جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

چرنوبل کے پناہ گزین

چرنوبل میں تباہی: 35 سال بعد یوکرین کے ایکسکلیوژن زون میں رہ جانے والے پالتوں کتوں کی نسل اور ان کے محا‌فظ

  • کرس بارانوئک
  • بی بی سی فیوچر

کتا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بوگڈان کو چرنوبل ایکسکلیوژن زون (یعنی تابکاری کی زد میں آنے والے علاقے) میں ابھی پہنچے ہوئے زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ انھیں احساس ہوا کہ ان کی نئی نوکری میں کچھ غیر متوقع ساتھی بھی ہیں۔ چرنوبل کے اس علاقے میں داخل ہونے والی چوکی کے گارڈ کی حیثیت سے انھیں اپنے پہلے ہی دن کتوں کے ایک جھنڈ کا ساتھ ملا۔

بوگڈان (اصل نام نہیں) کو اب اس زون میں کام کرتے ہوئے دوسرا سال ہو رہا ہے اور انھوں نے وہاں کے کتوں سے اچھی جان پہچان کر لی ہے۔ انھوں نے کچھ کے نام رکھے ہیں اور کچھ بغیر نام کے ہیں۔ کچھ ان کے پاس ہی رہتے ہیں، کچھ دور رہتے ہیں لیکن اپنی مرضی سے آتے جاتے رہتے ہیں۔ بوگڈان اور دوسرے گارڈز انھیں کھانا کھلاتے ہیں، انھیں پناہ دیتے ہیں اور کبھی کبھار ان کی طبی امداد بھی کرتے ہیں۔ جب وہ مر جاتے ہیں تو انھیں دفن کرتے ہیں۔

ایک طرح سے تمام کتے سنہ 1986 میں ہونے والی تباہی کے بعد کے پناہ گزین ہیں جب چرنوبل نیوکلیئر پاور پلانٹ کا ری ایکٹر نمبر 4 پھٹ گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں یوکرین کے شہر پیراپیٹ سے دسیوں ہزار افراد کو نکالا گیا تھا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے پالتو جانوروں کو پیچھے چھوڑ دیں۔

تابکاری سے پھیلنے والی آلودگی کو روکنے کے لیے سوویت فوجیوں نے وہاں ترک کر دیے جانے والے متعدد جانوروں کو گولی مار دی۔ لیکن کچھ جانور چھپ کر بچ گئے۔ پینتیس سال بعد اب سینکڑوں آوارہ کتے 2600 مربع کلومیٹر (1000 مربع میل) پر محیط اس انسانی آمد و رفت سے دور ایکسکیلوژن زون میں گھوما کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کوئی نہیں جانتا ہے کہ کون سا کتا براہ راست چھوڑے جانے والے پالتو جانوروں میں سے ہے اور کون دوسری جگہ سے بھٹک کر آنے والوں میں سے۔ لیکن اب سبھی کتے اس زون کے باسی ہیں۔

ان کی زندگیاں تباہ حال ہیں۔ انھیں ریڈیو ایکٹو آلودگی کے ساتھ بھیڑیوں کے حملوں، جنگل کی آگ اور بھوک کا خطرہ درپیش رہتا ہے۔ اس ایکسکلوژن زون میں کتوں کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کلین فیوچر فنڈ کے مطابق یہاں کتے کی اوسط عمر صرف پانچ سال ہے۔

کتا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس تباہ شدہ جگہ پر بچ جانے والے کتوں کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو سوشل میڈیا پر کافی مشہور بھی ہیں۔ کلین فیوچر فنڈ کے شریک بانی لوکاس ہکسسن نے جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے اپنا تحقیقی کیریئر ترک کردیا۔ وہ اب وہاں کے کتوں سے لوگوں کو ورچوئل انداز میں متعارف کراتے ہیں۔

لیکن ان مقامی کارکنوں کے بارے میں کم ہی معلومات ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر ان کتوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔

کیمبرج یونیورسٹی میں جغرافیہ میں پی ایچ ڈی کرنے والے جوناتھن ٹرن بل نے محسوس کیا کہ ان لوگوں کی کہانیاں جمع کرنا اپنے آپ میں ایک قابل قدر عمل ہوگا۔

انھوں نے کہا ‘اگر میں کتوں کو جاننا چاہتا ہوں تو مجھے ان لوگوں کے پاس جانے کی ضرورت ہے جو انھیں بہتر طورپر جانتے ہیں، اور وہ یہی گارڈز ہیں۔’

