پیکی بلائنڈرز: روسی افواج کی پیش قدمی کو ناکام بنانے والا ڈرون سکواڈ ’تھکے ہوئے اور ناراض‘ یوکرین کا دفاع کیسے کر رہا ہے؟
- مصنف, جوناتھن بیل
- عہدہ, دفاعی نامہ نگار، خارکیو
- 2 گھنٹے قبل
چند ہفتوں پہلے تک روسی افواج تیزی سے یوکرین کے شہر خارکیو کی جانب بڑھ رہی تھیں لیکن پھر یوکرینی افواج غیرمتوقع انداز میں لیپٹسی نامی گاؤں کے نزدیک اس پیش قدمی کو روکنے میں کافی حد تک کامیاب رہیں۔تاہم خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے اور لیپٹسی نامی یہ گاؤں اب بھی روسی افواج کے نشانے پر ہے۔یوکرین کی اس وقتی کامیابی کے پیچھے ’پیکی بلائنڈرز‘ نامی ایک یوکرینی فوجی یونٹ ہے۔ اس فوجی یونٹ نے یہ نام ’پیکی بلائنڈرز‘ نامی مشہور برطانوی ڈرامہ سیریز کے نام پر خود سے اپنایا ہے۔جب ہم اس یونٹ کے اہلکاروں کے ساتھ لیپٹسی گاؤں کی تباہ حال اور ویران گلیوں سے گزر رہے تھے تو قریب ہی گولہ باری کی شدید آوازیں بھی آ رہی تھی۔
ہمارے ساتھ موجود اس یونٹ کے دو اہلکار شاٹ گنز گاڑی کی کھڑکی سے باہر نکالے بیٹھے تھے۔ وہ آسمان میں قریب آتے کسی بھی روسی کامیکازی ڈرون کو نشانہ بنانے کے لیے تیار تھے۔ کامیکازی ڈرون روس اور یوکرین کی جنگ میں سب سے مہلک ہتھیار بن کر سامنے آئے ہیں۔’پیکی بلائنڈرز‘ نامی یوکرینی فوجی یونٹ بھی اِن ہی ڈرونز کو استعمال کرنے کے لیے مشہور ہے۔اس گروپ کے لیڈر اولیکسینڈر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب جنگ شروع ہوئی تو وہ عام شہریوں جیسے لباس پہن کر شاٹ گنوں کے ساتھ اپنی گلیوں کی حفاظت کے لیے نکلے تھے۔ ان کے خیال میں یہ مشہور ٹی وی شو کے ایک سین کی طرح تھا۔لیکن اب وہ محض رضاکاروں کی ٹیم نہیں رہے بلکہ سپیشل فورسز سے باقاعدہ تربیت یافتہ ہائی ٹیک ’پیکی بلائنڈرز‘ ہیں۔ ان کی ٹیم اب بھی ’پیکی بلائنڈرز‘ طرز کی ٹوپیاں پہنتی ہے جس کے پچھلے حصے پر اس یونٹ کا نعرہ کندہ ہوتا ہے: ’ڈھونڈ کر تباہ کرو‘۔،تصویر کا ذریعہBBC/LEE DURANT
لیکن فی الحال ایسا لگتا ہے کہ تازہ ترین روسی پیش قدمی ناکام ہو رہی ہے۔خارکیو کی فوجی انتظامیہ کے سربراہ اولیہ سنیہوبوف کا خیال ہے کہ روسی فوج کا اصل منصوبہ خارکیو شہر تک پہنچنا تھا۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ حال ہی میں پکڑے گئے روسی فوجیوں نے انکشاف کیا ہے کہ ان کا مقصد دو دن میں ووچانسک شہر پر قبضہ کرنا تھا جبکہ انھیں پانچ دنوں میں خارکیو شہر تک رسائی حاصل کرنی تھی۔روسی صدر ولادیمیر پوتن اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ شہر پر قبضہ اُن کے فوجی منصوبے کا حصہ تھا۔گورنر سینیہوبوف کا خیال ہے کہ روسیوں کو سرحد پر 2022 والی پوزیشن پر واپس دھکیلا جا سکتا ہے۔لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یوکرینی شہروں پر سے روسی قبضہ چھڑوانا صرف آدھی کامیابی ہے، اصل جنگ اُن کو آزاد رکھنا ہے۔خارکیو میں روس کی جانب سے شروع کی جانے والی نئی جارحیت کی لہر کے بعد ایک بار پھر یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا یوکرین واقعی یہ جنگ جیت سکتا ہے۔اس جارحیت کے بعد جہاں یوکرین کو مغرب کی جانب سے مہیا کی جانے والی امداد میں موجود خامیوں کی نشاندہی ہوئی ہے وہیں یوکرین کی فوج کو پیش افرادی قوت اور ہتھیاروں کی کمی بھی واضح ہو گئی ہے۔یوکرین اگر اس تازہ ترین جارحیت سے نمٹنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تب بھی وہ 800 میل (1,300 کلومیٹر) کا علاقہ کھو دے گا۔دوسری جانب روس تازہ فوجیوں کی بھرتی اور دوبارہ مسلح کرنے کی اپنی صلاحیت کے بل پر ایک بار پھر متحرک ہو گیا ہے جبکہ یوکرین اس کا مقابلہ نہیں کر پا رہا ہے۔
