چائے کی پیالی پر امریکہ اور برطانیہ میں تناؤ: ’ہائے کمبخت، تو نے پی ہی نہیں‘،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, نیاز فاروقی
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نیو دہلی
  • 54 منٹ قبل

متعدد مرتبہ ایسا دیکھنے، سُننے اور پڑھنے میں آیا ہے کہ دو مُمالک، علاقوں حتیٰ کے دو ہمسائیوں میں بھی اس بات پر تُند و تیز جملوں کا تبادلہ ہو گیا ہو کہ ’میاں ہمارے ہاں تو فلاں کھانا یا مشرب ایسے نہیں بنتا جیسے تمہارے ہاں بنتا ہے۔‘ انڈیا اور پاکستان میں بننے والی بریانی کی ہی مثال لے لیں، بلکہ انڈیا اور پاکستان کی تو دور کی بات ہے کراچی اور اسلام آباد کی بریانی کی بات کر لیں، یا اگر اور بات گہرائی میں جا کر کریں تو جناب بریانی آلو والی ہو یا بغیر آلو کے لڑائی تو اس پر بھی ہو جاتی ہے۔ بات لمبی تو ہو گئی مگر یہ ساری تہمید اس لیے باندھی کہ امریکہ اور برطانیہ آمنے سامنے تب آئے کہ جب ایک امریکی پروفیسر نے یہ کہہ دیا کہ جناب اگر آپ نے ایک ’پرفیکٹ کپ آف ٹی‘ بنانا ہے تو اُس میں ایک چُٹکی نمک ملا دیں۔زخموں پر نمک پاشی پر لڑائی ہوتی تو دیکھی مگر چائے میں نمک ڈالنے کی بات پر لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی۔۔۔

بس جناب پروفیسر صاحب کا یہ کہنا تھا کہ وہ لوگ اس بات کا بُرا منا گئے کہ ’چائے‘ جن کا قومی مشروب ہے یعنی برطانوی سرکار۔ اب امریکی پروفیسر کے اس بیان پر یوں محسوس ہونے لگا کہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کسی بھی وقت خراب ہو سکتے تھے، لیکن امریکی سفارت خانے نے ایک ’سنجیدہ‘ عوامی بیان جاری کر معاملے کو ’مزید پیچیدہ‘ ہونے سے عین وقت پر روک لیا۔اس سے پہلے کہ یہ ’سفارتی بحران‘ میں بدل جائے، لندن میں امریکی سفارت خانے نے فوری طور پر اپنے موقف کی وضاحت کی اور کہا کہ ’برطانیہ کے قومی مشروب میں نمک ملانے کا یہ ناقابل تصور بیان امریکہ کی سرکاری پالیسی نہیں ہے۔‘اس بیان میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ ’اور یہ کبھی نہیں ہوگا۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesیہ پہلی مرتبہ تو نہیں ہوا کہ چائے کی وجہ سے دونوں کے درمیان تعلقات خراب ہوئے ہوں۔ تاریخ میں اگر غوطہ لگائیں تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ سنہ 1773 میں امریکی شہر بوسٹن میں مظاہرین نے برطانوی ٹیکسوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بھی چائے پر ہی حملہ کیا تھا اور غصے میں آکر چائے سے بھرے 300 ڈبے بندرگاہ سے پانی میں پھینک دیے تھے، یہ وہ لمحہ تھا جس نے امریکی انقلاب کو جنم دیا۔لیکن دہائیوں بعد اور دو براعظم دور، برطانوی حکومت کی طرح انڈیا میں بھی یہ ایک انتہائی جذباتی موضوع تھا۔وہ ایسے کہ اس خطے یعنی ایشیا میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ چائے پیدا ہوتی ہے اور یہی نہیں بلکہ اس کا سب سے زیادہ استعمال بھی یہیں ہوتا ہے۔ چین، انڈیا اور سری لنکا چائے کی پیداوار کے لیے اہم ملک ہیں اور چائے کا سب سے بڑا صارف انڈیا ہی ہے۔اگرچہ چائے کی ابتدا چین سے ہوئی اور براعظم کی تاریخ میں بھی اس کا ذکر واضح الفاظ میں ملتا ہے، لیکن اس کی تجارتی پیداوار کا آغاز انگریزوں نے ہی 19 ویں صدی میں انڈیا سے کیا۔جلد ہی اس کی کھپت میں وسیع پیمانے پر اضافہ ہونا شروع ہوگیا، اور اب یہ اس قدر عام ہو چکی ہے کہ پورے دنیا میں اسے مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ بلکہ اسی مقبولیت کی وجہ سے انڈیا اسے ایک دہائی پہلے اپنے ’قومی مشروب‘ قرار دینا چاہتا تھا۔ حالانکہ کئی امریکی آج کے زمانے میں بھی اس کی بے عزتی ’چائے ٹی‘ کہہ کر کرتے ہیں جس کا اگر لفظی ترجمعہ کیا جائے تو مطلب ’چائے چائے‘ ہوگا۔ لیکن انڈیا اور انگلینڈ میں آج بھی چائے بنانے کے طریقے کئی لوگوں کے لیے ایک جذباتی موضوع ہے۔

