اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے مستعفی پی ٹی آئی ارکان کی واپسی کیلئے قانونی مشاورت کا فیصلہ کیا ہے۔
تحریک انصاف کے سابق ارکان قومی اسمبلی کی اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف سے ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی۔
پی ٹی آئی کا وفد اسپیکر قومی اسمبلی سے شاہ محمود قریشی کو قائد حزب اختلاف بنانے کا مطالبہ کرتا رہا۔
فواد چوہدری نے کہا ہم نہیں چاہتے کہ اسپیکر پر توہین عدالت لگے، اسپیکر راجا پرویز اشرف نے جواب دیا کس کی جرآت ہے کہ وہ اسپیکر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے؟
آج جب تحریک انصاف کے درجن بھر سابق ارکان قومی اسمبلی اسپیکر کے چیمبر پہنچے تو انہیں خوشگوار انداز میں خوش آمدید کہا گیا۔
اسپیکر آفس میں بیٹھتے ہی پی ٹی آئی کے عامر ڈوگر نے کہا کہ ہمیں لاہور ہائیکورٹ نے بحال کر دیا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ شاہ محمود قریشی کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نامزد کر دیں۔
اس پر اسپیکر نے کہا کہ ہم سنجیدہ معاملے پر بات کر رہے ہیں ہمیں غلط بیانی سے کام نہیں لینا چاہیے، لاہور ہائیکورٹ نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا جس میں کسی کی بحالی ہوئی ہو البتہ عدالت نے الیکشن کمیشن کے الیکشن کرانے کے حکم کو معطل کیا ہے، اسپیکر کا فیصلہ بدستور برقرار ہے۔
راجا پرویز اشرف کا کہنا تھا کہ آپ بتائیں شاہ محمود قریشی اب ایک سابقہ رکن ہیں، ان کو کیسے اپوزیشن لیڈر بنا دیا جائے؟
اسپیکر کے واضح جواب کے بعد فواد چوہدری غصے میں آ گئے اور کہا کہ ہم چاہتے ہیں ہم توہین عدالت میں نہ جائیں۔
فواد چوہدری کے اونچی آواز میں بولنے پر اسپیکر بھی غصے میں آ گئے اور بولے کون اسپیکر قومی اسمبلی کو توہین عدالت کا نوٹس بھیج سکتا ہے؟ نوٹس بھیجنے والوں کو اسپیکر نوٹس بھیج دے گا اور طلب کر لے گا۔
راجا پرویز اشرف نے کہا فواد چوہدری آپ پارلیمنٹ کی بے توقیری کیلئے کام نہ کریں، جو ایسی بات بھی کرے گا میں اس کو نوٹس کر دوں گا کیونکہ یہ راجا پرویز اشرف کی نہیں اسپیکر کی کرسی ہے، لوگ آتے جاتے رہتے ہیں لیکن اسپیکر کے عہدے اور اس کا تقدس برقرار رہے گا۔
اسپیکر کے جواب پر فواد چوہدری انتہائی معذرت خواہانہ انداز میں دھیمے لہجے میں بولے اسپیکر صاحب آپ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں جس پر راجا پرویز اشرف نے سوال پوچھا سب سے پہلے یہ بتائیں کیا جو استعفے آپ نے دیے تھے وہ جعلی تھے؟
انہوں نے پوچھا کہ کیا وہ استعفے آپ سب نے خود نہیں دیے تھے؟ اس موقع پر اسپیکر آفس میں مکمل خاموشی چھا گئی۔
کچھ دیر بعد پی ٹی آئی کے ایک اور رکن ثناء اللّٰہ مستی خیل اپنے سرائیکی لہجے میں بولے سائیں توساں ساڈے وڈے او، توساں سابقہ وزیراعظم رہے ہو، توساں مہربانی فرماؤ، ساڈے کولوں کوئی غلطی ہوگئی ہوے تے معاف کر دیو، تے کسی طرح اپنا فیصلہ واپس لے لو تے ساڈیاں نشستاں بحال کر دیو۔
اسپیکر قومی اسمبلی اس دوران زیر لب مسکراتے رہے اور مستی خیل کے خاموش ہوتے ہی بولے، قانون کے مطابق میں نے آپ کا طویل مدت تک انتظار کیا۔
انہوں نے کہا کہ عامر ڈوگر صاحب آپ میرے پاس تشریف لائے تھے، سابقہ اسپیکر اسد قیصر کے ساتھ اور آپ ہی نے مجھ سے شکایت کی تھی کہ میں نے استعفے قبول کیوں نہیں کیے اور قاسم سوری کا نوٹیفکیشن کس لیے روکا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ ڈوگر صاحب آپ نے تو کہا تھا کہ آپ اور آپ کی جماعت کسی صورت اس اسمبلی میں نہیں بیٹھنا چاہتی، اب ڈیڑھ ماہ کے بعد آپ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ کے استعفے قبول کیوں کیے گئے ہیں، ہمیں واپس بحال کر دیں۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ آپ سب بتائیں آپ کیا چاہتے ہیں؟ آپ کا کون سا موقف درست ہے؟
اس موقع پر ایک مرتبہ پھر اسپیکر آفس میں خاموشی چھا گئی اور پی ٹی آئی ارکان میں سے کوئی کچھ نہ بولا لیکن کچھ دیر بعد راجا پرویز اشرف نے کہا کہ چونکہ آپ آ گئے ہیں اور شرمندہ بھی ہیں تو میں اپنی قانونی ٹیم سے پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی راستہ نکل سکتا ہے اور کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ چلا ہوا تیر واپس آ جائے۔
اس کے بعد پی ٹی آئی ارکان اسپیکر کا شکریہ ادا کرکے واپس روانہ ہو گئے۔
Comments are closed.