا یہ آئینی ترمیم 12 ستمبر کے آئین کے قواعد کے مطابق ہو گی؟’
بوراٹاو بائیں بازو کے گروہوں پر زور دیتے ہوئے کہ وہ اپنی آپشنز کا دفاع کریں، کہتے ہیں کہ ‘جیسا کے چلی میں ہوا، ہمارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ایک بھرپور عوامی شرکت کے ذریعے ایک پارلیمنٹ منتخب کی جائے جو ایک نیا آئین تیار کرے۔’
ترکی میں خارجہ امور کی مبصر اور صحافی مبصر ایشین ایلیشین نے اپنے آزاد آن لائن پلیٹ فارم ‘میڈیاسکوپ’ کے ایک پروگرام میں کہا کہ ‘ہم ترکی میں (چلی) سے ملتے جلتے تجربات سے گزرے ہیں۔ ہم سنہ 1980 کے آئین سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے۔’
صحافی جنید اوزدمیر نے اپنے مقبول یوٹیوب چینل میں کہا کہ ‘سیاسی رہنما ایک دوسرے کے طرز عمل اور تجربات سے سیکھتے ہیں’ اور اس لیے بورِک کی جیت کا عالمی سطح پر ایک ‘ارتعاش’ تو ضرور پیدا ہوگا۔’
22 دسمبر کو بائیں بازو کے حزب اختلاف کے اخبار ‘ایورنسل’ کے لیے لکھتے ہوئے، بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی صحافی اور تبصرہ نگار عائشہ اُنسال نے بورک کے انتخاب کو دنیا کے لیے ‘امید کی روشنی’ سے تشبیہ دی ہے۔
گیبریئل بورِ کی سیاست
گیبریئل بورِک تاریخی فتح حاصل کر کے چلی کے اب تک کے کم عمر ترین صدر بن گئے ہیں۔ 35 برس کے نوجوان نے ایک ایسے ملک کے لیے بڑی بڑی آئینی تبدیلیوں کا وعدہ کیا ہے جو حالیہ برسوں میں عدم مساوات اور بدعنوانی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں سے لرز اٹھا تھا۔
جب گیبریئل بورک نے اپنے بائیں بازو کے بلاک کی جانب سے صدر کے لیے انتخاب لڑنے کے ٹکٹ کا پارٹی انتخاب جیتا تو انھوں نے ایک دلیرانہ عہد کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر چلی نیو لبرل ازم کا گہوارہ تھا تو یہ اب اس کی قبر بھی بنے گا۔ انطوں نے کہا تھا کہ ‘ اس ملک کو بدلنے والے نوجوانوں سے مت ڈرو۔’
اور یوں انھوں نے سابق آمر جنرل آگسٹو پنوشے کے مسلط کردہ فری مارکیٹ اکنامک ماڈل میں بنیادی اصلاحات کا وعدہ کرتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر انتخابات میں حصہ لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک ملک میں عدم مساوات بے انتہا ہے، وہ عدم توازن جو سنہ 2019 میں ہونے والے مظاہروں کے دوران منظر عام پر آیا جس نے آئین کے ایک باضابطہ طور پر نئے مسودے کی تحریک کو جنم دیا تھا۔
معاشرے میاں یہ تحریک پیدا کرنے والی مہم کے بعد، مسٹر بورک نے صدارتی انتخابات کے دوسرے راؤنڈ میں انتہائی دائیں بازو کے حریف ہوزے انتونیو کاسٹ کو حیران کن بڑے فرق سے شکست دی، جس سے ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔
انتخابی کامیابی کے بعد ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر بورک نے ہزاروں حامیوں، جن میں زیادہ تر نوجوان تھے، کہا کہ ‘ہم ایک ایسی نسل ہیں جو عوام میں پیدا ہوئی ہے اور یہ نسل مطالبہ کرتی ہے کہ ہمارے حقوق کا احترام کیا جائے اور ان کے ساتھ اشیائے صرف یا کاروبار جیسا سلوک نہ کیا جائے۔’
‘ہم جانتے ہیں کہ امیروں کے لیے انصاف اور غریبوں کے لیے انصاف جاری ہے، اور ہم مزید اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ چلی کے غریب عوام عدم مساوات کی قیمت ادا کرتے رہیں۔’
