- مصنف, ریبیکا موریل
- عہدہ, سائنس ایڈیٹر
- 40 منٹ قبل
دنیا کے بہت سے ممالک اور نجی کمپنیاں وسائل اور خلا میں برتری حاصل کرنے کی کوشش میں چاند پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ رواں ہفتے ہی چاند پر لہراتے ہوئے چین کے پرچم کی تصاویر زمین پر دیکھی گئیں جس نے چوتھی بار چاند پر لینڈنگ کی تاہم پہلی بار کوئی چینی مشن چاند کے ’تاریک کونے‘ سے نمونے لے کر واپس لوٹا ہے۔گزشتہ 12 ماہ کے دوران انڈیا اور جاپان نے بھی چاند کے اس حصے پر خلائی مشن بھیجے ہیں جبکہ فروری میں امریکی کمپنی ’انٹوئیٹیو مشینز‘ چاند پر لینڈر اتارنے والی پہلی نجی کمپنی بن گئی۔ بہت سی کمپنیاں اس کے نقش قدم پر چلنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔دوسری جانب امریکی خلائی ایجنسی ناسا انسان کو دوبارہ چاند پر بھیجنا چاہتی ہے اور اس کا مشن 2026 میں چاند پر جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ وہ بھی 2030 تک انسانی مشن چاند پر بھیجے گا۔ اور اس بار مستقل اڈے بنانا کا ارادہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔لیکن طاقت اور سیاست کے عالمی کھیل کے اس نئے دور میں نئی خلائی دوڑ زمین پر موجود تناؤ کو چاند کی سطح پر برآمد کر سکتی ہے۔
کنساس یونیورسٹی کے ماہر ارضیات جسٹن ہولکومب خبردار کرتے ہیں کہ ’چاند سے ہمارا رشتہ بہت جلد بدلنے والا ہے۔ باہری خلا کی دریافت میں تیزی ہمارے قوانین سے زیادہ تیز ہو چکی ہے۔‘1967 میں ہونے والے اقوام متحدہ کے ایک معاہدے کے مطابق کوئی ملک چاند کی ملکیت نہیں رکھ سکتا۔ دوسری جانب ’آؤٹر سپیس ٹریٹی‘ (یعنی باہری خلائی معاہدہ) کہتا ہے کہ چاند سب کا ہے اور ’کسی قسم کی بھی دریافت کا مقصد تمام انسانیت کی بھلائی اور مفادات ہونا چاہیے۔‘کہنے کو تو یہ معاہدہ پرامن اور اشتراک پر مبنی لگتا ہے اور کافی حد تک ہے بھی، لیکن باہری خلا پر ہونے والے معاہدے کے پیچھے تعاون نہیں بلکہ سرد جنگ کی سیاست کا ہاتھ تھا۔دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا تو اس بات کا خدشہ موجود تھا کہ خلا ایک نیا عسکری محاذ بن سکتی ہے اور اسی لیے اس معاہدے کا اہم نکتہ یہ تھا کہ خلا میں جوہری ہتھیار نہیں بھیجے جائیں گے۔ 100 سے زیادہ ممالک نے اس معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔لیکن نئے دور کی خلائی مہم اس زمانے سے مختلف محسوس ہوتی ہے۔ جدید دور میں چاند پر بھیجے جانے والے مشن میں ایک بڑی تبدیلی یہ ہے کہ اب صرف ریاستیں ہی نہیں بلکہ نجی کمپنیاں بھی اس دوڑ کا حصہ بن چکی ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا ذریعہReuters
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.