یہ احتجاج اگرچہ پرتشدد نہیں تھا لیکن وہاں کے لوگوں نے سماجی اور معاشی طور پر بائیکاٹ کو متاثر کیا۔ انھیں فصلیں کاشت کرنے اور کٹائی کرنے کے لے بھی کوئی مزدور نہ ملتا تھا۔سنہ 1880 کی دہائی کے آخر میں برطانوی اخبارات میں اسے بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا، اخبارات نے ائرلینڈ میں کرائے پر زمین لے کر کام کرنے والے کسانوں کی حکمت عملی کا حوالہ دینے کے لیے چارلس کننگھم بائیکاٹ کی کنیت کا استعمال شروع کیا اور اس طرح کچھ ہی عرصے بعد لفظ بائیکاٹ کو کئی زبانوں کی لغات میں جگہ مل گئی۔
’کیپٹن بائیکاٹ‘
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesچارلس کننگھم بائیکاٹ 1832 میں انگلینڈ کے شہر نارفولک میں پیدا ہوئے۔ ان کی اصل کنیت ’بوائکاٹ‘ تھی لیکن جب وہ نو سال کے تھے تو تب کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر خاندان نے ان کے نام کے ہجے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔فوجی زندگی میں دلچسپی کے باعث انھوں نے 1848 میں رائل ملٹری اکیڈمی میں داخلہ لیا لیکن امتحانوں میں مسلسل فیل ہونے کے باعث سنہ 1849 میں انھیں اکیڈمی سے فارغ کر دیا گیا۔تاہم ان کے خاندان نے اچھی رقم ادا کرکے ان کے لیے ایک رجمنٹ میں نوکری خریدی، یہ ان دنوں ایک عام رواج تھا اور اس طرح اندراج کروانے والے کو فوری طور پر افسر کے عہدے تک پہنچنے کا موقع ملتا تھا۔لیکن سپاہی بننے میں ان کی دلچسپی جلد ہی ختم ہو گئی اور تین سال بعد انھوں نے زمیندار بننے کے لیے فوج چھوڑ دی۔وہ آئرلینڈ کے شمال مشرق میں کاؤنٹی میو سے دور ایکل کے جزیرے پر چلے گئے۔ وہاں انھوں نے زمین خریدی اور مشکلات کے باوجود وہ جتے رہے اور اس زمین پر کاشتکاری سے خوشحالی ان کے نصیب میں آئی۔وہ 17 سال تک وہاں رہے، لیکن کھیتی باڑی کے لیے کسی ایسی جگہ بہتر زمینیں حاصل کرنے کے خواہشمند تھے جہاں زیادہ آبادی سے قریب رہ سکیں۔اور انھیں یہ موقع 1872 میں اس وقت ملا جب ارل آف ایرن جان کرچٹن، جو آئرلینڈ میں 15 ہزار ہیکٹر سے زیادہ رقبے کے مالک تھے، کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھے جو کاؤنٹی میو میں ان کی زمینوں کا انتظام سنبھال سکیں۔ معاہدے میں تقریباً 250 ہیکٹر کاشتکاری کے لیے 250 ہیکٹر، اصطبل کے ساتھ ایک اچھا گھر اور بہت بڑا حمام بھی شامل تھا۔ارل آف ایرن جان کرچٹن چاہتے تھے کہ انگریز اپنی اتھارٹی قائم کریں اور ان کی زمینوں کے کرائے کے انتظامات کے انچارج بنیں۔غالباً چارلس بائیکاٹ کا نک نیم ’کپتان‘ ان کی جانب سے کرایہ داروں و کسانوں کے ساتھ سخت گیر سلوک اور فوجی پس منظر کی وجہ سے پڑ گیا تھا، اور شاید یہی چیز اس معاہدے کو حاصل کرنے میں ان کی مددگار بھی رہی۔سوانح نگاروں کے مطابق بائیکاٹ آقاؤں، مالکان اور زمینداروں کے ’خدائی حق‘ پر یقین رکھتے تھے ۔ کسی کے بارے میں سوچے بغیر وہ اپنی مرضی کے مطابق برتاؤ کرنے کے لیے مشہور تھے۔سخت گیر برتاؤ اور ان کی ناپسندیدہ شخصیت نے انھیں کرایہ دار کسانوں میں بہت غیر مقبول بنا دیا۔بائیکاٹ کو ایسے لوگوں کو زمینوں سے بے دخل کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی تھی جو وقت پر اپنا کرایہ ادا نہیں کر پاتے تھے اور اکثر انتہائی معمولی غلطیوں کے لیے وہ ان پر جرمانہ عائد کر دیتے تھے۔۔۔ یہ معمولی غلطیاں جیسے ان کے جانوروں میں سے کسی ایک کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہو اور وہ زمینوں پر گھومنے لگے یا کوئی کسان کام پر دیر سے پہنچے۔ان غلطیوں کے جرمانے بعض اوقات ان کی تنخواہوں سے بھی تجاوز کر جاتے تھے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