سابق طلبا رہنما اور چلی کے نو منتخب صدر گیبریئل بورِک کو آئینی اور اقتصادی محاذوں پر کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔
مسٹر بورک کو نہ صرف ایک منقسم ملک کا سامنا ہے بلکہ ایک ٹوٹے ہوئے پارلیمانی نظام، پریشان سرمایہ کار اور ایک سست معیشت کا بھی سامنا ہے جو حالیہ سیاسی ہلچل اور وبائی امراض کا نتیجہ ہے۔
گیبریئل بورِک کی زندگی
گیبرئیل بورِک 11 فروری سنہ 1986 کو چلی کے انتہائی جنوب میں پنٹا ایرینس میں پیدا ہوئے، وہ ایک دہائی قبل اس وقت نمایاں ہوئے جب انہوں نے بہتر اور سستی تعلیم کے مطالبے کے لیے بڑے پیمانے پر مظاہروں کی قیادت کی۔
اس وقت وہ چلی یونیورسٹی میں قانون کے طالب علم تھے، لیکن اس نے سیاست پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ سنہ 2013 میں وہ ایک آزاد امیدوار کے طور پر چلی کے قانون ساز ادارے، کانگریس کے رُکن منتخب ہوئے۔ اپنے حلقہ انتخاب ماگالینز کی نمائندگی کرتے ہوئے، اور بعد میں بھاری اکثریت سے دوسری مرتبہ بھی منتخب ہوئے۔
داڑھی والے، ٹیٹو والے اور شاذ و نادر ہی ٹائی پہنے ہوئے نظر آنے والے، مسٹر بورک نے صدارتی امیدواروں کی روایتی تصویر سے الگ ہونے کی نمائندگی کی۔
مہم کے دوران انہوں نے جنونی مجبوری کی خرابی کی تشخیص کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ اچھا تھا کہ چلی نے دماغی صحت کے بارے میں بات کی’۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ ناتجربہ کار ہے، اور اس نے خود تسلیم کیا ہے کہ اسے ‘بہت کچھ سیکھنا ہے۔’
مسٹر بورک، جو کہتے ہیں کہ وہ شاعری اور تاریخ شوق سے پڑھتے ہیں، خود کو ایک اعتدال پسند سوشلسٹ کہتے ہیں۔ اس نے اپنے زمانہِ طالبِ علمی کے دنوں کا ہلیئر سٹائل یعنی لمبے بالوں کو ترک کر دیا ہے، اور جیکٹس اب اکثر اس کے دونوں بازوؤں پر ٹیٹو ڈھانپے ہوئے نظر آتی ہے۔
انہوں نے پنشن کے نظام کو بحال کرنے، سماجی خدمات بشمول یونیورسل ہیلتھ انشورنس، بڑی کمپنیوں اور امیر افراد کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ، اور ایک سرسبز معیشت بنانے کے اپنے وعدوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے خیالات میں کچھ نرمی بھی کی ہے۔
صدارتی انتخابات کے پہلے راؤنڈ میں مسٹر کاسٹ سے پیچھے رہنے کے بعد، دوسرے راؤنڈ میں ان کی شاندار جیت اس وقت ہوئی جب انہوں نے دارالحکومت سینٹیاگو میں اپنے اصل حلقے سے زیادہ حمایت حاصل کی، اور دیہی علاقوں میں ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
ہم جنس شادی اور اسقاط حمل کے حقوق کے حامیوں سمیت انہیں بڑی تعداد میں خواتین کی بھی حمایت حاصل تھی۔
اپنی فتح کی تقریر میں، جب وہ اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ شامل ہوتے تھے تو اس نے یہ کہتے ہوئے کہ ‘آج امید نے خوف کو شکست دی، تمام چلی کے لوگوں کے لیے صدر’ بننے کا وعدہ کیا۔ اور وہ بالآخر بھاری اکثریت سے چلی کے صدر منتخب ہوگئے جہاں آج تک فوجی آمر آگستو پنوشے کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔
Comments are closed.