انھوں نے جو کچھ دریافت کیا وہ اس لاوارث ماحول میں ان جانوروں کے ساتھ محافظوں کے تعلقات کی دل کو گرمانے والی کہانی ہے۔ ایسی کہانی جو انسان اور کتوں کے تعلقات میں گہرائی کے ساتھ جھانکتی ہے۔

مثال کے طور پر گارڈز نے بہت سے کتوں کو عرفی نام دے رکھے ہیں۔ ٹرن بل کے مطابق یہاں الفا نامی کتا ہے جس کا نام ایک قسم کی تابکاری کا اشاریہ ہے اور یہاں ایک ٹارزن نامی کتا ہے جو چیرنوبل کے سیاحوں میں بہت معروف ہے کیونکہ وہ حکم پر کرتب دکھاتا ہے اور اب وہ روس کے ذریعہ تعمیر شدہ ڈوگا ریڈار تنصیب کے قریب رہتا ہے۔ ایک ساسیج نامی کتیا بھی ہے جو کہ گول مٹول ہے اور سردیوں میں وہ خود کو گرم پائپ پر لیٹ کر گرم کرنا پسند کرتی ہے۔ یہ پائپ ان عمارتوں میں سے ایک کے لیے ہیں جو ایکسکلوژن زون میں کارکنان استعمال کرتے ہیں اور جو تباہ شدہ پاور پلانٹ سے تابکاری کے اثرات کو ختم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔

چرنوبل ایکسکلیوژن زون تک رسائی کے لیے اجازت نامے کی ضرورت ہوتی ہے لہذا گارڈز کو علاقے میں آنے جانے والی سڑکوں پر قائم چوکیوں کو کنٹرول کرنے کا کام سونپا جاتا ہے۔ وہ لوگ جو ان چوکیوں کو دھوکہ دے کر اس ممنوعہ زون میں داخل ہوتے انھیں ‘سٹاکرز’ کے نام سے جانا جاتا ہے اور گارڈز پولیس میں ان کی اطلاع دیتے ہیں۔

جب یوکرین کے دارالحکومت کییف میں رہنے والے ٹرن بل نے اس زون کا باقاعدہ دورہ کرنا شروع کیا تو ان کی ملاقات بوگڈان اور چوکی کے دوسرے گارڈز سے ہوئی۔ وہ پہلے پہل ان سے بات کرنے سے گریزاں تھے لہذا پہلے انھوں نے ان کا دل جیتا۔ پھر انھوں نے انھیں اپنی تحقیق میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا جو ان کے مطابق ان کی تحقیق میں ایک ‘اہم موڑ’ ہے۔ انھوں نے سوچا کہ وہ گارڈز کو ڈسپوزیبل کیمرہ دیں گے اور ان سے کتوں کی ایسی تصویر کھینچنے کے لیے کہیں گے جو پوز والی نہ ہو بلکہ روزمرہ کی زندگی کے متعلق ہو۔ بدلے میں گارڈز کی ایک اور درخواست تھی کہ ‘پلیز، پلیز ان کتوں کے لیے کھانا لائیں۔’ ٹرن بل نے ایسا ہی کیا۔

گارڈ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

چرنوبل کا ایک گارڈ کتوں کو کھانے دے رہا ہے

گارڈز کے ذریعہ لی گئی تصاویر میں انکشاف ہوا کہ انھوں نے ایکسکلیوژن زون کے آوارہ کتوں کے ساتھ کتنی دوستی کر رکھی ہے۔

ٹرن بل نے گارڈز کے ساتھ انٹرویوز کے کچھ نتائج اور تصاویر کو دسمبر میں ایک مقالمے میں شائع کیا تھا۔ ابھی حال ہی میں انھوں نے نے بی بی سی فیوچر کی درخواست پر ایک بار پھر سے اپنی تحقیق میں شامل افراد میں سے ایک کا انٹرویو لیا۔ مذکورہ گارڈ کا نام ان کی گذارش پر بدل دیا گیا ہے اور انھیں ‘بوگڈان’ سے ظاہر کیا گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب بوگڈان زون کی سنسان سڑکوں پر سٹاکرز کی جانچ کے لیے گشت لگاتے ہین تو کتے بخوشی ان کے ساتھ گشت کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ یہ جاننے کے لیے بے چین رہتے ہیں کہ آیا وہاں آنے والے گارڈ یا سیاح کچھ کھانے کے لیے تو نہیں لائے۔ وہ بتاتے ہیں اگر ان کے ساتھ جانے والا کوئی کتا کسی جانور کے تعاقب کی وجہ سے بھٹک جاتا تو وہ پھر بوگڈان کے پاس واپس آتا ہے۔