کسانوں کی تنظیم کے ساتھ محاز آرائی
1870 کی دہائی کے اواخر میں ائرلینڈ میں فصلیں شدید متاثر ہوئیں اور قحط کی صورتحال پیدا ہو گئی۔ ایسے میں کرائے پر زمین لے کر کاشت کرنے والے کسانوں کو تباہ کن حالات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے لیے زمینوں کے کرائے دینا مشکل ہو گئے۔1879 میں میو کاونٹی میں ایسے ہی کرائے پر زمین لے کر کاشت کرنے والے ایک کسان کے بیٹے نے آئرلینڈ میں کسانوں کی قومی سطح پرایک تنظیم بنائی جس کا مقصد کسانوں سے حاصل کردہ کرایوں میں کمی کروانا اور ان کی بے دخلی کو روکنا تھا۔یہ تنظیم آئرلینڈ کی آزادی کی تحریک کے ساتھ بھی منسلک رہی لیکن اس کا بنیادی مقصد کسانوں کو ان کی کاشت کی جانے والی زمین کے مالکانہ حقوق دلوانا تھا۔ڈیوک آف ارنز کی زمینوں پر کاشت کرنے والے کرائے کے کسانوں نے کرائے کی مد میں معاوضے کو 25 فیصد کم کرنے کی درخواست کی لیکن ڈیوک نے صرف 10 فیصد کمی کی اور بائیکاٹ کو اجازت دی کہ اگر ان کے کوئی واجبات ہیں تو جلد از جلد موصول کرے اور جو ادا نہیں کرتے انھیں زمینوں سے بے دخل کر دے۔تین کسانوں کے خاندانوں کو بے دخل کیا گیا جس نے کسانوں کی تنظیم کو اس اقدامات کے خلاف ردعمل دینے پر متحرک کیا۔ رکن پارلیمان چارلس سٹیورٹ پارنل جو اس تحریک کے لیڈر تھے نے اپنی تقریر میں ساتھیوں سے کہا کہ جو بھی کسی کسان کو زمین سے بے دخل کرے تو اس شخص کو ’تنہا چھوڑ دیا جائے، جیسے ’اس کو کوڑھ کا مرض ہو۔‘جس کے بعد کیپٹن بائیکاٹ نے خود کو کمیونٹی سے الگ تھلگ پایا کیونکہ کوئی بھی ان سے چیزیں نہیں خریدتا تھا اور نہ ہی اسے فروخت کرتا تھا۔ وہ اپنی زمین بھی کاشت نہیں کر پا رہے تھے یا مقامی آبادی کے ساتھ کوئی اور کاروبار نہیں کر پا رہے تھے۔ یہاں تک کہ ڈاکیے نے بھی ان سے قطع تعلقی کرتے ہوئے انھیں خط پہنچانا بند کر دیے تھے۔فصلوں کے سڑنے کے امکان کے پیش نظر، کچھ ہمدرد حکام نے فصل کی کٹائی کے لیے تقریباً 50 آدمیوں کی امدادی مہم کو منظم کرنے کے لیے چندہ اکٹھا کیا۔ کسانوں کو مقامی لوگوں کے ممکنہ تشدد سے بچانے کے لیے انھیں تقریباً 900 فوجی بھیجنے پڑے۔اس فورس کی نقل و حرکت، محنت اور دیکھ بھال کو مدنظر رکھتے ہوئے، آپریشن کی لاگت اس وقت تقریباً 10,000 پاؤنڈ سٹرلنگ تھی تاکہ فصلوں کو بچایا جا سکے جبکہ ان فصلوں کی قیمت بمشکل 350 پاؤنڈ تھی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایک نیا لفظ
بائیکاٹ کا معاملہ آئرلینڈ، انگلینڈ اور دیگر انگریزی بولنے والے ممالک میں بڑی خبر بن گیا۔ پورے آئرلینڈ میں ’بائیکاٹ‘ کی خبریں سامنے آنا شروع ہوئیں اور اس اقدام نے کسانوں کو ڈرامائی طور پر بااختیار بنایا۔حتمی طور پر یہ علم نہیں کہ ’بائیکاٹ‘ کا لفظ انگلش میں کب شامل کیا گیا لیکن چونکہ اس سے قبل ایسا کوئی موزوں لفظ نہیں تھا جو کسی کو الگ تھلگ کرنے، ڈرانے اور کسی چیز کے متعلق معیوب بنانے کے عمل کو بیان کر سکتا ہو، اس لیے اس لفظ کو 1888 میں آکسفورڈ کی انگریزی ڈکشنری میں شامل کیا گیا تھا۔’بائیکاٹ‘ کو بالآخر کئی دوسری زبانوں میں اپنایا گیا جن میں کوئی موزوں الفاظ نہیں تھے اور اکثر اس قسم کے تمام اعمال کی وضاحت کے لیے استعمال ہوتے رہتے ہیں، لیکن بنیادی طور پر کام کی جگہ یا سیاسی میدان میں کسی معاملے پر انکار یا اختلافی ردعمل ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوا۔اور جہاں تک چارلس کننگھم بائیکاٹ کا تعلق ہے بدنام ’کپتان‘ کچھ مہینوں بعد خاموشی سے انگلینڈ واپس آ گئے، جہاں 1897 میں ان کا انتقال ہوا، حالانکہ ان کے نام کی کنیت آج تک زندہ ہے اور مستقبل میں رہے گی۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.