الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی پی 7 کہوٹہ میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی تحریکِ انصاف کی درخواست مسترد کر دی۔
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے امیدوار شبیر اعوان کی درخواست مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ درخواست گزار ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی وجوہات بتانے میں ناکام رہا ہے۔
اس سے کچھ دیر قبل الیکشن کمیشن نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
پی پی 7 راولپنڈی کے کیس کی لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے حکم پر آج الیکشن کمیشن میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
مسلم لیگ ن کے راجہ صغیر، پی ٹی آئی کے شبیر اعوان اور ریٹرننگ آفیسر پی پی 7 الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔
پی ٹی آئی کے شبیر اعوان نے دوبارہ گنتی کی درخواست دے دی، شبیر اعوان کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار 49 ووٹ سے ہارے ہیں، ہماری دوبارہ گنتی کی درخواست پر گنتی نہیں کرائی جا رہی۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں تو آپ کی جانب سے کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی، کل شام 5 بجے تک الیکشن کمیشن کے پاس کوئی درخواست نہیں آئی تھی، آپ نے ہائی کورٹ فیصلے کے بعد درخواست دائر کی ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ آپ نے الیکشن کمیشن پر الزام لگایا ہے کہ ہم آپ کی درخواست کو دیکھ نہیں رہے، بتائیں آپ کی درخواست کب آئی ہے؟
ای سی پی کے حکام نے کہا کہ ساڑھے 5 بجے شبیر اعوان کے نمائندے درخواست لے کر آئے جو 10 منٹ بعد واپس لے گئے۔
شبیر اعوان کے وکیل نے کہا کہ خبر آئی کہ آر ٹی ایس بیٹھ گیا، اس لیے نتائج کا اعلان نہیں ہو رہا تھا، شبیر اعوان کو 312 ووٹوں کی برتری حاصل تھی اور صرف ایک پولنگ اسٹیشن رہ گیا تھا اور اسی وقت آر ٹی ایس نظام بیٹھ گیا۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کسی ضمنی الیکشن میں آر ٹی ایس استعمال نہیں ہوا، آر ٹی ایس انٹرنیٹ کا نظام ہے، جو انٹرینٹ کی خرابی سے متاثر ہو جاتا ہے، پریزائیڈنگ افسر کو ذاتی طور پر نتائج دینے ہوتے ہیں، ابھی رزلٹ مینجمنٹ سسٹم استعمال ہوا، وہ ایسا نظام ہے جو کمپیوٹر میں ہوتا ہے، اس کا انٹرنیٹ سے کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کہیں کمیونیکیشن کے لیے کوئی نظام استعمال نہیں ہوا، آر ایم ایس کا انٹرنیٹ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، آر ایم ایس اسکرین پر نتائج کا صرف ڈسپلے ہے، آر ایم ایس کا نیا اور سابقہ نظام دونوں اکٹھے کام کر رہے تھے تاکہ بیک اپ رہے، آپ نے دانستہ آر ٹی ایس نہیں لکھا ہو گا، غلطی ہوئی ہوگی، فارم 47 کو آر ایم ایس پر اپ لوڈ کیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ٹھیک ہے سسٹم کام کر رہا تھا، لیکن نتائج نہیں آ رہے تھے، جیت کا مارجن بہت کم ہے، اسی لیے دوبارہ گنتی کی درخواست دی۔
انہوں نے کہا کہ قانون بھی کہتا ہے کہ جیت کا مارجن کُل پول شدہ ووٹ کے 5 فیصد سے کم ہو یا 10 ہزار ووٹ سے کم ہو تو دوبارہ گنتی ہو سکتی ہے، اگر آر او سمجھے کہ درخواست غیر مناسب نہیں، مناسب ہے تو بھی دوبارہ گنتی ہو سکتی ہے۔
شبیر اعوان کے وکیل کا کہنا ہے کہ جہاں بے قاعدگی ہوئی وہاں دوبارہ گنتی ہو سکتی ہے، میری درخواست آر او نے صرف اس لیے خارج کی کہ میں نے مواد نہیں دیا، رزلٹ آنے کے ساتھ ہی میں نے دوبارہ گنتی کی درخواست دے دی، میں 21 پولنگ اسٹیشن کے دوبارہ گنتی مانگ رہا ہوں، آر او نے ہماری درخواست مسترد کر دی۔