یہ وفاداری دونوں طرف سے چلتی ہے۔ ٹرن بل کا کہنا ہے کہ گارڈ بعض اوقات کتوں کی مدد کرنے کے لیے مشکلات اٹھاتے ہیں۔ ان کی جلد پر چسپاں خون پینے والے جانور کو ہٹانے اور انھیں ریبیز کی ٹیکے دینے میں یہ گارڈز کتوں کی مدد کرتے ہیں۔

ایکسکلیوژن زون سے آنے جانے والے کی نگرانی بعض اوقات بے مزہ کام لگتا ہے۔ لیکن ہمیشہ کتے قریب ہی ہوتے ہیں۔

کچھ چوکیوں پر گارڈز نے کچھ پالتو جانور رکھ رکھے ہیں۔ وہ انھیں کھانا کھلاتے ہیں اور پناہ دیتے ہیں۔ لیکن سبھی بہت سدھائے ہوئے نہیں ہیں۔ تحقیق کے دوران ایک گارڈ نے ٹرن بل کو بتایا ‘ہم آرکا کو انجیکشن نہیں لگا سکتے ہیں کیونکہ وہ کاٹتی ہے۔’

ایک دوسرے گارڈ ایک کتے کے بارے میں کہا کہ اسے سنبھالنا زیادہ مشکل ہے۔ اس کو چھونا تو دور اس کے پاس جانا بھی محال ہے۔ گارڈ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ‘آپ اسے صرف کھانے کا برتن دے دیں اور چلے جائیں۔ وہ آپ کے جانے کا انتظار کرتی ہے اور پھر کھانے لگتی ہے۔’

گارڈز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بوگڈان کہتے ہیں کہ کتے کبھی کبھی پہلی بار اجنبیوں پر بھونکتے ہیں۔ لیکن اگر انھیں خطرہ محسوس نہ ہو تو وہ پھر جلدی پرسکون ہوجاتے ہیں اور دم ہلاتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ کبھی کبھار ایسا لگتا ہے جیسے وہ مسکرا رہے ہیں۔

عام طور پر چرنوبل آنے والے افراد کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ کتوں کو ہاتھ نہ لگائیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ان میں تابکار مادے ہوں۔ یہ جاننا ناممکن ہے کہ کتے کہاں کہاں گھومتے ہیں اور ایکسکلیوژن زون کے کچھ حصے دوسروں کے مقابلے میں زیادہ آلودہ تو نہیں۔

چرنوبل ایکسکلیوژن زون میں کتوں کے علاوہ دوسرے جنگلی جاندار بھی رہتے ہیں۔ سنہ 2016 میں امریکی حکومت کی جنگلاتی حیات کی ماہر اور جارجیا یونیورسٹی میں کام کرنے والی سارہ ویبسٹر اور ان کے ساتھیوں نے ایک مکالمہ شائع کیا جس میں انھوں نے انکشاف کیا کہ کیسے بھیڑیوں سے لے کر سووروں اور سرخ لومڑیوں تک دودھ پلانے والے جاندار اس جگہ رہتے ہیں۔ کیمروں کے جال سے حاصل شدہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ ان علاقوں میں جانوروں کی تعداد خاص طور پر کم نہیں تھی جہاں تابکار آلودگی زیادہ ہے۔

ایکسکلیوژن زون میں رہنے والے جانور ضروری نہیں کہ وہیں تک محدود ہیں۔ ویبسٹر اور ساتھیوں نے سنہ 2018 میں شائع ہونے والے اپنے ایک مطالعے میں ایک بھیڑے کی نقل و حرکت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جس پر انھوں نے جی پی ایس لگا دیا تھا۔ اس نے اپنی رہائش والے زون سے 369 کلومیٹر (229 میل) کا سفر کیا ایک لمبی قوس لے کر جنوب مشرق اور پھر شمال مشرق کا رخ کیا اور بالآخر روس میں داخل ہوا۔

جنگی جانور

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بھیڑیے، کتے اور دوسرے جانور نظریاتی طور پر تابکار آلودگی یا جینیاتی طور پر مبدل شکل کو ممکنہ طور پر افزائش کے ذریعہ ایکسکلیوژن زون سے باہر کی جگہوں پر پہنچا سکتے ہیں۔

