چار ملین ڈالر کا مکان، فراری اور ’خصوصی بطخ‘: امریکی عہدیدار جن پر چینی جاسوس ہونے کا الزام ہے،تصویر کا ذریعہReuters
،تصویر کا کیپشنلنڈا سن اور ان کے شوہر کرسٹوفر ہو

  • مصنف, سام کبریل
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • ایک گھنٹہ قبل

امریکی حکومت کے لیے کام کرنے والی ایک خاتون پر الزام ہے کہ انھوں نے خفیہ طور پر چینی حکومت کے لیے جاسوسی کی اور اس کے بدلے میں مختلف مراعات حاصل کیں۔یہ الزام لنڈا سن نامی چینی نژاد خاتون کے خلاف ایک امریکی عدالت میں دائر مقدمے کی دستاویزات میں سامنے آیا ہے۔ واضح رہے کہ لنڈا سن تقریبا 14 سال کے عرصے میں نیو یارک ریاست کے گورنر کی ڈپٹی چیف آف سٹاف بننے میں کامیاب ہوئیں۔تاہم امریکی استغاثہ کے مطابق 41 سالہ لنڈا نے اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے چینی حکام کی غیر قانونی طریقے سے مدد کی جس میں تائیوان کے سفارت کاروں کی ریاستی حکام تک رسائی روکنا اور خفیہ طریقے سے سرکاری دستاویزات چین کو فراہم کرنا شامل ہیں۔جاسوسی کے بدلے میں مبینہ طور پر چین نے لنڈا سن اور ان کے شوہر کو لاکھوں ڈالر رقم فراہم کی جس سے جوڑے نے نیو یارک میں چار عشاریہ ایک ملین ڈالر کا مکان خریدا۔

’سب کچھ ہو گیا ہے‘

عدالتی دستاویزات میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ جاسوسی کے عوض حاصل ہونے والی رقم سے اس جوڑے نے ہوائی میں ساحل سمندر پر دو عشاریہ ایک ملین ڈالر کی رقم سے ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ کے ساتھ ساتھ لگژری گاڑیاں بھی خریدی جن میں ایک 2024 ماڈل کی فراری روما سپورٹس کار شامل ہے۔تاہم لنڈا سن اور ان کے شوہر نے منگل کے دن بروکلن کی فیڈرل کورٹ میں ان الزامات سے انکار کیا جن میں منی لانڈرنگ کرنے کے علاوہ ویزا فراڈ اور غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر خود کو رجسٹر کرنے میں ناکامی کا الزام بھی شامل ہے۔یاد رہے کہ امریکی قانون کے تحت کسی اور ملک یا غیر ملکی سیاسی جماعت کے مفادات کے لیے کام کرنے والوں کے لیے قانونی شرط ہوتی ہے کہ وہ خود کو بطور ’فارن ایجنٹ‘ رجسٹر کروائیں۔ لیکن لنڈا نے ایسا نہیں کیا۔امریکی حکام کے مطابق چین میں پیدا ہونے والی لنڈا نے اس بات کو چھپایا کہ انھوں نے ’چینی حکام کے حکم، درخواست یا ہدایات‘ پر کام کیے۔2020 میں جب کورونا وبا نیو یارک ریاست میں پھیل رہی تھی، لنڈا نے مبینہ طور پر چینی کونسلر حکام کو نیو یارک ریاست کے سربراہان تک رسائی فراہم کرنے کا انتظام کیا۔دستاویزات میں الزام لگایا گیا ہے کہ لنڈا نے ایک موقع پر ایک چینی اہلکار کو حکومتی فون کال میں شامل کر لیا جس میں کورونا سے نمٹنے کے اقدامات پر بات چیت ہو رہی تھی۔نیو یارک کے سابق پراسیکیوٹر ہارورڈ ماسٹر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ الزامات اس پریشان کن رجحان کی نشان دہی کرتے ہیں جس کے تحت سینئر عہدیدار، جن میں سابق نیو جرسی سینیٹر باب مینڈیز شامل ہیں، غیر ملکی حکومتوں سے رشوت کے طور پر تحائف وصول کرتے ہیں۔‘لنڈا سن پر عائد الزامات میں ایسے واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے جب انھوں نے تائیوان کے حکام اور امریکی عہدیداران میں رابطوں میں رکاوٹ ڈالی۔2016 میں ایک چینی عہدیدار کو بھیجے جانے والے پیغام میں لنڈا سن نے مبینہ طور پر فخر سے کہا کہ ’سب کچھ اطمینان بخش طریقے سے ہو گیا ہے‘ جب تائیوان کی جانب سے منعقد کی جانے والی ایک تقریب میں نیو یارک کے ایک اعلی عہدیدار کی شرکت کو کامیابی سے روک دیا گیا۔جب تائیوان کے صدر 2019 میں نیو یارک آئے تو لنڈا سن کو ان کے خلاف چینی حمایت یافتہ مظاہرے میں شرکت کرتے بھی دیکھا گیا۔

جنوی 2021 تک لنڈا نے پس منظر میں رہتے ہوئے چین کی اقلیتی مسلمان اوغیور آبادی کی حراست کا ذکر بھی امریکی حکام کی نظروں سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ان پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انھوں نے چینی سیاست دانوں کو امریکہ کا سفر کرنے کے لیے فراڈ پر مبنی خطوط فراہم کیے اور بنا سرکاری اجازت کے ایک چینی شہری کو نیو یارک گورنر کی ایشیائی امریکی ایڈوائزری کونسل میں نوکری فراہم کرنے کا خط بھی دیا۔

کزن کو نوکری اور گھر پر خصوصی بطخ کے تحائف

ان خدمات کے بدلے میں مبینہ طور پر لنڈا سن نے، امریکی استغاثہ کے مطابق، ’معاشی اور دیگر فوائد حاصل کیے۔‘دستاویزات کے مطابق ان تحائف میں بیجنگ کے خرچے پر چین کا دورہ، کنسرٹ اور کھیلوں کی تقریبات کے ٹکٹ، چین میں لنڈا کے ایک رشتہ دار کے لیے نوکری کا اہتمام ہوا حتی کہ ایک چینی عہدیدار کے ذاتی باورچی کے ہاتھوں پکی ہوئی نینجنگ سٹائل کی خصوصی بطخ بھی انھیں گھر پر مہیا کی جاتی رہیں۔فرد جرم کے مطابق یہ بھی ایک تحفہ تھا جو چین میں ان کے والدین کے گھر پر کم از کم 16 بار بھجوایا گیا۔منگل کے دن ہی امریکی حکام نے اس جوڑے کو گرفتار کیا تھا تاہم عدالت نے انھیں ضمانت پر رہا کر دیا اور ہدایت دی کہ وہ صرف تین امریکی ریاستوں کا سفر کر سکتے ہیں اور لنڈا سن چینی سفارت کاروں سے رابطہ نہیں کر سکتی ہیں۔ان کے وکیل جیروڈ شیفر نے خبر رساں ادارے اے پی نیوز کو بتایا کہ ’ہم ان الزامات کا عدالت میں مقابلہ کریں گے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}