’مغربی دنیا روس سے ڈرتی ہے‘
رواں ہفتے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے مغربی ممالک کی جانب سے مہیا کی جانے والی محدود حمایت پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے اپنے اتحادیوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ ’روس کے جنگ ہارنے کے امکان سے خوفزدہ ہیں‘ اور چاہتے ہیں کہ کوئی ایسی صورت پیدا ہو کہ ’یوکرین جیت جائے لیکن روس نہ ہارے۔‘یوکرینی صدر کا اشارہ امریکی فوجی مدد میں حالیہ تاخیر کی طرف ہے۔یوکرین کے جنرل سٹاف کے سابق ڈپٹی چیف لیفٹیننٹ جنرل ایہور رومانینکو نے بی بی سی کو بتایا کہ فوجی مدد میں تاخیر سے امریکہ نے ’روسیوں کو چھ ماہ کی مہلت فراہم کر دی ہے۔‘یوکرین کی پارلیمانی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین اولیکسینڈر میریزکو کا کہنا ہے کہ اس طرح کی تاخیر مغربی ممالک کی خارجہ پالیسی میں تقسیم کو نمایاں کرتی ہے۔’مجھے لگتا ہے کہ جیسے کچھ لوگ پہلے ہی یوکرین کی تقسیم پر راضی ہو چکے ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مغرب کی پالیسی ہے کہ یوکرین کو مکمل شکست نہ ہو جبکہ روس کے ساتھ وہ براہ راست تنازعے میں پڑنے سے اجتناب کر رہے ہیں۔ ’جب آپ بیک وقت ان دونوں مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ پختہ عزم کے ساتھ کچھ نہیں کر پاتے۔‘لیفٹیننٹ جنرل رومانینکو دو ٹوک الفاظ میں کہتے ہیں کہ مغرب روس سے خوفزدہ ہے۔ ’اسے اس [خوف] پر قابو پانا ہو گا۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
آخر یہ جنگ کیسے ختم ہو گی؟
یوکرین کے اندر بھی اس بات پر اتفاق رائے بڑھتا جا رہا ہے کہ شاید یوکرین یہ جنگ صرف فوج کے ذریعے نہیں جیت سکتا۔یوکرین کے رکن پارلیمنٹ اولیکسینڈر میریزکو اعتراف کرتے ہیں کہ اس جنگ میں ملک کو بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔’ہم جانتے ہیں کہ ہمارا نقصان ہو رہا ہے، ہمارا آدھا پاور گرڈ اور ایک تہائی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ ہم اپنے لوگوں کو کھو رہے ہیں اور اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ ایک سال میں ہمارے پاس وہ ہتھیار ہوں گے جن کی ہمیں ضرورت ہے۔‘میریزکو کو یقین نہیں ہے کہ پوتن کے ساتھ امن مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ تاہم اب وہ جنگ بندی کی بات کو مسترد نہیں کرتے ہیں۔ان کے لیے یوکرین کی تقسیم قابل قبول نہیں لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ روس کے زیر قبضہ علاقوں کو واپس حاصل کرنا اب ایک طویل عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا ملک ’تھکا ہوا اور ناراض‘ ضرور ہے لیکن ’شکست خوردہ نہیں‘ ہے۔لیفٹیننٹ جنرل رومانینکو بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یوکرین کو اپنی کھوئی ہوئی زمین بتدریج ہی حاصل ہو سکتی ہے اور اس کے لیے ’فوجی اور سفارتی‘ دونوں محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہو گی۔فی الحال یوکرین اس جنگ میں ہار ماننے کو تیار نہیں ہے۔ لیکن اس بات پر اتفاق رائے بڑھتا جا رہا ہے کہ کسی نہ کسی مرحلے پر اس تنازع کے حل کے لیے دوسرے طریقوں پر غور کرنا پڑے گا۔حالیہ ناکامیوں کے بعد بھی ایسا لگتا ہے کہ یوکرینیوں کا لڑنے کا جذبہ ابھی بھی زندہ ہے۔خارکیو میں یوکرین کو کوئی خاص نقصان برداشت نہیں کرنا پڑا ہے۔ درحقیقت یوکرین ایک بار پھر ثابت کر رہا ہے کہ وہ مشکل حالات میں بھی مقابلہ کر سکتا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.