ویبسٹر نے کہا ‘ہم جانتے ہیں کہ یہ ہوتا ہے لیکن ہم اس کی حد یا اس کی شدت کو نہیں سمجھتے ہیں۔’

ٹرن بل کا کہنا ہے کہ محافظ عام طور پر تابکاری کے بارے میں فکرمند نہیں ہیں تاہم وہ کبھی کبھار کتے کو چیک کرنے کے لیے ڈوزیمیٹر کا استعمال کرتے ہیں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں جانوروں کی نسل کے مطالعہ کرنے والے ماہر آثار قدیمہ گریجر لارسن کا کہنا ہے کہ کتے ان لوگوں کو اعتماد دیتے ہیں جو باقاعدگی کے ساتھ ان کی صحبت میں ہوتے ہیں۔

اگر چہ وہ اس تحقیق کا حصہ نہیں لیکن انھوں نے محافظوں کے حوالے سے کہا کہ ‘یہ وہ لوگ ہیں جو خود کو کتوں کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر کتا ٹھیک ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ٹھیک ہیں۔’

کتا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

لیکن در حقیقت یہ صرف سکیورٹی کا غلط ادراک ہوسکتا ہے۔

ٹرن بل نے کہا: ‘یہ ایک غیر معمولی ماحول ہے۔ آپ خطرے کو نہیں دیکھ سکتے۔ آپ کو ہمیشہ احساس رہتا ہے کہ خطرہ ہو سکتا ہے لیکن بظاہر سب کچھ نارمل نظر آتا ہے۔’

اس حقیقت کے باوجود کہ کتوں کی وجہ سے تابکاری کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے لیکن بوگدان جیسے گارڈ اپنے آس پاس ان کی موجودگی کے فوائد پر زور دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ بتاتے ہیں کہ کتے فاصلوں پر ایک اجنبی انسان ، کسی گاڑی یا جنگلی جانور کو دیکھنے پر مختلف انداز میں بھونکتے ہیں۔ ان کے بھونکنے کی وجہ سے بوگڈان کتوں کو اپنا ‘معاون’ سمجھتے ہیں۔

کتا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

لارسن کا کہنا ہے کہ ایکسکلیوژن زون میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کتوں کے ساتھ انسان کے باہمی روابط کی بازگشت ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہزاروں سالوں سے انسانوں کے ساتھ ہے۔

وہ کہتے ہیں ‘یہ پچھلے 15 ہزار سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے ہمارے ساتھ ہے۔ لوگ یہی کرتے ہیں، وہ نہ صرف کتوں بلکہ بہت سے دوسرے پالتو جانوروں کے ساتھ بہت قریبی رفاقت کرتے ہیں۔ یعنی یہ اس جگہ سے ان کے لگاؤ کا مظہر ہے۔’

پوری دنیا میں ایسے کتے موجود ہیں جو درمیان میں ہیں نہ تو وہ پوری طرح سے پالتو ہی ہیں اور نہ ہی پوری طرح سے جنگلی ہی ہیں۔ یہ وہ عجیب کتے ہیں جو شہروں اور صنعتی علاقوں میں کھانے کی تلاش میں گھومتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جسے لوگ کسی حد تک اپنا سکتے ہیں لیکن انھیں پالتو نہیں سمجھتے ہیں۔

کتے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

چرنوبل کے کتے بھی اس سطح پر ہیں اور پالنے اور جنگلی کے درمیان ہیں۔ لیکن ویبسٹر کا کہنا ہے کہ ان میں ذرا سا فرق ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘ایکسکلیوژن زون بہت مختلف ہے کہ اسے انسانوں نے ترک کردیا ہے۔ اور وہاں روز مرہ کی بنیاد پر جو انسان نظر آتے ہیں وہ صرف گارڈز ہیں۔’ ایسے ہی انسانوں کے ساتھ کتوں کی دوستی کے مواقع بہت محدود ہیں۔

اگرچہ بیرونی دنیا کتوں اور ان کی کہانیوں میں بہت دلچسپی لیتی ہے لیکن بہت سے محافظوں کے لیے یہ رابطہ بہت گہرا ہے۔ بوگڈان کا کہنا ہے کہ ان سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ کتوں کو کو اس ایکسکلیوژن زون میں رہنے کی اجازت کیوں دی جانی چاہیے۔۔ ان کا جواب ہوتا ہے کہ ‘وہ ہمیں خوشی دیتے ہیں۔۔۔ ذاتی طور پر میرے نزدیک یہ اس تابکاری کی تباہی کے بعد زندگی کی نغی علامت ہے۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.