یہ بھی پڑھیے

،تصویر کا ذریعہGetty Imagesآزادی سے پہلے بہار میں پیدا ہونے والے برطانوی مصنف جارج اورویل نے چائے کو برطانوی ’تہذیب کی بنیاد‘ قرار دیا تھا لیکن اصرار بھی کیا تھا کہ ’اسے بنانے کا بہترین طریقہ پرتشدد تنازعات کا موضوع ہے۔‘سنہ 1946 کے ایک مضمون میں انھوں نے چائے بنانے کے 11 اصول پیش کیے اور اس میں چینی کے استعمال کی شدید مخالفت کی۔ انھوں نے لکھا ’چائے اگر کوئی روسی انداز میں نہیں پی رہا ہو تو اسے بغیر چینی کے ہی پینا چاہیے۔‘وہ چائے میں تھوڑا سا نمک یا مرچ ڈالنے کے خیال کے مخالف نہیں تھے، کیوں کہ ان کا کہنا تھا کہ چائے کا مطلب کڑوا ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ اسے میٹھا بناتے ہیں تو آپ اب چائے نہیں چکھ رہے ہیں، آپ صرف چینی چکھ رہے ہیں۔‘ ان کا خیال تھا کہ اس صورت میں چائے پینے والے کو سادہ گرم پانی میں چینی ملا کر وہ مشروب پی لینا چاہیے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesچائے کے وہ شوقین جو دیگر وجوہات کی بنا پر، مثلاً چائے کا ذائقہ دور کرنے کے لیے، چینی کا استعمال کرتے ہیں، اورویل انھیں گمراہ یا بھٹکے ہوئے قرار دیتے ہیں۔ وہ ان سے کہتے ہیں کہ ’اگر وہ غالباً پندرہ دن تک چینی کے بغیر چائے پینے کی کوشش کریں تو یہ بہت مشکل ہوگا کہ وہ اس میں دوبارہ چینی ڈال کر اپنی چائے کو برباد کرنا چاہیں گے۔‘انڈیا کی آزادی میں حصہ لینے والے مولانا ابو الکلام آزاد نے بھی اپنی چائے کی ترجیحات کو سنہ 1946 میں غبارِ خاطر نامی ایک کتاب میں شائع کیا تھا، جو کہ انھوں نے جیل میں رہتے ہوئے لکھی تھی۔ان کی بنیادی رنجش بھی اورویل کی طرح چائے میں بہت زیادہ چینی ڈالنے والوں سے تھی اور انھوں نے اس طرح کی چائے کو ’سیال حلوہ‘ قرار دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’میں چائے کو چائے کے لیے پیتا ہوں، لوگ شکر اور دودھ کے لیے پیتے ہیں۔‘وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ چین میں 1500 سال پہلے سے چائے کی پیداوار ہوتی ہے اور وہاں سے یہ کئی اور ملکوں میں بھی گئی ہے لیکن ’وہاں کبھی کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں گزری کہ اس جوہرِ لطیف کو دودھ کی کثافت سے آلودہ کیا جا سکتا ہے۔‘ان کی شکایت برطانوی لوگوں سے تھی جنھوں نے اس میں دودھ ڈالنے کا چلن شروع کیا۔وہ لکتھے ہیں کہ ’سترھویں صدی میں جب انگریز اس سے آشنا ہوئے تو نہیں معلوم ان لوگوں کو کیا سوجھی، انھوں نے دودھ ملانے کی بدعت ایجاد کی۔ اور چونکہ ہندوستان میں چائے کا رواج انھیں کے ذریعے ہوا، اس لیے یہ بدعت سئیہ یہاں بھی پھیل گئی۔‘ان کی رنجش یہ بھی تھی کہ لوگ چائے میں دودھ کے بجائے دودھ میں چائے ڈالنے لگے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’اب انگریز تو یہ کہہ کر الگ ہو گئے کہ زیادہ دودھ نہیں ڈالنا چاہیے، لیکن ان کے تخمِ فساد نے جو برگ و بار پھیلا دیے ہیں، انھیں کون چھانٹ سکتا ہے۔‘ان کا ماننا تھا کہ لوگ چائے کی جگہ ایک طرح کا سیال حلوہ بنانے لگے ہیں۔ ’کھانے کی جگہ پیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے چائے پی لی۔‘وہ مزید کہتے ہیں کہ ان سے کون کہے کہ ’ہائے کمبخت! تو نے پی ہی نہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}