آسٹریلیا میں لاپتہ ہونے والی چار برس کی بچی 18 دن بعد مل گئی
مشرقی آسٹریلیا میں لاپتہ ہونے والی ایک چار سالہ بچی کو 18 دن بعد ایک گھر سے ڈھونڈ لیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق کلیو سمتھ نامی یہ بچی اس وقت لاپتہ ہوئی جب 16 اکتوبر کو وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ کارنارون کے علاقے کے پاس کیمپ سائٹ پر ایک خیمے میں تھی۔ بچی کے لاپتہ ہونے کے بعد وسیع پیمانے پر اس کی تلاش شروع کر دی گئی تھی۔
بدھ کے روز پولیس نے فرانزک شواہد ملنے پر ایک گھر پر چھاپہ مارا۔ پولیس نے بتایا کہ 36 برس کے ایک شخص کو حراست میں لیا گیا ہے اور ان سے پوچھ گچھ جاری ہے۔
ڈپٹی کمشنر کول بلانک نے پولیس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ انھیں کلیو ایک کمرے سے ملی اور ایک پولیس افسر نے جب اسے اٹھا کر نام پوچھا تو بچی نے کہا کہ ’میرا نام کلیو ہے۔‘
بچی اب اپنے والدین کے ساتھ ہے اور پولیس کی جانب سے جاری ایک ویڈیو میں کلیو کو مسکراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
کلیو کی والدہ ایلی سمتھ نے انسٹاگرام پر لکھا کہ ’ہمارا خاندان اب دوبارہ مکمل ہو گیا ہے۔‘
پولیس کمشنر کرس ڈاسن نے کہا ہے کہ ’کلیو کو میڈیکل سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں۔ ‘
حکام کا کہنا ہے کہ حراست میں لیے گئے شخص کا سمتھ خاندان سے کوئی تعلق نہیں اور ابھی تک کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔
جس گھر سے کلیو ملی ہے وہ اس کے اپنے گھر سے صرف چھ منٹ کی مسافت پر ہے۔ یہ جگہ کارناون کے علاقے میں ہے جہاں کی آبادی تقریباً پانچ ہزار ہے۔
آسٹریلیا کے وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے اس واقعے کے بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’ایک بہت اچھی خبر ہے اور میرے خیال میں پورا آسٹریلیا اس پر خوش ہے۔ ‘
پولیس کمشنر کے مطابق ’ایک چھوٹی بچی کا مل جانا، جسے نقصان پہنچ سکتا تھا، وہ بھی اٹھارہ دن کے بعد تو ظاہر ہے لوگوں کے ذہن میں خوف تھا لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہم پر امید رہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟
کلیو اور ان کا خاندان کوابا بلوولز نامی کیمپنگ سائٹ پر چھٹیاں گزار رہا تھا۔ یہ ان کی وہاں پہلی رات تھی اور رات ایک بج کر 30 منٹ اور چھ بجے کے درمیان کلیو لاپتہ ہو گئی۔
دور دراز کیمپنگ کی یہ جگہ مکلیوڈ نامی علاقے سے 900 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ پاس ہی ساحلی علاقہ کورل کوسٹ ہے جو اپنے ساحل، سمندری غاروں اور دلکش مناظر کی وجہ سے مقامی لوگوں میں بہت مقبول ہے۔
کلیو اپنے ایرر میٹرس پر اپنی چھوٹی بہن کے برابر سو رہی تھی جب ان کی والدہ نے جو کہ برابر ہی اس خیمے کے دوسرے کمرے میں تھیں، صبح اٹھ کر اس کمرے میں دیکھا تو کلیو وہاں موجود نہیں تھی اور خیمے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔
پولیس نے کہا کہ اس سے کلیو کے اغوا کے خدشات پیدا ہوئے۔ ماں نے اس بات پر زور دیا کہ کلیو خود کبھی بھی ٹینٹ چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔
ریاست کے دارالحکوت پرتھ میں 100 پولیس اہلکاروں کی ایک ٹاسک فورس بنائی گئی جنھوں نے زمین، فضا اور سمندر میں کلیو کی تلاش کا آغاز کیا اور اس دوران جہازوں کا استعمال بھی کیا گیا۔ اس کے ساتھ حکام نے کلیو کے بارے میں معلومات دینے والے کے لیے دس لاکھ آسٹریلوی ڈالر کے انعام کا اعلان بھی کیا۔
یہ کیس بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا رہا اور اس بات کی بھی اطاعلات آرہی تھیں کہ باؤنٹی ہنٹرز نے اس علاقے کا رخ کیا جہاں کلیو لاپتہ ہوئی تھی۔
مغربی ممالک میں باؤنٹی ہنٹرز ان لوگوں کو کہتے ہیں جو انعام کی رقم کی خاطر لاپتہ افراد کا سراغ لگاتے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر بلانک کے مطابق انھوں نے ہزاروں کی تعداد میں دستیاب معلومات کو باریکی سے جائزہ لیا اور ان کے مطابق یہ ایسا تھا جیسے ’آپ گھاس کے ڈھیر میں سوئی تلاش کر رہے ہوں‘۔
آسٹریلوی ٹی وی چینل ’نیٹ ورک سیون‘ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’کل رات بلآخر وہ سوئی مل ہی گئی جو ہمیں اس جگہ تک لے گئی اور وہاں سے ہم نے کلیو کو بازیاب کرایا۔‘
پولیس نے کہا کہ یہ معلومات ایک گاڑی کے متعلق تھیں لیکن اس سے زیادہ انھوں نے مزید کچھ بتانے سے انکار کر دیا۔
اے بی سی نیوز چینل کے مطابق جہاں سے کلیون کبو رآمد کیا گیا اس گھر کے ایک پڑوسی نے وہاں رہنے والے کو نیپی خریدتے دیکھا تھا۔
’ہمیں نہیں سمجھ آیا کہ وہ کس کے لیے نیپی خرید رہے ہیں۔‘
مقامی برادری میں کلیو کے مل جانے کی خبر سے علاقے کے لوگ مطمئن اور خوش ہیں۔
کارنارون شائر کی صدر ایڈی سمتھ نے آسٹریلوی ریڈیو چینل ’ٹو جی بی‘ کو بتایا کہ ’یہ اٹھارہ دن ہم سب کے لیے بے چینیی اور پریشانی کا باعث رہے۔‘
جبکہ ڈپٹی کمشنر بلانک نے ریڈیو ’سکس پی آر‘ کو بتایا کہ کلیو کے مل جانے کی خبر سن کر تجربہ کار پولیس افسر خوشی سے رو رہے تھے۔
Comments are closed.