انہوں نے کہا کہ میں الیکشن کمیشن کے سامنے اپیل لے کر آیا ہوں، درخواست کے مناسب ہونے پر دوبارہ گنتی ہو سکتی ہے، ہمیں کہا گیا کہ ہماری درخواست میں شواہد نہیں ہیں، ہم نے الیکشن کے عمل کو کئی مراحل میں چیلنج کیا۔
ممبر کمیشن نے کہا کہ آپ بتائیں کہ دوبارہ گنتی کیوں ہونی چاہیے؟ ترقیاتی منصوبوں کی بات نہ کریں۔
سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ آپ 95/6 کے تحت آئے ہیں، آپ اس پر بات کریں، میں نہیں سمجھتا یہ اپیل ہے، آپ الیکشن کمیشن کو قائل کریں، آپ نے دوبارہ گنتی کی درخواست دی تھی یا ووٹ کو بھی چیلنج کیا تھا۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ہم نے دوبارہ گنتی کی درخواست کی تھی، ایک پولنگ اسٹیشن پر بیلٹ غیر قانونی دیے گئے انہیں اسی وقت چیلنج کیا، ہمارے پاس پولنگ ایجنٹس کے بیان حلفی ہیں، جس پر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ اگر اور بھی بے ضابطگی ہو رہی تھی تو آپ کو ان کا بھی ذکر کرنا چاہیے تھا۔
شبیر اعوان کے وکیل نے کہا کہ جس اسکرین پر رزلٹ آرہا تھا وہ بلینک ہوگئی، بگار شریف پولنگ اسٹیشن 10 کلومیٹر پکی سڑک پر تھا جس کا نتیجہ لیٹ کیا گیا، پریزائیڈنگ افسر وہیں ادھر ادھر پھرتا رہا، جو لوگ مر چکے ان کا بھی ووٹ پول ہوا۔
سکندر سلطان راجہ نے دریافت کیا کہ دوبارہ گنتی میں مر جانے والے افراد کے ووٹ پول کا کیسے معلوم ہو گا؟
جس پر وکیل نے بتایا کہ وہ ووٹ مسترد ہوئے جن پر انگوٹھے کا امیدوار کے نام پر نشان تھا۔
ممبر الیکشن کمیشن نے ہدایت کی کہ ان ووٹس کو آپ علیحدہ سے چیلنج کریں۔
شبیر اعوان کے وکیل نے کہا کہ میرے مؤکل کی شکست کا مارجن بہت کم ہے، یہ دوبارہ گنتی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے، میں نے لکھ دیا ہے کہ کن پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ گنتی چاہتے ہیں، اگر ان کی دوبارہ گنتی ہو جائے تو بات واضح ہو جائے گی، اتنا کم مارجن ہے اس لیے یہی مناسب ہے کہ دوبارہ گنتی کی جائے۔
راجہ صغیر کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ محمد شبیراعوان کے پاس دھاندلی کے کوئی شواہد نہیں تھے، لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کے بعد یہ الیکشن کمیشن آئے، ان سے آر او نے پوچھا کہ کون سی بے ضابطگی سامنے آئی ہے، انہوں نے سارے حلقے کی دوبارہ گنتی کا کہا، انکار ہوا تو انہوں نے 21 پولنگ اسٹیشنز کا کہا، پولنگ اسٹیشن پر الزام ہوتا تو وہ پہلے دن ہی سامنے آ جاتا، یہ 20 جولائی کو 21 پولنگ اسٹیشنز کا الزام لے کر سامنے آئے۔
وکیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے پولنگ ایجنٹ کی کوئی درخواست نہیں تھی کہ ووٹ درست طریقے سے مسترد نہیں کیے گئے، ان کی کوئی درخواست نہیں تھی کہ 4 پریزائیڈنگ آفیسرز پر انہیں اعتراض ہے، کیا یہ پورے حلقے کی دوبارہ گنتی کی درخواست کر رہے ہیں یا صرف 21 پولنگ اسٹیشن کے لیے کر رہے ہیں؟ یہ پورے حلقے سے صرف 21 پولنگ اسٹیشن کی دوبارہ گنتی پر آ گئے، کوئی مناسب وجہ بیان نہیں کی، شبیر اعوان کی درخواست بے بنیاد ہے۔
شبیر اعوان کے وکیل نے جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آر او نے گوارہ نہیں کیا کہ درخواست کیوں دی، اسے وہیں مسترد کر دیا، اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ اس کے پیچھے کچھ ہے، آر او نے بار بار کہا کہ ابھی فیصلہ دیتا ہوں، پھر 11:30 بجے رات درخواست مسترد کر دی آر او نے کہا کہ آپ بیٹھ کر خود کوئی حل نکالیں۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ آپ نے ہائی کورٹ میں کہا کہ الیکشن کمیشن ہماری درخواست کو نہیں دیکھ رہا، ہم آپ کی درخواست ڈھونڈتے رہے۔
دوسری جانب ترجمان الیکشن کمیشن نے بتایا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے 19 نو منتخب ارکان کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
Comments are closed.